خبریں

مہاراشٹر: گڑھ چیرولی میں چل رہا ہے  خود سپردگی کا کھیل

2003 میں مہاراشٹر حکومت نے نکسل مخالف مہم کے تحت گاؤں کو ‘ نکسل سے آزاد ‘ بنانے کے لئے انعام دینا شروع کیا۔ اس عمل میں عام گاؤں والوں کو نکسلی بتاکر فرضی خود سپردگی کروایا جا رہا ہے۔

بیوی سنیتا کے ساتھ دشرتھ گاؤڈے (فوٹو : سکنیا شانتا)

بیوی سنیتا کے ساتھ دشرتھ گاؤڈے (فوٹو : سکنیا شانتا)

ضلع صدر دفتر سے 110 کلومیٹر دور کرکھیڑا تحصیل میں واقع گڑھ چیرولی کے آخری گاؤں تک کا سفر مشکلوں سے بھرا ہے۔  گاڑی جیسےجیسے لواری کے قریب پہنچتی ہے، کنکریٹ کی بنی سڑک غائب ہونے لگتی ہے۔آخری چار کلومیٹر تو مٹی کی بےحد اوبڑکھابڑ سڑک سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جس پر گاڑی چلاکر گاؤں تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے، بشرطیکہ مقامی لوگ آپ کی مدد نہ کریں۔

اس علاقے کی دوری گاؤں والوں کو ریاست کی سب سے طاقتور پولیس اکائی اینٹی نکسل سیل کے خلاف کھڑے ہونے میں آڑے نہیں آئی، جب اس اکائی کے ذریعے 15 دسمبر، 2017 کو ‘ نکسلی خودسپردگی ‘ کے بعد گونڈ کمیونٹی کے 27 سالہ آدیواسی جوان دشرتھ گاؤڈے کو حراست میں لیا گیا۔

اس خود سپردگی کا انعقاد ضلع کے سی-60 کمانڈو (مہاراشٹر پولیس کا خصوصی نکسل مخالف دستہ) کے ذریعے کیا گیا تھا۔ گاؤڈے کو 65 دنوں تک غیرقانونی حراست میں رکھا گیا۔لیکن گاؤڈے کی بیوی سنیتا نے معاملے میں خاموش ناظر بن کر ناانصافی سہنے سے انکار کر دیا۔  انہوں نے بتایا کہ یہ مبینہ خود سپردگی صاف طور پر غیرقانونی تھی۔  وہ اس کے خلاف مجسٹریٹ کی عدالت میں گئیں، جس نے ان کی بات سے اتفاق ظاہر کیا۔

17 فروری کو گڑھ چیرولی جوڈیشیل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس کورٹ (جے ایف ایم سی) کے مجسٹریٹ این سی بورپھالکر نے گاؤڈے کی فوراً رہائی کا حکم دیا۔  ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے۔22 دسمبر کو گڑھ چیرولی کے مقامی میڈیا نے ضلع کلکٹر شیکھر سنگھ کی قیادت والی تفتیش اور بازآبادکاری کمیٹی کے سامنے ‘ پرانے نکسلی ‘ گاؤڈے کی ‘  خود سپردگی ‘ کو ضلع پولیسکی بڑی کامیابی بتاتے ہوئے نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔

