خبریں

سماجی انصاف کی تحریک ہی فرقہ پرستی کو روک سکتی ہے : شرد یادو

شرد یادو نے کہا کہ بی جے پی کے ذریعے پھیلائی جا رہی فرقہ پرستی کو سماجی انصاف کی تحریک ہی روک سکتی ہے۔  آج سماجی عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ کسان، دلت اور غریب طبقہ بےحد دقت میں ہیں۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

لکھنؤ :مرکز میں حکمراں بی جے پی کے خلاف حزب مخالف جماعتوں کو یکجا کرنے کی قواعد کر رہے جنتا دل یونائٹیڈ (جدیو) کے سابق رکن پارلیامان شرد یادو نے کہا کہ ملک میں سماجی انصاف کی تحریک ہی فرقہ پرستی کو روک سکتی ہے اور ملک میں سماجی انصاف کی لڑائی کبھی ختم نہیں ہوگی۔

اپنی مہم کے تحت گزشتہ دنوں لکھنؤ آئے یادو نے کہا ‘ اس ملک میں سب سے بڑی لڑائی اگر ہوئی ہے، تو وہ ہے سماجی انصاف کی لڑائی۔  وہ کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔  ہندوستان میں عام آدمی کے لئے ووٹ کا سہارا بھی یہی لڑائی ہے۔  بی جے پی کے ذریعے پھیلائی جا رہی فرقہ پرستی کو سماجی انصاف کی تحریک ہی روک سکتی ہے۔  آج سماجی عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ کسان، دلت اور غریب طبقہ بےحد دقت میں ہے۔  ‘

کبھی بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے  کے کنوینر رہ چکے یادو نے الزام لگایا کہ وہ بی جے پی کے خلاف پارٹیوں کو یکجا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، کیونکہ اس کی سوچ صرف فرقہ وارانہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین ملی جلی تہذیبوں کی پیروی کرتا ہے۔  ہندوستان میں ایک لاکھ سے زیادہ تو ذاتیں ہیں۔  ہمارے آباواجداد نے ملک کے بٹوارے کے بعد یہ آئین بنایا تھا۔  فرقہ وارانہ رواداری اس کی اصل بنیاد ہے۔  یہ آئین بڑی قربانیوں کے بعد ملا ہے۔

یادو نے کہا کہ اتر پردیش اس ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔  یہاں سے نکلنے والا سیاسی پیغام پورے ملک میں پہنچتا ہے۔  یہاں کی عوام کا سب سے بڑا فرض ہے کہ وہ مذہب و ذات کے نام پر کئے جا رہے بٹوارے پر ووٹ کی چوٹ کرے۔انہوں نے کہا کہ اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال سے بی جے پی اور اس کی معاون جماعتوں کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں، لیکن اب ان ریاستوں میں سیاسی فارمولا بدل چکا ہیں۔  سماج کا کوئی بھی طبقہ بی جے پی سے خوش نہیں ہے۔  اس بار بی جے پی کا ہندومسلم ایجنڈا نہیں چلے‌گا۔

یادو نے بی جے پی پر سیاسی بد عنوانی کو بڑھاوا دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ گووا اور منی پور میں کانگریس کی اکثریت تھی، مگر حکومت بی جے پی نے بنا لی۔ جمہوریت بنا اخلاقیات اور سماجیات کے نہیں چلتی ہے۔  میگھالیہ میں بھی کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی، اس کو ہی حکومت بنانی چاہیے، مگر بی جے پی نے نظریاتی مخالفوں کے ساتھ مل‌کے حکومت بنانے سے گریز نہیں کیا۔

بی جے پی سیاسی حدود کو توڑنے اور کسی بھی طرح سے حکومت بنانے کا ہدف لےکر چل رہی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے بجائے بیلٹ پیپر سے انتخاب کرانے کی سپا اور بسپا کی مانگ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا ‘ عوام سے ہٹلر بھی نہیں جیت پایا تھا۔  ای وی ایم کا بھی پکّا علاج ہوگا۔  گورکھ پور اور پھول پور لوک سبھا ضمنی انتخاب بھی تو ای وی ایم سے ہی ہوئے تھے۔  ‘

یادو نے کہا کہ انہوں نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب کہاں سے لڑیں‌گے۔