خبریں

فیس بک ڈیٹا چوری معاملے میں کانگریس اور بی جے پی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں 

بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پارٹیاں رائےدہندگان کو متاثر کرنے کے مقصدسے ڈیٹا چوری کے الزامات کا سامنا  کر رہی کیمبرج اینالٹکا سے اپنی اپنی انتخابی مہم میں مدد لے چکی ہیں۔

FB-Rahul-Gandhi-Ravishankar-Prasad

نئی دہلی:جیسےجیسے کیمبرج اینالٹکا کے غیر قانونی طریقے سے فیس بک  ڈیٹا استعمال کرنے پر دنیا بھر میں تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے، ہندوستان میں دونوں اہم سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس نے میڈیا کے سامنے آکر ایک دوسرے پر اس متنازع ڈیٹا اینالٹکس اور الیکشن اسٹریٹ جی فرم کی مدد سے عوام کی رائے کو متاثر کرنے کا الزام لگایا۔

دونوں ہی جماعتوں نے میڈیا رپورٹ اور عوامی پلیٹ فارم  پر دستیاب جانکاری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی ڈیٹا چوری اور کیمبرج اینالٹکا کی سروس لےکر ملک میں ہونے والے انتخابات کا رخ بدلنے کا الزام لگایا۔اس بیچ اطلاعات ٹکنالوجی اور قانون وزیر روی شنکر پرساد نے بدھ کو فیس بک اور اس کے سی ای او مارک زکربرگ،جن کا گزشتہ  چار سالوں سے مودی حکومت سے بہت اچھا پیشہ ورارانہ رشتہ رہا ہے، کو آگاہ کیا کہ اگر ہندوستانی فیس بک یوزرس کے ڈیٹا چوری کا الزام ثابت ہوتا تو آئی ٹی قانون کے تحت کارروائی کی جائے‌گی۔

روی شنکر پرساد نے کہا، ‘ مارک زکربرگ آپ بہتر طریقے سے جان لیں، ہم ہندوستان میں ایف بی پروفائل کا استقبال کرتے ہیں، لیکن ایف بی  کے ذریعے اگر ہندوستانیوں کے کسی ڈیٹا کی چوری کی جاتی ہے تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا۔  آئی ٹی قانون میں ہمارے پاس کافی اختیارات ہیں، ہم ان کا استعمال کریں‌گے۔آپ کو ہندوستان میں سمّن بھی کیا جا سکتا ہے۔  ‘حالانکہ اس سیاسی الزام و بہتان کے درمیان حقیقت کہیں پیچھے رہ گئی۔  دی وائر نے ان دونوں ہی جماعتوں کے الزامات کو حقائق  کی کسوٹی پر رکھ‌کر دیکھا کہ کیا اس میں کوئی سچ ہے یا نہیں!

راؤنڈ 1: روی شنکر پرساد

شروعات روی شنکر پرساد نے کی۔ انہوں نے گزشتہ  ایک سال کی ڈھیروں میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے لئے کانگریس نے کیمبرج اینالٹکا کو اپنے ساتھ جوڑا ہے۔انہوں نے بدھ کے پریس کانفرنس میں کہا، ‘ کانگریس کو بتانا چاہیے کہ کیا اس نے ڈیٹا ٹریڈ کے لئے کیمبرج اینالٹکا کی مدد لی ہے۔  ‘انہوں نے کہا، ‘ کانگریس پارٹی سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا انتخاب جیتنے کے لئے وہ ڈیٹا کے ہیرپھیر یا چوری پر منحصر کرے‌گی۔اس وقت اس فرم کے بارے میں کافی خبریں ہیں کہ کیسے یہ ڈیٹا چوری، ڈیٹا کا ہیرپھیر، سائیکومیٹرک اینالسس اور جمہوری‎ پروسس میں بد عنوانی میں ملوث رہی ہے۔  کیا کانگریس اس بات سے انکار کر سکتی ہے؟ ‘جہاں پرساد کی یہ بات صحیح ہے کہ سال 2017 میں آئی ایک دو میڈیا رپورٹ کے مطابق کانگریس کا کیمبرج اینالٹکا سے بات چیت ہو رہی تھی، لیکن وہ یہ نہیں دیکھ پائے کہ کیسے گزشتہ  کچھ وقت سے دی وائر سمیت کئی میڈیا رپورٹ نے بتایا کہ 2019 کے عام انتخاب میں قرار کے امکان کے لئے کیمبرج اینالٹکا کے اعلیٰ افسر بی جے پی اور کانگریس دونوں سے ہی ملے تھے۔

او بی آئی کی ویب سائٹ پر بی جے پی، کانگریس اور جدیو کو ا س کے کلائنٹ کے بطور دکھایا گیا ہے۔  حالانکہ اب یہ ویب سائٹ کام نہیں کر رہی ہے۔  (فوٹو بشکریہ : او بی آئی)