یہ اس کو حراست میں لئے جانے کے آٹھ دن بعد کی بات ہے۔   گڑھ چیرولی پولس کے اینٹی نکسل سیل کے مطابق گاؤڈے 2012 سے 2015 کے درمیان مسلح تحریک میں فعال طور سے شامل تھا اور کم سے کم ‘ دو گولی باری ‘ میں شامل تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک سے نفرت ہو جانے اور پولیس کی مسلسل کارروائی نے اس کو خود سپردگی کرنے کے لئے راغب کیا۔  لیکن، اس فرضی خود سپردگی کے فوراً بعد، زور زبردستی اور پولیس کے دباؤ کی پریشان کرنے والی کہانی سامنے آئی۔رہائی کے چار دن بعد گاؤڈے نے دی وائر کو بتایا، ‘ مجھے دو مہینے تک گندے کمرے میں بند کرکے رکھا گیا تھا۔  وہ گھنٹوں تک مجھ سے میرے نکسلی تعلقات کے بارے میں پوچھتے تھے۔  جب میں نے ان سے کہا کہ میں بےقصور ہوں، تو انہوں نے مجھے بری طرح سے پیٹا۔  ‘گاؤڈے اپنی بیوی اور اپنی 10 ماہ کی بچّی کے ساتھ لواری گاؤں میں اپنے آبائی گھر میں رہتے ہیں۔  چار بیٹوں میں سب سے بڑے گاؤڈے چار ایکڑ کی خاندانی زمین پر زراعت کرتے ہیں اور اس کی پیداوار مقامی بازار میں بیچتے ہیں۔

گاؤڈے نے دی وائر کو بتایا کہ کسی مسلح سرگرمی میں شامل ہونے اور تین سال جنگل میں رہنے کی بات تو جانے ہی دیجئے، وہ کبھی بھی ایک یا دو دن سے زیادہ وقت کے لئے گاؤں سے باہر نہیں گئے۔  جن گاؤں والوں سے ہم نے بات کی، انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔خود سپردگی کرنے والے نکسلی کے بازآبادکاری کیمپ میں دو مہینے سے زیادہ وقت گزار‌کر، وہ ایک بار پھر اپنے گاؤں لوٹ آئے ہیں اور 15 دسمبر، 2017 سے شروع ہوئے واقعے کو اچھی طرح سے یاد کرتے ہیں، جب سادہ کپڑوں میں آئی دس لوگوں کی ٹیم نے ان کے دروازے پر دستک دی تھی۔

‘ انہوں نے اپنی پہچان سی 60 (کمانڈو دستے) کے طور پر دی اور ان میں سے دو نے نزدیک کے پورادا پولیس اسٹیشن سے ہونے کا دعویٰ کیا۔  انہوں نے اس کو روٹین پوچھ تاچھ بتاتے ہوئے مجھے ان کے ساتھ گڑھ چیرولی پولیس ہیڈ کوارٹر چلنے کو کہا۔  ‘

آگے انہوں نے بتایا، ‘ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اسی دن 3 بجے تک چھوڑ دیا جائے‌گا۔  لیکن مجھے پتا تھا کہ اگر میں پولیس کے ساتھ گیا، تو پھر کبھی واپس اپنے گھر نہیں آ پاؤں‌گا۔  ‘ اور ہوا بھی ایسا ہی۔پولیس افسروں نے گاؤڈے سے ان کی رضامندی نہیں لی، نہ ہی ان کو اپنے ساتھ لےکر جانے کی وجہ ہی بتائی۔  گاؤڈے کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کے خلاف کوئی مجرمانہ معاملہ درج نہیں تھا-اور ایسا کبھی ہوا بھی نہیں تھا، اس لئے انہوں نے حراست میں لئے جانے کی مخالفت کی۔

جب پولیسنے ان کو گھسیٹنا شروع کیا، تب سنیتا ان سے لپٹ گئیں اور شوہر کے ساتھ جانے کو کہنے لگی ۔  دوسرے رشتہ دار اور گاؤں والے گاؤڈے کی حراست کی وجہوں کو جاننے اور اس کو رہا کرانے کی تدبیر  کرنے کے لئے پیچھے رہ گئے۔سنیتا کہتی ہیں، ‘ میں نے پولیس کو اپنے گھر میں گھسنے نہیں دیا۔  مجھے یہ ڈر تھا کہ وہ میرے گھر میں کچھ رکھ دیں‌گے اور بعد میں اس کا استعمال میرے شوہر کے خلاف ثبوت کے طور پر کریں‌گے۔  جب انہوں نے بزورِقوت میرے شوہر کو لے جانا چاہا، تو میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔  میں زور زور سے چلّانے لگی۔  ہنگامہ کھڑا ہو جانے کے ڈر سے انہوں نے مجھے بھی ساتھ آنے دیا۔  ‘

