فکر و نظر

رویش کا بلاگ: غلام بینکروں کی داستان

مجھے پتا ہے کہ بینک کے ہیڈکوارٹر والے سینئر میرا ہر مضمون پڑھنے لگے ہیں۔اس لئے یہ لائن لکھ رہا ہوں۔بتانے کے لئے کہ جھوٹ کی دکان زیادہ دنوں تک نہیں چلتی ہے۔

Photo : MoneyControl.com

Photo : MoneyControl.com

کیا بینک آف انڈیا نے ایسا کوئی میسج نکالا ہے جس میں لکھا ہے کہ کوئی لنچ ٹائم نہیں ہوگا۔  کل سے اس آرڈرکی کاپی سیکڑوں کی تعداد میں میرے پاس پہنچ گئی ہے۔  اس میں لکھا ہے کہ ؛

All staff members of BOI Grant Road branch are hereby addressed that the branch does not have Lunch Time Henceforth no staff will leave his / her post for purpose of lunch

 یہ بھی لکھا ہے کہ آرڈرکی کاپی پر 20 مارچ 2018 کی تاریخ ہے۔  ہندی میں مطلب ہوا ہے کہ برانچ میں کوئی لنچ ٹائم نہیں ہے۔  کوئی بھی اسٹاف لنچ کے لئے کرسی چھوڑ‌کر نہیں جائے‌گا۔  میرے پاس آرڈر کی کاپی ہے۔جس  بےوقوف اور گستاخ نے یہ حکم نکالا ہے اس کو بھوک نہیں لگتی ہوگی۔  اگر یہی حالت رہی  تو اگلا حکم آئے‌گا کہ آپ پیشاب کرنے کے لئے کرسی سے نہیں اٹھیں‌گے، ہسپتال جاکر پائپ لگوا لیں اور کام کرتے کرتے فارغ ہوتے رہیں۔ایک Sovereign Gold Bond Scheme(ایس جی بی) آئی ہے۔  اس کو بینکروں کو ہی خریدنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ایک بینکر نے بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر اس بات کا سروے ہو جائے کہ کتنے بینکروں نے ایک گرام کا سونا خریدا ہے تو پتا چلے‌گا کہ اس کی تعداد لاکھوں میں ہیں۔اس نے بتایا کہ سارے بینکروں کو مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ سب ایک بڑا اعداد و شمار بن سکیں اور حکومت دعویٰ کر سکے کہ ہماری اسکیم اتنی کامیاب رہی ہے۔

بینکروں کا کہنا ہے کہ وہ اندر سے سمجھتے ہیں کہ یہ اسکیم اتنی اچھی بھی نہیں ہے تو جانتے ہوئے اپنے من سے کبھی نہیں خریدیں‌گے۔  بینکر پر دباؤ بنایا جاتا ہے کہ آج 50 گرام بیچنا ہی ہے۔نہیں بکتا تو ان کو چھٹی نہیں ملتی اور پرموشن نہیں ملتا  ہے ۔ لہٰذا وہ خود خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔آپ کو میں نے بتایا تھا کہ الٰہ آباد کے ملازمین‎ نے بھی ایسا ہی کہا تھا کہ ان سے شیئر خریدنے کے لئے کہا گیا جبکہ وہ نہیں لینا چاہتے تھے۔  بہت سے لوگوں نے بینک سے ہی لون لےکر بینک کا شیئر خریدا اور ڈوب گیا۔

بینک سریز اور غلام بینکروں کی داستان پر لکھے کئی مضامین سے اب تک آپ جان چکے ہیں کہ بینکروں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر پالیسی نہیں بکتی ہے تو خود خریدو۔  کرنسی لون لینے والا کوئی نہیں تو فرضی نام سے دے دو۔  جو لینے آئے اس کو بیمہ لینے پر مجبور کرو۔بیاج کے علاوہ پریمیم لاد دو۔بینکر جانتا ہے کہ یہ غلط ہے مگر جھوٹ کی سیاست نے غلط کو صحیح بنا دیا ہے۔  بینکروں پر وزیر اعظم کے ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے دباؤ بنایا گیا کہ وہ بھی اٹل پنشن یوجنا(اے پی وائی)  خریدیں۔  انہی کا آڈٹ ہو جائے کہ کتنے بینکروں نے خریدا ہے اور اس میں سے کتنوں نے دوبارہ پریمیم نہیں بھرا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک بار پریمیم دینے کے بعد اعداد و شمار چھپ جاتا ہے کہ اتنے کروڑ لوگوں نے اٹل پنشن یوجنا  لی ہے۔ڈیجیٹل پیمنٹ والے بھیم ایپ کو لےکر میرے پاس ایک خط آیا ہے۔  پیش کر رہا ہوں۔