او بی آئی کی ویب سائٹ پر بی جے پی، کانگریس اور جدیو کو ا س کے کلائنٹ کے بطور دکھایا گیا ہے۔  حالانکہ اب یہ ویب سائٹ کام نہیں کر رہی ہے۔  (فوٹو بشکریہ : او بی آئی)

اگر  وزیرقانون  کسی نامعلوم ذرائع کی میڈیا رپورٹ پر ہی اعتماد کرنا چاہ رہے ہیں، تو ان کو باقی تمام میڈیا رپورٹ پر بھی غور کرنا چاہیے۔ وزیر نے اس بات کو بھی بہت آرام سے نظرانداز کر دیا کہ کیمبرج اینالٹکا کے ہندوستانی پارٹنر غازی آباد کی اولینو بزنس انٹلی جنس (او بی آئی) نے اپنی ویب سائٹ پر بی جے پی کو اپنے کلائنٹ کے طور پر دکھایا ہے، ساتھ ہی اس کے کچھ ایسے ملازم ہیں جنہوں نے انتخابات کے وقت بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ کام کیا ہے۔دی وائر پر شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ او بی آئی کے 39 سالہ سربراہ امریش تیاگی نے راج ناتھ سنگھ سمیت کئی بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی کیمپین پر کام کرنے کی بات قبول کی تھی۔

او بی آئی کے سربراہ امریش تیاگی (فوٹو : وکپیڈیا)

او بی آئی کے سربراہ امریش تیاگی (فوٹو : وکپیڈیا)

اس ادارے کے سیکنڈان کمانڈ ہمانشو شرما نے بھی اپنے بایوڈاٹا میں 2014 میں بی جے پی کے ‘ مشن 272 + ‘ مہم کے لئے کام کرنے کی بات لکھی ہوئی ہے۔

راؤنڈ 2: کانگریس

بی جے پی کے الزامات کی تردید کرنے کے لئے کانگریس نے اس کے کچھ دیر بعد پریس کانفرنس بلائی۔  کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کہا کہ ان کی پارٹی اور اس کے صدر راہل گاندھی نے اس کمپنی کی خدمات کبھی نہیں لیں۔انہوں نے کہا، ‘یہ فرضی ایجنڈا ہے۔  فرضی حقائق پر مبنی ایک سفید جھوٹ، جو وزیر قانون نے پیش کیا۔  یہ ان کا روز کا کام ہو چکا ہے۔  ‘

سرجےوالا نے یہ بھی بتایا کہ او بی آئی کی ویب سائٹ؛جیسا کہ دی وائر کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ جنتا دل (یو)رہنما کے سی تیاگی کے بیٹے امریش تیاگی کی کمپنی ہے، پر لکھا ہے کہ بی جے پی اور جدیو نے اس کی خدمات لی ہیں۔سرجے والا نے میڈیا سے کہا، ‘ کیمبرج اینالٹکا سے متعلق ویب سائٹ دکھاتی ہے کہ 2010 میں بی جے پی،جدیو نے اس کی خدمات لی تھیں۔  اس فرم کےہندوستانی پارٹنر اؤلینو بزنس انٹلی جنس بی جے پی معاون جماعت کے بیٹے کی ہے۔  2009 میں راجناتھ سنگھ نے اس کی خدمات لی تھیں۔  ‘

کانگریس ترجمان کی بات صحیح تھی، لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ او بی آئی کی ویب سائٹ پر کانگریس کو بھی اس کے کلائنٹ کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔اگر ان کو لگتا ہے کہ امریش تیاگی اور او بی آئی سچ بول رہے ہیں تو کانگریس بھی یکساں طورپر ‘ قصوروار ‘ ہے۔  سرجےوالا نے اس وقت یہ بھی نہیں بتایا کہ امریش نے یہ بھی کہا تھا کہ او بی آئی کے ذریعے دی جانے والی خدمات میں دراصل کیمبرج اینالٹکا کا کوئی کردار نہیں ہے۔

بے بنیاد الزام

ان سب کے درمیان کئی بےسرپیر‌کے بیان بھی دئے گئے۔  اپنے پریس کانفرنس کے دوران وزیرقانون  نے کہا کہ حال ہی میں راہل گاندھی کے ٹوئٹر فالوورس بڑھے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس ‘ فرضی شہرت ‘ کے لئے کیمبرج اینالٹکا ذمہ دار ہو۔

ایسے ہی ایک اور جگہ فیس بک کے خلاف ‘ نندا ابھیان ‘ کے دوران انہوں نے مارک زکربرگ اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں کو خبردار  کرتے ہوئے کہا فیس بک سمیت کوئی بھی سوشل میڈیا سائٹ اگر نامناسب طور پر ملک کی انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا۔