 گڑھ چیرولی پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچنے پر، سنیتا کو داخلہ دروازہ پر ہی روک دیا گیا اور گاؤڈے کو ایک کمرے میں لے جایا گیا، جو سنیتا کے مطابق ایک ‘ پوچھ تاچھ کمرے ‘ کی طرح لگتا تھا۔سنیتا کہتی ہیں، ‘ انہوں نے مجھے گھر لوٹ جانے اور میرے شوہر کا راشن اور آدھار کارڈ لانے کے لئے کہا۔  میں ان سے لگاتار اپنے شوہر کےحراست میں لئے جانے کی وجہ پوچھتی رہی، لیکن، پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔  پھر 2 بجے کے قریب ہمیں کہا گیا کہ گاؤڈے کو خود سپردگی کرنے والے نکسلی کے طور پر پیش کیا جائے‌گا۔  ‘

ایک نکسلی کی ‘ خود سپردگی ‘ ایک لمبا عمل ہے۔  2005 میں شروع کیا گیا اس منصوبہ کے مطابق براہ راست طریقے سے مسلح تحریک میں شامل رہنے والے یا یابالواسطہ طریقے سے اس کو حمایت دینے والے شخص کو پولیس کیمپ میں 2 مہینے بازآبادکاری کے طور پر گزارنے کے بعد عام زندگی میں پھر سے لوٹنے کا موقع ملتا ہے۔اس کو اگلے 10 مہینے گاؤں سے باہر گزارنے پڑتے ہیں۔  خود سپردگی کرنے والے شخص کو انعام کے طور پر قسط میں 4.5 لاکھ روپے ملتے ہیں۔

پچھلے قریب ایک دہائی کے دوران ریاستی حکومت نے اس پروگرام کے مد میں مرکز سے الگ سے ملنے والے فنڈ کے علاوہ اپنی طرف سے بھی کافی بڑی رقم کا مختص کیا ہے۔سرکاری دعووں کے مطابق 700 سے زیادہ مسلح باغیوں نے ابتک اس کے تحت خود سپردگی کی ہے۔  حال ہی میں ریاست کے محکمہ داخلہ نے نکسلی کے لئے خود سپردگی کے منصوبہ کو 28 اگست، 2019 تک بڑھا دیا ہے۔

سنیتا بتاتی ہیں کہ پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) ابھینو دیش مکھ کے دفتر میں ان کو لگاتار یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ اس قدم سے ان کی فیملی کو کتنا فائدہ ہوگا۔  ‘ انہوں نے کہا کہ اگر میں خاموش رہی، تو راتوں رات لاکھ پتی بن جاؤں‌گی۔  ‘

سنیتا کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کو اور اس وقت تک  پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچ چکے گاؤں والوں سے ‘ تعاون ‘ کرنے کے لئے اور گاؤڈے کو دو مہینے تک کیمپ میں رہنے دینے کے لئے کہا۔سنیتا کہتی ہیں، ‘ میں خاموش رہنے اور اپنے شوہر کے ایک سال بعد لوٹنے کی شرط پر لاکھوں روپے لےکر آگے کی زندگی خوشی سے گزارنے کا راستہ چن سکتی تھی۔  لیکن، مجھے یہ بھی پتا تھا کہ اس کی قیمت مجھے اپنی عزتِ نفس سے چکانی پڑے‌گی اور میرے شوہر پر کبھی نہ مٹایا جا سکنے والا داغ لگ جائے‌گا۔  میں کسی بھی قیمت پر ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔  ‘

