فکر و نظر

کیا سشما سوراج اور وزارت خارجہ نے عراق میں 39 لاپتہ ہندوستانی کے گھر والوں کو گمراہ کیا؟

گزشتہ  چار سالوں میں جھوٹی امیدیں دلانے کو لےکر تنقید کا سامنا کرتے ہوئے وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایسا کہا کہ عراق میں 39 لاپتہ ہندوستانی زندہ اور محفوظ ہیں۔  کیا حکومت نے ان تمام سالوں میں 39 لاپتہ ہندوستانیوں کو لےکر ان کے گھر والوں  میں جھوٹی امیدیں نہیں جگائی؟

عراق میں مارے گئے 39 ہندوستانیوں کے متعلق نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج اور مرکزی  وزیر مملکت برائے امورخارجہ وی کے سنگھ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

عراق میں مارے گئے 39 ہندوستانیوں کے متعلق نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج اور مرکزی  وزیر مملکت برائے امورخارجہ وی کے سنگھ۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

” ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس نہ تو ان کے زندہ اور نہ ہی ان کے مردہ ہونے کے ثبوت ہیں۔  ہم نے اس کو 2014 سے 2017 میں بنائے رکھا ہے۔  ہم نے کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھا، ہم نے کسی کو بھی جھوٹی امید نہیں دی۔ “

گزشتہ  چار سالوں میں جھوٹی امیدیں دلانے کو لےکر تنقید کا سامنا کرتے ہوئے وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایسا کہا کہ عراق میں 39 لاپتہ ہندوستانی زندہ اور محفوظ ہیں۔  کیا حکومت نے ان تمام سالوں میں 39 لاپتہ ہندوستانیوں کو لےکر ان کے گھر والوں  میں جھوٹی امیدیں نہیں جتائی؟

وزارت خارجہ کے اس بیان کو اس واقعہ کے واحد زندہ گواہ ہرجیت مسیح کے حوالے سے بھی دیکھا جانا چاہئے جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان لوگوں کو اغوا کئے جانے والے دنوں میں ہی گولی مار دی گئی تھی۔  یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت بنا کسی پختہ ثبوت کے مرنے کی تصدیق نہیں کرنا چاہتی لیکن کیا حکومت نے ان کے گھر والوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے چہیتے محفوظ ہیں جبکہ اس کے بھی کوئی ثبوت نہیں تھے۔

ہرجیت مسیح کے مطابق ان کو اور 39 دیگر لوگوں کو 11 جون 2014 کو اغوا کر لیا گیا تھا۔  چار دن بعد دہشت گردوں کے ذریعے ان کو گھٹنے ٹیکنے اور گولی مار دئے جانے کے لئے کہا گیا۔  مسیح زندہ رہنے اور وہاں سے کسی طرح بچنے میں کامیاب رہے اور اس کے بعد کوئی دوسرازندہ نہیں بچا تھا۔

آئیے ہم گزشتہ چار سالوں میں اہم واقعات کی تاریخ اور وزیر خارجہ کے ذریعے دئے گئے بیانات کو دیکھتے ہیں۔

جون 2014 

10 جون کو ISIS کے باغیوں نے موصل شہر کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا۔  غیر ملکیوں کا قتل اور اغوا کی رپورٹ کے ساتھ وسیع پیمانے پر دہشت پھیلی تھی۔  تنازعہ کے علاقے میں ہندوستانیوں کو نکالنے کا آغاز جلد ہی شروع ہوا۔  18 جون کو بحران زدہ عراق سے ہندوستانیوں کو نکالنے کے درمیان ایک اخبار نے تقریباً 40 ہندوستانی مزدوروں کو لاپتہ قرار دیا اور امکانی طور پر ISIS باغیوں کے ذریعے قبضہ کیا گیا۔  ان کا اغوا موصل، عراق میں کیا گیا تھا۔

وزارت خارجہ نے ایک پریس کانفرنس میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عراق میں لاپتہ 40 ہندوستانیوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ایک پریس کانفرنس میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ” ہمیں عراقی وزارت خارجہ کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ وہ ان مقامات کا پتا لگانے میں اہل ہیں جہاں اغوا کئے گئے ہندوستانی شہری کچھ دیگر ممالک کے مزدوروں کے ساتھ بندی بنے ہوئے ہیں۔ ” ایک ہفتے کے بعد 25 جون کو ایک دوسرے میڈیا کانفرنس میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ” ان کو قید میں رکھا گیا ہے لیکن کوئی چوٹ یا نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔ “

وزیر خارجہ سشما سوراج نے کئی مواقع پر لاپتہ ہندوستانیوں کے گھر والوں سے ان کو مطمئن کرنے کے لئے ملاقات کی۔