انہوں نے کہا، ‘ …حکومت پریس، بیان اور اظہار کی آزادی کی پوری حمایت کرتی ہے۔  ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر خیالات کے آزاد لین دین کی بھی حمایت کرتی ہے، لیکن فیس بک یا کسی دیگر سوشل میڈیا کمپنی کے ذریعے کسی بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہندوستان کے انتخابی عمل کو غلط طرح سے متاثر کرنے کی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا۔  ‘

وزیرقانون  کے اس بیان میں دو باتیں غلط ہیں۔  پہلی تو یہ کہ کیمبرج اینالٹکا کی مدد سے راہل گاندھی کے ٹوئٹر فالوورس بڑھنے کا ان کا دعویٰ غلط ہے۔  کیمبرج اینالٹکا فرضی ٹوئٹر فالوورس بڑھانے یا کسی شخص کا ٹوئٹر فالوئنگ بڑھانے میں مدد کا کام نہیں کرتا ہے۔  اصل میں کچھ ثبوت تو یہ دکھاتے ہیں کہ اس میں کانگریس پارٹی کا تو کوئی کردارہی نہیں ہے۔

دوسرا، پرساد نے کیمبرج اینالٹکا کے رائےدہندگان کو مبینہ طور پرنفسیاتی طور سے متاثر کرنے کے تنازعے کو فیس بک یوزر ڈیٹا کی مبینہ چوری سے جوڑا۔  فیس بک پر خود کسی بھی انتخاب کو متاثر کرنے کی سیدھے کوشش کرنے کا الزام نہیں لگا ہے۔  حالانکہ جس بات کے لئے اس کی تنقید ہو رہی ہے وہ ہے کہ تھرڈپارٹی (کیمبرج اینالٹکا یا روسی حکومت) کو رائےدہندگان کو متاثر کرنے کے لئے اپنا منچ دینا۔

اب آگے کیا؟

ان تمام الزامات اور بہتان تراشی کے درمیان جو سب سے ضروری بات  بھلا دی گئی وہ تھی کہ حکومت ہند کو اس پر کیا قدم اٹھانے چاہیے۔ مثال کے لئے، جب آئی ٹی وزیر سے پوچھا گیا کہ کیا کسی جانچ‌کے حکم دئے گئے ہیں، تب انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شکایت آتی ہے تو ٹرائی اس کو دیکھے‌گی۔

انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس بہت مضبوط نظام دستیاب ہے، ہم اس کو دیکھیں‌گے۔  لیکن آج جو میں نے خبردار  کیا ہے، وہ اٹلانٹک کے پار کیلیفورنیا تک پہنچنی چاہیے۔  ‘

حالانکہ اس بارے میں خدشے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت نے پریس کانفرنس کی اور سلیکان ویلی کو ہندوستان کےآئی ٹی قانون کے بارے میں خبردار‌کیا لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ ملک میں اس بارے میں آزاد انہ جانچ کروانے کے خواہش مند ہیں۔

کیمبرج اینالٹکا کے سی ای او الیکزینڈر نکس، جن کو اس تنازعے کے بعد معطل کر دیا گیا (فوٹو : رائٹرس)

کیمبرج اینالٹکا کے سی ای او الیکزینڈر نکس، جن کو اس تنازعے کے بعد معطل کر دیا گیا (فوٹو : رائٹرس)

پہلا منطقی قدم اٹلانٹک کے پار دیکھنے کے بجائے، حالانکہ جو یکساں طورپر ضروری ہے، او بی آئی کے سی ای او امریش تیاگی، جن کے والد (جدیو کے کے سی تیاگی) حکمراں این ڈی اے کے معاون جماعت کے رہنما ہیں، سے عام سوال و جواب کرنا ہوتا۔  یہاں تک کہ ایک فوری تفتیش سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ او بی آئی اور کیمبرج اینالٹکا نے کس حد تک ڈیٹا شیئرکیا اور کس حد تک وہ اپنی اپنی سیاسی مہم میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔

اس مدعا پر سب سے سخت بیان بی جے پی ترجمان سنبت پاترا کی طرف سے آیا جنہوں نے زور دیا کہ تفتیش شروع کی جائے‌گی۔انہوں نے کہا، ‘ موجودہ حکومت اس کو ہلکے میں نہیں لے‌گی۔  حکومت یقینی طور پر اس کی تفتیش کروائے‌گی اور سچ سامنے آئے‌گا۔  راہل گاندھی کو سامنے آکر ان سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔  ‘

حالانکہ یہ صاف نہیں ہے کہ پاترا اور بی جے پی کو ایسا کیوں نہیں لگتا کہ کیمبرج اینالٹکا اسکینڈل کے بارے میں حکمراں جماعت کو بھی آگے آکران پر اٹھے سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