مقامی میڈیا میں دشرتھ گاؤڈے کی خود سپردگی کی خبر (فوٹو : سکنیا شانتا)

مقامی میڈیا میں دشرتھ گاؤڈے کی خود سپردگی کی خبر (فوٹو : سکنیا شانتا)

کسی قانونی وجہ کے بغیر شوہر کو ایک طرح کی حراست میں لے لئے جانے کے بعد پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر ہی انہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔  پولیس مجھ سے میرے شوہر کی پہچان سے متعلق دستاویز مانگتی رہی، لیکن میں ان کے دباؤ میں نہیں آئی۔میں نے اپنی سسرال والوں اور دوسرے گاؤں والوں کو اعتماد میں لیا اور ان کو کہا کہ ہم سب کو مل‌کر پولیس کے خطرناک ارادوں کو ناکام کرنا ہوگا۔جس وقت سنیتا مقامی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کر رہی تھیں اور گڑھ چیرولی اور ناگ پور میں وکیلوں سے مشورہ کر رہی تھیں، اس وقت ان کے شوہر کو ان کوششوں کی کوئی جانکاری نہیں تھی۔

سنیتا یاد کرتی ہیں، ‘ گڑھ چیرولی (پولیس ہیڈکوارٹر) چھوڑنے سے پہلے میں نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ آپ مجھ پر اعتماد رکھیے، میں آپ کو یہاں سے ضرور باہر نکالوں‌گی۔  ان دو مہینوں میں میری ان سے وہی آخری بات چیت تھی۔  ’15 سے 21 دسمبر تک پولیس نے گاؤڈے کی حراست کو عام نہیں کیا۔  22 دسمبر کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی اور میڈیا کو ان کی خود سپردگی کی خود سے تیار کی گئی کہانی سنائی۔  اس علاقے کے میڈیا میں اسے نمایاں طور پر چھاپا گیا۔

گاؤڈے کے وکیل جگدیش میشرام کہتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔  سنیتا لڑنے کے لئے تیار تھیں، لیکن ہم اس بات کو لےکر پکانہیں تھے کہ کیا پولیس دشرتھ کے حوصلے کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے‌گی؟’ آخر ان کو دو مہینے تک بند کرکے رکھا گیا تھا اور ان کو فیملی والوں کے ساتھ ہی باہری دنیا کے کسی بھی آدمی سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔  ‘

ہائی کورٹ میں گرفتار کئے گئے شخص کو پیش کئے جانے کی رٹ دائر کرنے کی جگہ میشرام نے مجرمانہ پروسیجرکوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 97 کے تحت گڑھ چیرولی میں جے ایم ایف سی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔

چونکہ، اس دفعہ کا استعمال زیادہ تر ازدواجی جھگڑوں میں اولادوں کی کسٹڈی کے لئے کیا جاتا ہے، اس لئے پولیس نے اس کو سنیتا اور اس کے وکیل کی طرف سے ایک کمزور کوشش کی طرح دیکھا۔میشرام کہتے ہیں، ‘ جب ہم ہائی کورٹ جاتے ہیں، تو وہ زیادہ چوکنّے رہتے ہیں اور پوری تیاری کرکے آتے ہیں۔  حقیقتوں کو چھپانے کے لئے وہ اضافی دھیان دیتے ہیں، لیکن چونکہ ہم نے مجسٹریٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، اس لئے پولیسنے اس کو ہلکے میں لیا۔  یہ بات ہمارے حق میں گئی۔  ‘

