خبریں

عرب نامہ : پریس کی آزادی اور مصر کا صدارتی الیکشن

عرب نامہ : ٹائمز کی صحافی سینٹرل قاہر ہ میں ایک انٹرویو کرنے جارہی تھی اسی وقت پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا ۔ تقریباً 24 گھنٹے حراست میں رکھا گیا اور اس کے بعد لندن جانے والی پرواز میں انہیں بٹھادیا گیا۔ برطانوی رپورٹر کی ملک بدری کے واقعہ کو انسانی حقوق کی تنظیمیں پریس کے آزادی پر حملہ سے تعبیر کررہی ہیں۔

arab nama 3

مصر میں 26  سے 28 مارچ تک ہونے والے صدارتی الیکشن  کی گہما گہمی کا اثر مشرق وسطی کے اخباروں میں نظر آ رہاہے۔ واضح ہوکہ مصری حکام نے برطانوی اخبار ٹائمز کے رپورٹر کو ملک بدرکردیا جب کہ کئی مقامی صحافیوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ لیکن اکثر اخبارات صدر سیسی  کی تائید میں کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور ان کی جیت کو مصر اور مصر ی عوام کی فتح شمارکررہے ہیں۔   اس کے علاوہ ان کی مخالفت کو  مصر اور مصرکے سیاسی استحکام کی مخالفت تصور کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اختلاف کی گنجائش بالکل معدوم نظرآرہی ہے اور اختلاف کرنے والے گرفتار کیے جارہے ہیں یا غدار وطن بتائے جارہے ہیں۔

مصر کے ایک بڑے اخبار الاھرام نے مصری وزیر خارجہ کی ہندوستانی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر شائع کی ہے۔ عنوان کے مطابق  ہندوستانی وزیر اعظم ،صدر سیسی  کو ایک عظیم     لیڈر  بتارہے ہیں  اور الیکشن  میں ان کےلیے  نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں۔اس خبر کے علاوہ الاھرام اور دوسرے  اخبار  اس ون مین شو  (One Man Show) کی تائید میں اداریےاور مضامین لکھ رہے ہیں ۔ الاھرام کے ادارتی بورڈ کے چیف عبدالمحسن سلامہ کے قلم سے نکلا ہوا یہ مضمون بھی اسی قبیل کا ہے ۔

  اس میں انہوں نے مصر کے موجودہ صدر کے کارناموں کو شمارکیا ہے اور یہ بتانے  کی کوشش کی ہے “جس طرح مصر نےصدر سیسی کی قیادت میں پچھلے چار سالوں میں دفاع، امن وسلامتی ، اور بنیادی ڈھانچہ پر کام کیا ہے اسے مستقبل میں کوئی بھی ملک  صنعتی میدان میں لیڈر بننے سے نہیں روک سکتا ہے  اور  پھر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑی تعداد  میں  انتخابات میں حصہ لےکر دنیا کو یہ پیغام دیں کہ مصر موجودہ  حالات سے بہت ہی دانشمندانہ طریقے سے تیزی سے نکل رہا ہے جب کہ کچھ اندرونی اور باہری طاقتیں مصر کی ترقی او ر اصلاح  کے پہیہ کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہیں”۔

Al Ahram 2

مصر میں تعینات  ٹائمز کے رپورٹر” بل ٹریو” کو مصری حکام نے واپس برطانیہ بھیج دیا ہے۔  ٹائمز  نے اس واقعہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ   اگلے ہفتہ ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل  مصر میں   میڈیا  مخالف ماحول بنایا جارہا ہے۔

 عرب نیوز نے ٹائمز  کے حوالہ سے خبردی ہے کہ بل ٹریو پچھلے چند سالوں سے  قاہرہ میں رہ کر ٹائمز کے لیے رپورٹر  کے طورپر کام کررہی تھی۔ ٹائمز میں چھپے “ٹریو “کے ایک آرٹیکل کے مطابق  جب وہ سینٹرل قاہر ہ میں ایک انٹرویو کرنے جارہی تھی اسی وقت پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا ۔ تقریباً 24 گھنٹے حراست میں رکھا گیا اور اس کے بعد لندن جانے والی پرواز میں انہیں بٹھادیا گیا۔ برطانوی رپورٹر کی ملک بدری کے واقعہ کو انسانی حقوق کی تنظیمیں پریس کی آزادی پر حملہ سے تعبیر کررہی ہیں۔ دوسری طرف مصری حکام نے جعلی خبر( fake news) چھاپنے والی میڈیا کمپنیوں پر قانونی ایکشن کی بات کہی ہے۔ عرب نیوز نے  انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالہ سے حال کے چند مہینوں میں   کچھ مقامی صحافیوں کی گرفتاری  کی بات بھی کہی ہے”۔

arab news

سیف الاسلام قذافی کے قریبی حامیوں نے  ان  کےلیبائی صدارتی الیکشن میں امیدوار کے طور پر حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ان کے قریبی   معتمد ایمن ابوراس  نے 19 مارچ  2018 کو تونس میں پریس کانفرنس  کے ذریعہ یہ اطلاع دی۔واضح رہے کہ سیف الاسلام قذافی مقتول  لیبیائی حاکم جنرل معمرقذافی کے بیٹے   ہیں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق  قبائلی اور آپسی انتشار اور اختلاف کے شکار لیبیا کو متحدکرنے اور سارے گروپوں اور جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی صلاحیت سیف الاسلام قذافی میں ہے۔