” رویش سر، یہاں ایک بہت بڑے ڈیٹا کی جعل سازی ہو رہی ہے۔  BHIM اور USSD کے ٹارگیٹس شاخوں کو دئے گئے ہیں۔  جس میں ہمیں ہر معمولی آدمی کو بھی I  AM  MERCHANT میں رجسٹر کرنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا ہر غریب بھی کاروباری، اورکچھ وقت کے بعد ملک کے ہر غریب بےروزگار کو روزگار سے لیس بتاکر ملک کے سامنے غلط اعداد و شمار پیش کئے جائیں‌گے۔ہمارے بینک میں جو غریب آتا ہے ہم اس کا موبائل فون لیتے ہیں اس پر BHIM ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں پھر اس کے ہی موبائل پر اپنے موبائل سے ایک ایک روپے کا دس ٹرانزیکشن کرتے ہیں۔دس ٹرانزیکشن کرتے ہیں تب وہ مرچنٹ میں رجسٹر ہو جاتا ہے۔ہم اپنی جیب سے دس روپیہ لگاکر حکومت کا اعداد و شمار بڑھاتے ہیں۔ایک روپے کے ٹرانزیکشن سے ہی ڈیجیٹل یوزر کا ٹارگیٹ بڑھ جاتا ہے۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اتنے لاکھ نئے ڈیجیٹل یوزر آ گئے مگر آپ اس میں سے دس روپے والے ڈیجیٹل یوزر کا اعداد و شمار مانگیں‌گے تو بھانڈا پھوٹ جائے‌گا۔  “

ہمت کا جواب نہیں۔اٹل جی‌کے نام پر اسکیم بناکر جعل سازی ہو رہی  ہے اور ڈاکٹر امبیڈکر کے نام پر اپلیکیشن بناکر فرضی اعداد و شمار تیار کئے جا رہے ہیں۔  یہ گستاخی آج کے وقت میں ممکن ہے کیونکہ شہری اپنی شہریت سے دور جا چکا ہے۔وہ اپنی نظریاتی عقیدت، فرقہ پرستی اور ذات پرستی سے باہر نہیں آنا چاہتا۔  بینکروں کے ساتھ جو ہوا ہے، اس کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک اسٹیڈیم میں دس لاکھ لوگوں کو جمع کرکے ان کو غلام بنایا جا سکتا ہے، نہ صرف غلام بلکہ ان کی پرانی بچت بھی نکلوائی جا سکتی ہے۔ضرور بینکروں کا خون بھی ہندو مسلم سیاست سے توانائی پاکر دوڑتا ہوگا، تبھی تو وہ نہیں دیکھ پائے کہ نوٹ بندی فراڈ ہے، تمام بیمہ اسکیمیں فراڈ ہیں۔اب وہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ ان کا ان بیمہ اسکیموں میں یقین نہیں ہے کیونکہ یہ اسکیم خراب ہے۔  ہم اور آپ ان سب باتوں کو کہاں سمجھتے ہیں ظاہر ہے بازار کے ذریعے ہمارے ساتھ بڑا دھوکہ ہو رہا ہے۔اس لئے کہتا ہوں کہ اقتصادی خبروں میں آنکھیں گڑائے۔  سمجھئے۔