17 فروری کو مجسٹریٹ نے گاؤڈے کو فوراً رہا کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ گاؤڈے کو 64 دنوں تک غیر قانونی طریقے سے بند کرکے رکھا گیا۔  ایسا تب کیا گیا جب گاؤڈے نے کورٹ کو یہ کہا کہ اس کو اس کی مرضی کے خلاف حراست میں لیا گیا تھا۔پوچھ تاچھ کے دوران گاؤڈے نے کورٹ سے کہا، ‘ میں نے پولیس کے سامنے خود سپردگی نہیں کی تھی۔  میں کبھی کسی نکسلی سرگرمی میں شامل نہیں تھا۔  ‘کورٹ نے تبصرہ کیا، ‘ دشرتھ کو جس طرح سے نگرانی میں رکھا گیا ہے وہ قید کرکے رکھے جانے کی مانند ہے، اس لئے اس کو فوراً رہا کیا جانا چاہئے۔  انصاف کے مفاد میں میں یہ فیصلہ سناتا ہوں۔  ‘

دی وائر نے گڑھ چیرولی کے ایس پی دیش مکھ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، جن کی نگرانی میں یہ ‘ خود سپردگی ‘ کرائی گئی تھی۔  ان کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ کسی ٹریننگ کے سلسلے میں حیدر آباد گئے ہوئے ہیں۔ضلع پولیسکے انچارج ایڈیشنل ایس پی ماہیشور ریڈّی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ‘ خود سپردگی سے پہلے تمام مناسب نکات پر عمل کیا تھا۔  گاؤڈے نے خود سپردگی کرنے کی رضامندی دی تھی۔  ہم نے ایک ہفتے تک اس کی کاؤنسلنگ کی تھی اور اس کے بعد اس کو کلکٹر کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا۔  لیکن، ایسا لگتا ہے کہ وہ نکسلی کے خوفناک دباؤ میں ہے، جس کی وجہ سے اس کو اپنے بیانات سے پیچھے ہٹنا پڑا۔  ‘ریڈّی نے یہ بھی جوڑا کہ وہ اس معاملے کو پھر سے دیکھیں‌گے اور اس معاملے میں دوسرے نکسلی اور اس کی بیوی کے کردار کی جانچ کریں‌گے۔

خود سپردگی کرنے کی خواہش رکھنے والے نکسلی کو جس ‘ بازآبادکاری کیمپ ‘ میں رکھا جاتا ہے، وہ پولیس ہیڈکوارٹر کے پاس ایک قلعہ نما تین منزلہ عمارت ہے۔مقامی پولیس ذرائع کے مطابق اس میں درجنوں لوگوں کو بند کرکے رکھا گیا ہے۔  ا س کے داخلہ دروازہ پر بندوق بردار جوانوں کا زبردست پہرا ہے۔  اس نامہ نگار کو ‘ حفاظتی وجہوں ‘ سے اس عمارت میں جانے سے روک دیا گیا۔

گاؤڈے کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں گزارا ہوا وقت کسی جہنم میں رہنے کی طرح تھا-‘ تی جگہا نرکا پیکچھا کمہی نوہاتٹ (یہ جہنم سے تھوڑا سا بھی کم نہیں تھا)۔  ان کو ایک چھوٹے سے کمرے میں، جس میں نہ کوئی پنکھا تھا، نہ کوئی روشن دان تھا، اکیلے رکھا گیا تھا۔  اس کو صرف سینئر پولس افسر، جس کا نام اس کو نہیں پتا ہے، کہ پاس لے جاتے وقت کمرے سے باہر قدم رکھنے کی اجازت ملتی تھی۔  ‘

گاؤڈے یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ ان کو بری طرح سے پیٹا گیا اور زبردستی سرینڈر پیپر پر دستخط کرنے کومجبور کیا گیا۔گاؤڈے کہتے ہیں، ‘ وہ ہر روز میری کوٹھری میں آتے تھے اور مجھے پیٹتے تھے۔  ان کو مجھ سے سادہ پیپر پر دستخط کرانے کی کوشش کی۔ میرے انکار کرنے پر انہوں نے مجھے انکاؤنٹر میں مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ ‘