الشرق الاوسط  کے مطابق    “سیف الاسلام قذافی آئندہ  لیبیائی صدارتی الیکشن میں صدارتی امیدوار کے طورپر حصہ لینا چاہتے ہیں، ان کا مقصد اقتدار پر قبضہ نہیں ہے بلکہ وہ   لیبیا کو موجودہ  صورت حال سے نکالنا چاہتے ہیں۔ان کے قریبی  معتمد کے مطابق  سیف الاسلام قذافی کے پاس  ایک جامع سیاسی، سلامتی اور سماجی پروگرام  ہے اور وہ ہر اس  علاقائی اور بین  الاقوامی  شخص  اور جماعت کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہیں جو لیبیا کی بھلائی چاہتے ہیں”

Arab nama

کیا امریکہ اور ایران جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یہ عنوان ہے لندن سے شائع ہونے والے اخبار “الحیاۃ” کے ایک ڈیلی کالم کا۔ یہ کالم جہاد الخازن لکھتےہیں۔ وہ لکھتے ہیں ”  کیا ڈونالڈ ٹرمپ  ایران سے جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فائیوپلس ون (5+1) اور ایران کے مابین ہونے والے نیوکلیر معاہدہ کو امریکی صدر سب سے خراب   ڈیل قراردے رہے ہیں۔ کیایہ  ڈیل  واقعی غلط ہے جیسا کہ امریکی صدر بتارہے ہیں ۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ایران چھ طاقت ور ملکوں کو دھوکہ دےسکتا ہے، دوسری طرف ،  انٹرنیشنل  اٹامک انرجی  ایجنسی نے بھی  ایرانی سائٹس کی تفتیش کے بعد  یہ کہا ہے ایران    نیوکلیر معاہدہ   کے مطابق کام کررہا ہے۔ اگر امریکہ اس نیوکلیر معاہدہ  سے باہر ہوجاتا ہے کہ  تو اس کا غالب امکان ہے کہ ایران معاہدہ سے مکرکر  یورنیم افزودگی( Uranium enrichment) کی طرف تیزی سے بڑھے گا۔ ا س کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی خواہش کے مطابق امریکہ ایران سے جنگ کرے گا اور  پھر دنیا کو یہ بتائے گا  انہوں نے  اپنے خلیجی حلیفوں(Gulf Allies) کے  تحفظ کے لیے یہ جنگ شروع کی۔ امریکہ کی نظر سعودی عربیہ کی دولت پر ہے  اور سعودی ولی عہد جو کہ اس ہفتہ واشگنٹن کے دورے پر ہیں ، کو ہتھیار چاہیے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کےایران کے ساتھ شدید نوعیت کے اختلافات ہیں۔ اس صورت حال سے صرف اسرائیل کو فائدہ ہورہا ہے  اور وہ یہ تصوردینے کی کوشش کررہا ہے کہ اس کے عرب ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔

Al Ahram 2

اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد ، ستر سالوں میں پہلی مرتبہ اسرائیل جارہے کسی تجارتی  پرواز کو سعودی فضائی اسپیس  کے استعمال  کی اجازت ملی ۔پہلی مرتبہ اسرائیل کے بن غوریون ہوائی اڈہ سے  ایئر انڈیا کی پرواز سعودی فضائی اسپیس کااستعمال کرتے ہوئے دہلی کے اندراگاندھی  ایئرپورٹ پر جمعہ کو اتری۔ جسے اسرائیلی آفیسروں نے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔

الجزیرہ کے رپورٹر الیاس کرام بھی اس فلائٹ میں سوار تھے، ان کی رپورٹ کےمطابق سعودی حکام کی طر ف سے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت میں ٹال مٹول کی وجہ سے   طیارہ دوگھنٹے تاخیر سے اڑا ۔ ہفتہ میں تین مرتبہ سعودی ایئر اسپیس کا استعمال کرتے ہوئے ایئر انڈیا کی فلائٹ  پرواز کرے گی جس کی وجہ سےسات گھنٹوں میں طے کی جانےوالی مسافت اب صرف  پانچ  گھنٹوں میں طے ہوگی۔ اس سے پہلے ایئر انڈیا بحر احمر کے اوپر سے پرواز کیا کرتی تھی۔

Al Jazeera

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق  یہ اجازت صرف ایئر انڈیا کو ملی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی  کمپنی  “العال”  نےاسرائیل کے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری میں ہے تا کہ اسے بھی سعودی ایئر اسپیس کے استعمال کی اجازت  ملے۔ اسی کی ساتھ ساتھ مذکورہ اسرائیلی کمپنی نے آئٹا  IATA  سے سعودی ائیر اسپیس کے  استعمال کی کوشش میں مدد طلب کی ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  اسرائیل  کا  ایئر انڈیا  کو سعودی اسپیس کی منظوری  دینا  ایک امتیازی اور غیرمنصفانہ قدم ہے  اور  مساوی معاملہ کےاصول سے پوری طرح متصادم ہے۔