خبریں

یوگی حکومت کے ذریعے مظفرنگر فسادات سے جڑے 131 معاملے واپس لینے کا عمل شروع

پچھلے مہینے مرکزی وزیر سنجیو بالیان، بُڑھانا ایم ایل اے امیش ملک اور کھاپ رہنماؤں کے نمائندگان نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مظفرنگر فسادات سے جڑے 179 معاملے رد کرنے کی فہرست سونپی تھی۔

وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : اترپردیش حکومت کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت 2013 میں ہوئے مظفرنگر فسادات سے جڑے 131 معاملے واپس لینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔  شاملی اور مظفرنگر میں ہوئے فسادات سے جڑے 131 معاملوں میں سے 13 معاملے قتل اور 11 قتل کرنے کی کوشش سے متعلق ہیں۔  فسادات کی وجہ سے تقریباً 62 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور ہزاروں لوگ کو اپنا گھر چھوڑنا پڑاتھا۔

انڈین ایکسپریس کے ذریعے جانچے گئے دستاویزوں کے مطابق،  ضابطہ تعزیرات ہند کے مطابق فسادات کے تعلق میں بہت سارے سنگین معاملے ہیں، جن میں کم از کم سات سال کی سزا کا اہتمام ہے۔  16 دیگر معاملے دفعہ153اے (فرقہ پرستی کی بنیاد پر دشمنی کو بڑھاوا دینا) کے تحت درج ہیں۔  دو معاملے ایسے ہیں، جن میں جبراً کسی کے مذہبی جذبات کو چوٹ پہنچانے کے چلتے 295 اے کے تحت درج کئے گئے ہیں۔

اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کی حکومت کے وقت ستمبر 2013 میں ہوئے فسادات کے بارے میں مظفرنگر اور شاملی پولیس تھانوں میں 1455 لوگوں کے خلاف 503 معاملے درج کئے گئے تھے۔معاملہ واپس لینے کا عمل تب شروع ہوا، جب مظفرنگر اور شاملی کے کھاپ رہنماؤں کے نمائندگان کے ساتھ مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان سنجیو بالیان اور بڑھانا ایم ایل اے امیش ملک نے اس سال پانچ فروری کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے مل‌کر 179 معاملوں کی فہرست سونپی تھی۔مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کو سونپی گئی مجرموں کی فہرست صرف ہندو کمیونٹی کے لوگوں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس کے بعد  23 فروری کو اتر پردیش کے محکمہ قانون  نے مظفرنگر اور شاملی کے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ‌کر 13 نکات کے تحت 131 مقدموں کی تفصیل مانگی تھی۔  اس خط پر خصوصی سکریٹری راجیش سنگھ کے دستخط تھے۔سرکاری ذرائع کے حوالے سے انڈین ایکسپریس نے بتایا کہ ضروری تفصیل کے لئے ضلع مجسٹریٹ نے اس خط کو پولیس سپرنٹنڈنٹ اور متعلق افسروں کو بھیج دیا تھا۔

حالانکہ، ریاست کے چیف سکریٹری (ہوم) ارویند کمار نے بتایا کہ ان کو مقدمہ واپس لینے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے اور یہ معاملہ محکمہ قانون  دیکھتا ہے۔  محکمہ قانون کے خاص سکریٹری نے انڈین ایکسپریس کو اس تعلق سے بیان دینے سے منع کر دیا۔  حالانکہ محکمہ کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خط کو بھیجا گیا ہے۔

جبکہ بالیان نے کہا، ‘ پچھلے مہینے وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں ، میں نے ان سے 179 معاملوں کو رد کرنے کی گزارش کی تھی جس میں 850 ہندوؤں کو ملزم بنایا گیا ہے۔  یہ تمام معاملے مظفرنگر اور شاملی ضلعوں میں درج ہیں۔  یہ معاملے قتل سے متعلق نہیں بلکہ آگ زنی، قتل کی کوشش اور جائیداد کے نقصان سے جڑے ہیں۔  ‘

حالانکہ بالیان کے بیان کے برعکس بی جے پی ایم ایل اے امیش ملک نے کہا ہے کہ معاملے ردکرنے کی فہرست میں قتل کے معاملے بھی شامل ہیں۔  ملک نے آگے کہا، ‘ فہرست لینے کے بعد وزیراعلیٰاس پر غور کرنے کے لئے محکمہ قانون  کے پاس بھیجنے کی بات کہی ہے۔  میں نہیں جانتا کہ اب اس فہرست کی کیا حالت ہے۔  ‘

پانچ جنوری کو ریاستی حکومت نے ملک کے خلاف نو معاملوں کو واپس لینے پر مظفرنگر انتظامیہ سے ایک رپورٹ مانگی تھی، جن میں فسادات کے دو معاملے شامل تھے۔نوبھارت ٹائمس کے مطابق نمائندگان نے سی ایم کو بتایا تھا کہ فسادات کے بعد آگ زنی کے 402 فرضی مقدمے درج کروائے گئے تھے، جن میں 100 سے زیادہ بےقصور خواتین بھی نامزد ہیں۔رکن پارلیامان سنجیو بالیان نے بتایا کہ سی ایم سے ملنے والوں میں بالیان، اہلاوت اور گٹھوالا کھاپ‌کے لوگ شامل تھے۔  بالیان نے دعویٰ کیا کہ فسادات کے بعد وہاں کے لوگوں نے گھروں میں لحاف میں آگ لگاکر، یہ دکھا دیا کہ ان کے گھر میں آگ زنی ہو گئی ہے۔

بالیان نے بتایا کہ پچھلی حکومت نے ان کو پانچ پانچ لاکھ روپے معاوضہ بھی دے دیا، جبکہ آگ زنی کے واقعات صرف معاوضہ حاصل کرنے کے لئے کئے گئے تھے۔ 2017 میں دونوں فریقوں کے لوگوں نے دہلی میں سابق وزیراعلیٰملائم سنگھ یادو سے ملاقات کر کےسمجھوتہ کرنے کی کوشش کی تھی۔  جس کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل بھی ہوئی تھی، جس میں بالیان کے ساتھ پچھلی حکومت کے دو وزیر بھی شامل تھے۔اجلاس میں شامل دونوں پارٹیوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں کہ دونوں کمیونٹی پر چل رہے مقدمے واپس ہو جائیں۔