بینکنگ سیکٹر سے آئے ہزاروں میسج پڑھتے ہوئے میں نے ایک تھیوری تیار کی ہے۔فرقہ پرستی، جس کو میں ہندو مسلم ڈی بیٹ کہتا ہوں، صرف مسلمان سے یا ہندو سے نفرت کرنا ہی نہیں سکھاتی بلکہ اقتصادی طور پر اس کی چپیٹ میں آئے لوگوں کو غلام بھی بناتی ہے۔اس ڈی بیٹ کے اثر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا دماغ نفرت کے نشے میں رہتا ہے اور ان کا جسم اقتصادی استحصال کے لئے دستیاب ہو جاتا ہے۔بینکروں نے میری اس تھیوری کو ثابت کیا ہے۔وہ خود بھی ہندو مسلم نفرت کی سزا بھگت رہے ہیں کیونکہ جب آپ مذہب کی بنیاد پر سائڈ لیتے ہیں تو اپنی شہریت کھو دیتے ہیں۔  جب شہریت کھو دیتے ہیں تب آپ خودہی آئین کی حفاظت اتار پھینکتے ہیں۔مذہب کے دائرے میں آکر آپ خود کو ایک کھاپ میں بدل دیتے ہیں جہاں آپ آدمی نہیں بس بھیڑ ہیں۔اس سے آزادی تبھی ملے‌گی جب بینکر اپنے ہاتھ سے لکھیں‌گے، منظور کریں‌گے کہ انہوں نے ہندو مسلم کیا ہے۔  ان کی غلامی کی تصوراتی خوراک اسی سے آتی ہے۔

مجھے پتا ہے کہ بینک کے ہیڈکوارٹر والے سینئر میرا ہر مضمون پڑھنے لگے ہیں۔اس لئے یہ لائن لکھ رہا ہوں۔بتانے کے لئے کہ جھوٹ کی دکان زیادہ دنوں تک نہیں چلتی ہے۔آپ کے بچے بھی اس مکاری کی دنیا میں جینے کے لئے مجبور ہوں‌گے اور آپ استعمال کے بعد ایک دن جیل میں پھینک دئے جائیں‌گے۔لیدر کی کرسی اور بلیک سوٹ کام نہیں آئے‌گا۔  کتنا کروڑ جمع کر لیں‌گے آپ لوگ کمیشن سے۔آخر جھوٹ اور مکاری باہر آ گئی نہ۔سپریم کورٹ تفتیش کروا لے کہ بینکروں کو اسکیم خریدنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے کہ نہیں۔  بات ختم۔  میں تو دعویٰ نہیں کر رہا، آپ کے ہی ملازم بتا رہے ہیں مجھے۔  اب آگے بڑھتے ہیں۔

میری اس سریز کے عزم اور تسلسل سے دوسرے سرکاری ملازمین‎ کا ضمیر جاگ رہا ہے۔  جو باتیں وہ پریس کو بھی نہیں بتا رہے تھےاب بتانے لگے ہیں۔  ریلوے کے ٹریک مین، ڈرائیور، ڈاک محکمہ، پاسپورٹ آفس کے لوگ لکھنے لگے ہیں۔آج ہی پاسپورٹ سروس سینٹر سے کچھ اطلاعات آئی ہیں۔  میں ان اطلاعات کو آپ تک فیڈ بیک کی شکل میں رکھ دیتا ہوں۔  آپ کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔

نارتھ ایسٹ سے ایک نے لکھا ہے کہ بغیر کسی سہولت کے پاسپورٹ سروس سینٹر کھول دئے جاتے ہیں۔  دو کمپیوٹر دے دیا جاتا ہے بس۔  دفتر کے استعمال کا روزانہ سامان ہم اپنے پیسے سے خرید رہے ہیں۔ان کی ادائیگی بھی نہیں ہوتی۔  پانی کا انتظام تک نہیں ہے لوگ آتے ہیں اور ہمیں گالی دےکر چلے جاتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ ہم چور ہیں۔  آفس کا پیسہ کھا گئے ہوں‌گے۔دلی کا میڈیا عجیب عجیب ٹاپک لے آتا ہے۔  وہ سب ضروری بھی ہوتا ہے لیکن  جب سے لاکھوں کی زندگی میں جھانک‌کرحکومت کا چہرہ دیکھا ہے، ڈر لگ گیا ہے۔آپ کو یہ غلامی مبارک۔  میں نے بولنے کا فرض تو ادا کر دیا۔اپنے لئے نہیں، آپ کے لئے۔  آپ کرتے رہئے کانگریس بنام بی جے پی۔یہاں آدمی کی اوقات کیڑے مکوڑے کی کر دی گئی ہے اور وہ بھی آپ کے تعاون سے۔  مجھے گالی دےکر کیا کر لوگے، جتنا لکھ دیا ہے وہ کافی ہے حکومت کے چہرے پر بار بار اڑ‌کر پہنچ جانے کے لئے۔  کتنے پرچے پھاڑوگے تم۔

(بہ شکریہ قصبہ)