گاؤڈے کی کمر میں زبردست درد ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ درد ان کو ریڑھ کی ہڈی میں مارے جانے کے بعد شروع ہوا۔گاؤڈے کے مطابق، ان کو دو مرتبہ کیمپ سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر ایک جنگل لے جایا گیا۔  ‘ مجھے حراست میں لینے کے تین دن بعد پانچ پولیس والے مجھے ایک جنگل میں لےکر گئے۔  انہوں نے مجھے گاڑی سے اتر جانے اور جنگل میں دوڑنے کے لئے کہا۔  انہوں نے مجھ سے کہا کہ آج رات ہم تمہارا قتل کر دیں‌گے اور کسی کو اس کے بارے میں پتا بھی نہیں چلے‌گا۔  میں سچ مچ ڈر گیا تھا۔  ‘

گاؤڈے بتاتے ہیں کہ پندرہ دن  کے بعد ان کو پھر اسی جنگل میں لے جایا گیا۔  اس بار انہوں نے مجھے صاف طور پر یا تو کاغذات پر دستخط کرنے یا انکاؤنٹر میں مارے جانے کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے کہا۔لیکن، 17 ستمبر کو جب کورٹ میں گاؤڈے سے ان کے ساتھ کئے گئے خراب سلوک کے بارے میں پوچھا، تب انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔اس پر انہوں نے دی وائر کو کہا، ‘ میں ڈرا ہوا تھا۔  انہوں نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے ان کے خلاف زبان کھولی، تو وہ مجھے اور میری فیملی کو مار ڈالیں‌گے۔  ‘

عام طور پر خود سپردگی کرنے والا شخص یہاں (بازآبادری کیمپ میں) دو مہینے کے لئے رہتا ہے۔  اس مدت میں نکسل مخالف اکائی کئی دنوں تک اس شخص سے پوچھ تاچھ کرتی ہے۔خفیہ جانکاری اکٹّھا کرتی ہے اور اس شخص کے خلاف معاملوں کا (اگر کوئی معاملہ ہے تو) مطالعہ کرتی ہے۔  آخر میں ان معاملوں پر فیصلہ لیا جاتا ہے، جن میں اس شخص کے خلاف مقدمہ چلایا جائے‌گا اور جن میں وہ معافی کے لئے اپیل کر سکتا ہے۔اس طرح کی خود سپردگی پالیسی اڑیسہ ، چھتیسگڑھ اور جھارکھنڈ میں چل رہی ہیں۔

گاؤڈے نے بتایا، ‘ کیمپ میں رکھے گئے زیادہ تر ‘ خود سپردگی کرنے والے ‘ نکسلی تیلگو بولنے والے ہیں۔  ان کو وہاں مہینوں سے رکھا گیا ہے۔  وہ وہاں باورچی خانہ چلاتے ہیں اور سیکورٹی اہلکار کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔  میری حراست اور میری رہائی سے جڑی زیادہ تر جانکاریاں مجھے ان لوگوں نے ہی دی۔ ‘

اس خود سپردگی کو اصلی دکھانے کے لئے، گاؤڈے کو غیرقانونی طریقے سے حراست میں رکھنے کے علاوہ پولیس نے کافی پھرتی سے پولیس ہیڈکوارٹر کے ٹھیک سامنے واقع مقامی گڑھ چیرولی ضلع کوآپریٹیو بینک میں ان کا ایک بچت کھاتا کھلوا دیا۔جانکاری کے مطابق ہر خود سپردگی کے بدلے میں پولیس اس برانچ میں ایک کھاتا کھولتی ہے اور انعام کے طور پر دی جانےوالی رقم کو ان کے کھاتوں میں قسطوں میں جمع کرا دی جاتی ہے۔

بینک کے برانچ مینجر اے کے پاترے کے مطابق، بینک کے ذریعے گاؤڈے کا کھاتا ‘ نو یور کسٹمر ‘ (کے وائی سی) طریقہ کار پر عمل کرنے کے بعد کھولا گیا۔  ‘ یہ کھاتہ پولیس کے ذریعے ان کو بینک لےکر آنے اور اور ان کا دستخط سمیت دیگر دستاویز دستیاب کرانے کے بعد کھولا گیا۔  ‘