اگست 2014 

2014  نومبر 

اغوا کی تاریخ سے پانچ مہینے بعد وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ اغوا کئے گئے ہندوستانی بندی بنے ہوئے ہیں۔

سشما سوراج نے راجیہ سبھا میں 39 لاپتہ ہندوستانیوں کے بارے میں بیان دیا۔ان کے ذرائع کی بنیاد پر انہوں نے میڈیا میں ہرجیت مسیح اور کچھ بنگلہ دیشی شہریوں کے میڈیا سے انٹرویو کے بارے میں میڈیا میں دعویٰ کی تردید کی۔

مئی 2015 

مئی 2015 میں جب میڈیا میں دیگر لوگوں سمیت ہرجیت مسیح کی موت ہو گئی تھی تب سشما سوراج نے میڈیا کے بیان پر رد عمل دیا تھا کہ ان کو ان پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس آٹھ ذرائع ہیں جن کے مطابق قید کئے گئے ہندوستانیوں کے زندہ ہونے کی خبر تھی۔

سشما سوراج نے دو ہفتے بعد اپنے بیان کو دوہرایا کہ اغوا کئے گئے ہندوستانی زندہ ہیں۔

ستمبر 2015 

وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک بار پھر گھر والوں  کو مطمئن کیا کہ عراق میں لاپتہ ہندوستانی ” زندہ اور اچھی طرح ” تھے۔

جون 2016 

وزیر خارجہ نے ایک بار پھر کہا کہ ان کے پاس عراق میں ہندوستانیوں کے مارے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ان کی جانکاری تھی کہ وہ زندہ تھے۔

جولائی 2017 

جولائی 2017 میں اچھی خبر آئی تھی کہ موصل کو ISIS سے آزادی ملی تھی۔  اس خبر میں لاپتہ لوگوں کو تلاش کرنے کی امید جتائی اور وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ  وی کے سنگھ نے ایربل کا سفر کیا۔  سشما سوراج نے غم زدہ فیملی کے ممبروں کو بتایا کہ لاپتہ ہندوستانی شاید بادوش کی جیل میں ہیں۔

WIONکے رپورٹر کی طرف سے یہ خبر مسترد کردی گئی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ بادوش جیل پہلے ہی تباہ ہو چکی تھی۔  انڈیا ٹوڈے کی ٹیم نے بھی موصل کا دورہ کیا تھا۔یہ دھیان دینا دلچسپ ہے کہ جب ہندوستانی افسر لاپتہ ہندوستانیوں کے زندہ ہونے کی امید کر رہے تھے وہیں عراقی افسروں نے اس معاملے کو زیادہ محفوظ رکھا۔  ہندوستان میں عراق کے سفیر کو اچھی خبر کی امید تھی لیکن ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی۔عراقی وزیر خارجہ جو ہندوستان آئے تھےانہوں نے شروع میں میڈیا کو بتایا کہ وہ یقینی طور پر یہ نہیں جانتے ہیں لیکن انہوں نے اسی شام کو بعد میں اپنے خطاب میں ایک متضاد بیان دیا۔

25 جولائی کو سشما سوراج نے پارلیامنٹ  میں ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے دوہرایا کہ عراق نے کبھی نہیں کہا ہے کہ 39 ہندوستانیوں کی موت ہو چکی ہے۔

اکتوبر 2017 : گھر والوں  کو DNA ٹیسٹ دینے کو کہا گیا۔

20 مارچ 2018: 39 لاپتہ ہندوستانیوں کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر خارجہ  نے متاثرہ گھر والوں  کے حق میں اور ان کی خیریت کے لئے ہی سوچا ہوگا۔  وزارت کے ٹوئٹس پر ایک نظر ڈالنے سے بےشمار مواقع کا پتا چلتا ہے جب انھوں نے گھر والوں  کو مطمئن کرنے کےان سے ملاقات کی تھی۔  حالانکہ’اس بات کا یقین دلانا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے ‘ اور اس طرح ‘ جھوٹی امیدوں ‘ کو بڑھانا ان دونوں میں فرق ہے۔جس طرح وزیر خارجہ نے زور دےکر کہا کہ ان کے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں کہ لاپتہ ہندوستانیوں کی موت ہو گئی ہے، اسی طرح ان کے بارے میں یہ جانکاری بھی نہیں تھی کہ وہ مردہ یا زندہ ہیں اور یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ لاپتہ ہندوستانیوں کا پتا لگانے کی کوشش جاری رہےگی۔  آج دکھی گھر والوں کے بیان یہ دکھاتے ہیں کہ ان کو کیسے یقین  دلایا گیا کہ ان کے چہیتے زندہ ہیں۔