لیکن، گاؤڈے نے پاترے کے دعویٰ کو مسترد کردیا اور کورٹ کے سامنے کہا کہ اس کو کبھی بینک نہیں لے جایا گیا تھا اور بینک کے کاغذ پر کیا گیا دستخط بھی ان کا نہیں تھا۔گاؤڈے نے دی وائر کو بتایا، ‘ بینک کے پاس بک پر مراٹھی میں دستخط تھا، جبکہ میں انگریزی میں دستخط کرتا ہوں۔  ‘ چونکہ پولیس بھی کاغذات کی اصلی کاپی پیش نہیں کر پائی، اس لئے کورٹ نے بھی گاؤڈے کے بیان کو قبول‌کر لیا۔

یہ لواری گاؤں کی پہلی خود سپردگی نہیں ہے۔  گاؤڈے کے معاملے سے دو مہینے پہلے، ایک 25 سالہ خاتون کملا گاؤڈے کو اسی طرح سے اٹھا لیا گیا تھا۔کملا کی ماں سکماری یاد کرتی ہیں، ‘ وہ لوگ بڑی تعداد میں صبح صبح پہنچ گئے اور ہم سے ہماری بیٹی کو سرینڈر کرنے کے لئے کہا۔  انہوں نے کہا کہ وہ اس کو دو مہینے بعد محفوظ پہنچا دیں‌گے۔’  اس فیملی کو بھی پیسے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔سکماری نے دی وائر کو بتایا، ‘ کملا کو 25 دسمبر تک کیمپ میں رکھا گیا۔  اس کے لئے ایک بینک کھاتہ کھولا گیا اور اس میں 2.5 لاکھ روپے جمع کرا دئے گئے۔  باقی کا 2 لاکھ ابھی تک نہیں دیا گیا ہے۔  ‘

سکماری گاؤڈے کی 25 سالہ بیٹی کملا کو بھی پولیس نے خود سپردگی کے نام پر اٹھا لیا تھا۔  (فوٹو : سکنیا شانتا)

سکماری گاؤڈے کی 25 سالہ بیٹی کملا کو بھی پولیس نے خود سپردگی کے نام پر اٹھا لیا تھا۔  (فوٹو : سکنیا شانتا)

حالانکہ، کملا نے بھی خود سے سپردگی نہیں کی تھی، مگر پیسے کے لین دین اور کسی قانونی مدد کی کمی کی وجہ سے اس کی آواز دب‌کر رہ گئی۔  اب اس فیملی کو یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آخر وہ اس کیس کا مقابلہ کس طرح سے کرے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس کی بیٹی نکسلی تھی، سکماری فوراً ‘ نہ ‘ میں جواب دیتی ہیں، لیکن کچھ وقت سوچنے کے بعد کہتی ہیں کہ ‘ وہ چار سال کے لئے گھر سے باہر تھی۔  ‘جب ان سے اس کے گھر سے باہر رہنے کے وقت کے بارے میں پوچھا گیا، تو سکماری بس اتنا کہہ پائی کہ ‘ یہ بہت پہلے کی بات ہے۔  ‘کچھ منٹ کی بات چیت کے بعد سکماری نے کہا، ‘ نہیں، میری بیٹی کبھی بھی تحریک میں نہیں تھی، نہ ہی اس کے خلاف کوئی معاملہ درج ہے۔  ‘

کملا اب پڑوس کی کورچی تعلقہ میں اپنے چچا کے گھر میں رہتی ہے، کیونکہ اگلے ایک سال تک اس پر اپنے گاؤں واپس جانے کی پابندی ہے۔  اس بیچ اس کی فیملی نے اس کی شادی طے کر دی ہے۔گاؤں کے سابق سرپنچ اور ایک فعال رہنما انتو کموتے نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ خود سپردگی کی یہ کہانیاں ایک دوسرے سے بہت زیادہ ملتی ہیں۔  ‘ وہ 4.5 لاکھ کے انعام پر اتنا زور دیتے ہیں کہ فیملی والوں  کو یہ لگتا ہے کہ سسٹم کے خلاف لڑائی لڑنے سے اچھا ہے کہ پیسے لے لئے جائیں۔  ‘

2003 میں اپنے نکسلی مخالف مہم کے حصے کے طور پر حکومت نے مسلح باغیوں کو بھگانے اور خود کو ‘ نکسل آزاد گاؤں ‘ بنانے والے گرام سبھاؤں کو انعام دینے کی شروعات کی۔ایک بار نکسل آزاد اعلان کر دئے جانے کے بعد گاؤں کو افادی پروگراموں کو چلانے کے لئے 3 لاکھ کا انعام دیا جانا تھا۔  پچھلے 15 سالوں میں گڑھ چیرولی کے 1681 گاؤں میں سے 872 گاؤں خود کو ‘ نکسل آزاد ‘ اعلان کر چکے ہیں۔

نکسل وادی آزاد گاؤں اسکیم اور رضاکارانہ خود سپردگی اسکیم کو ایک ساتھ چلایا جاتا ہے۔  لیکن، مقامی کارکن دونوں ہی پروگراموں میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔بھاکپا کے ضلع نمائندہ انمول مرکوار نے کہا، ‘ فرضی خود سپردگی ڈرامے کی ہی طرح، زیادہ تر گاؤں کو، جن میں نکسلی سرگرمی کا کوئی نام ونشان نہیں تھا، اس اسکیم کے تحت نکسل  آزاد اعلان کر دیا گیا اور ان کو انعام میں پیسے دئے گئے۔  ریاستی حکومت اصل مسئلے سے نمٹے بغیر ہی مسئلہ کے حل کی سمت میں اپنی کامیابی دکھانا چاہتی ہے۔  ‘

 گڑھ چیرولی ضلع دیہی ترقی ایجنسیوں (ڈی آر ڈی اے) کے مطابق، جو کہ اس اسکیم کے تحت فنڈ بانٹے جانے کے لئے ذمہ دار ہے، صرف 2017-18 میں ریاست نے 193 گاؤں میں تقسیم کرنے کے لئے 5.79 کروڑ روپے کا انتظام کیا تھا۔  لیکن ابھی تک صرف 90 گاؤں ہی فنڈ لینے کے لئے راضی ہوئے ہیں۔

ڈی آر ڈی اے دفتر میں کنسلٹینٹ گجانن داہیکر کا کہنا ہے، ‘ ہم فنڈ منظور کرنے کے لئے 103 گاؤں کے رابطہ میں ہیں۔  اگر وہ پیسے نہیں لیتے ہیں، تو یہ پیسہ واپس چلا جائے‌گا۔  ‘ لوگوں اور گاؤں کے لئے پیسوں کا لالچ بڑا ہو سکتا ہے۔  اس کے علاوہ حکومت سے مقابلہ کرنا آسان کام بھی نہیں ہے۔  لیکن، جیسا کہ دشرتھ گاؤڈے کے معاملے نے دکھایا ہے، ہرکوئی نکسلی کا ٹھپا لگواکر اور خود سپردگی کرکے انعام منظور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

گاؤڈے جوڑے کو امید ہے کہ ان کی جیت‌کے بعد کسی بے قصور آدیواسی کو غلط طریقے سے پھنسانے سے پہلے پولیسدس بار سوچے‌گی۔سنیتا نے کہا، ‘ ہم صرف یہ امید کرتے ہیں کہ دوسرے متاثرین بھی ہماری جدو جہد سے سیکھیں اور پولیس کے دباؤ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکیں۔  ثابت قدم ہوکر لڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔  ‘