فکر و نظر

آئندہ لوک سبھا انتخاب مودی کے لیے کیوں آسان نہیں ہوگا

 محض ایک سال پہلے جس مودی کی قیادت والی بی جے پی کو ناقابل شکست بتایا جا رہا تھا اس کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب اتنا بھی آسان نہیں ہوگا جتنا پہلے سوچا جا رہا تھا۔

ضمنی انتخاب میں جیت‌کے بعد جشن مناتے سماجوادی پارٹی کے کارکن (فوٹو بشکریہ : فیس بک / سماجوادی پارٹی)

ضمنی انتخاب میں جیت‌کے بعد جشن مناتے سماجوادی پارٹی کے کارکن (فوٹو بشکریہ : فیس بک / سماجوادی پارٹی)

اترپردیش کے ایک راجیہ سبھا انتخاب کے نتیجہ نے سیاسی بحث کا منھ موڑ دیا ہے خاص طور پربہوجن سماج پارٹی سپریمو مایاوتی کی پریس کانفرنس کے بعد۔  عموماً راجیہ سبھا انتخاب، سیاسی مبصرین  کے درمیان بہت زیادہ دلچسپ نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس انتخاب میں زیادہ تر نتیجہ ممکنہ ہوتے ہے، نتیجہ غیر متوقع ہونے کا امکان کم ہی ہوتا ہے لیکن پچھلے کچھ وقت سے اس ملک کا ہر انتخاب اہم ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ پنچایت اور شہری بلدیاتی انتخاب بھی۔  ایسا نہیں ہے کہ پہلے ان انتخابات پر بات نہیں ہوتی تھی لیکن اس ریاست کے علاوہ اس کے نتیجہ کو لےکر خاص تجسس یا جوش نہیں ہوتا تھا لیکن آج کل ان انتخابات پر بھی لمبی لمبی بحث ہوتی ہے اور ا س کے اعداد و شمار کی بنیاد پر قومی سیاسی منظرنامہ کی حالت اور سمت طے ہونے لگتی ہے۔

گزشتہ سال کے آخر میں گجرات انتخابی نتائج ، اس مہینے آئے نارتھ ایسٹ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب کے نتیجے اور حال میں اتر پردیش میں ہوئے لوک سبھا کے دو ضمنی انتخاب کے نتیجوں نے تجزیہ کاروں کے درمیان اتھل پتھل مچا رکھی ہے۔  محض ایک سال پہلے جس مودی کی قیادت والی بی جے پی کو ناقابل شکست بتایا جا رہا تھا اس کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب اتنا بھی آسان نہیں ہوگا جتنا پہلے سوچا جا رہا تھا۔  2019 میں نتیجہ کیا آئے‌گا ابھی اس کے بارے میں بات کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔

بہر حال پچھلے ایک سال میں ایسا کیا ہوا کہ اچانک سے انتخابی نتیجے کی تصویرتھوڑی دھندلی سی نظر آنے لگی ہے؟  کیا کچھ بنیادی نظریاتی پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا یا پھر اس کے اوپر کسی کا دھیان ہی نہیں گیا؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے پچھلے کچھ وقت کے سیاسی واقعاتکو دیکھیے۔  اتر پردیش میں ایک دوسرے کی  حریف پارٹی بسپا اور سپا مل‌کر ضمنی انتخاب لڑی، ان کو جیت ملی۔  راجیہ سبھا کے انتخاب میں بسپا امیدوار نہیں جیت پایا لیکن پھر مایاوتی نے پریس کانفرنس کرکے کہا ہے کہ اس سے ان کے دل میں سپا اور اکھلیش یادو کے لئے کوئی تذبذب نہیں ہے۔  جھارکھنڈ میں کانگریس کے پاس کافی ووٹ نہیں تھے کہ اس کے امیدوار جیت پائے لیکن جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی حمایت سے کانگریس کے امیدوار راجیہ سبھا پہنچ گئے۔  مغربی بنگال میں بھی کچھ اسی طرح سے ممتا بنرجی نے اپنی حمایت کانگریس کو دی اور کیرلا میں لیفٹ پارٹی نے شرد یادو خیمہ کے امیدوار کو راجیہ سبھا پہنچنے میں تعاون کیا۔  اس کے علاوہ حال ہی میں ٹی ڈی پی (تیلگو دیشم پارٹی)کے چندربابو نائیڈو کا NDA سے باہر آنا اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد تجویز کی مانگ کرنا،یہکچھ پہلو ہیںجو ایک اصولی پہلو کی طرف دھیان متوجہ کرتا ہے کہ ہندوستان کے قومی انتخاب کو سمجھنے کے لئے اس کی ریاست میں ہو رہے مختلف سیاسی واقعات کو سمجھنا پڑے‌گا۔  یعنی کہ ریاست کے سیاسی خاکے کو سمجھنا ضروری ہے۔  ریاست ایک اہم کڑی ہے۔  1980 کی دہائی کے آخری کچھ سالوں سے ہی مختلف ریاستوں میں کئی پارٹیوں کا عروج ہوا اور 1990 کی دہائی میں کئی اہم علاقائی پارٹیاں ابھری جس کا اس ریاست کی سیاست میں نہ صرف اہم کردار رہا بلکہ اس پارٹی نے ریاست پر حکومت بھی کی۔  اس کے علاوہ ریاستوں میں ان علاقائی جماعتوں کے دبدبےکی وجہ سے قومی پارٹی خاص طور پر کانگریس کا کافی نقصان ہوا اور کئی ریاستوں میں آج کانگریس چوتھے پانچویں نمبر کی پارٹی ہو گئی ہے۔  اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ، مغربی بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک وغیرہ کئی ایسی مثالیں ہیں۔

ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کی سیاست کی اہمیت کو زیادہ گہرائی سے سمجھنا ہو تو اس بات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ 1996 کے لوک سبھا انتخاب سے ہی اوسطاً 235 سیٹیں ہر لوک سبھا انتخاب میں کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ چھوٹی قومی پارٹی، علاقائی جماعتوں اور کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے پاس گئی ہے۔  اگر ووٹ کے اعداد و شمار کو بھی دیکھیں تو انہی دور میں کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ فیصد ملاکر بھی اوسطاً 50 فیصد کے پاس ہی رہا ہے۔  پچھلے لوک سبھا انتخاب میں بھی یہ اعداد و شمار صرف 51 فیصد کے پاس رہا اور یہ دونوں پارٹی مل‌ کرصرف 326 سیٹیں ہی جیت پائی۔  یعنی کہ ایک اہم تعداد میں ووٹ اور سیٹ علاقائی پارٹیوں کے درمیان رہی ہے۔  جس کو آپ اس گراف میں دیکھ سکتے ہے۔

Seat BJP+INC

گراف : 1-دو بڑی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کے ذریعے جیتی گئی کل سیٹیں اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کی کل سیٹیں۔نوٹ : لوک سبھا میں کل 545 سیٹس ہیں لیکن صرف 543 سیٹس پر ہی انتخاب ہوتے ہیں۔  دو ممبروں کو نامزد کیا جاتا ہے۔

Graph 2

گراف : 2-کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ فیصد اور دیگر پارٹیوں کے ووٹ فیصد۔نوٹ : تمام اعداد و شمار فیصد میں ہے۔  ووٹ فیصد کو راؤنڈ آف کرکے دیا گیا ہے۔

2014 کے انتخاب میں مودی اور بی جے پی کے تئیں لوگوں میں بھرپور حمایت کے باوجود چھوٹی پارٹیوں کو 49 فیصد ووٹ ملے جو کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کو مل‌کر ملے ووٹ سے صرف دو فیصدی ہی کم ہے۔  ایک اور بڑی بات گراف 2 کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے 6 لوک سبھا انتخاب میں چھوٹی پارٹیوں کے ووٹ فیصد میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے صرف کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ میں ہی ایک دوسرے کے برعکس ووٹ کا سیوِنگ ہوا ہے۔  چھوٹی پارٹیاں قومی سطح کے اثر سے بے اثر رہی ہے لیکن ایک بڑی بات جو اس میں چھپ جاتی ہے وہ یہ کہ ان ریاستوں میں جہاں علاقائی جماعت متاثر کن رہی ہے وہاں ریاستی سطح کی پارٹیوں کے درمیان بھی مقابلہ رہا ہے۔  اس کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہے کہ چھوٹی پارٹیوں کے کل ووٹ فیصد میں تو بڑا فرق نہیں آیا ہے لیکن جب اس کو ریاست کی سطح پر دیکھیں‌گے تو وہاں اسی ریاست کیدو اہم پارٹیوں کی سیٹوں میں بڑا پھیر بدل ہوا ہے اور ایک پارٹی کو اپنے ریاستی سطح کے حریفوں کے ہاتھوں سیٹیں گنوانی پڑی ہے۔ تمل ناڈو، اتر پردیش، مہاراشٹر، بہار وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

اس کے علاوہ 2004 کے انتخاب کا گہرائی سےمطالعہ کریں تو بی جے پی کے ووٹ فیصد میں صرف دو فیصد کا نقصان ہوا تھا لیکن وہ 1999 کے لوک سبھا انتخاب کے مقابلے 44 سیٹیں ہار گئی تھی جبکہ کانگریس کا بھی ووٹ ایک فیصد گرا تھا لیکن پھر بھی 1999 کے مقابلے وہ 31 سیٹیں زیادہ جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ 2004 میں کانگریس 1999 کے مقابلے 36 کم سیٹوں پر انتخاب لڑی تھی یعنی کہ اس نے پچھلے انتخاب کے مقابلے اپنے اتحاد کی دیگر پارٹیوں کو زیادہ سیٹیں انتخاب لڑنے کو دیا تھا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ ملکی سطح پر انڈیا شائننگ کیمپین کے باوجود بی جے پی اپنی سرکار نہیں بچا پائی۔  2014 کا انتخاب کچھ معاملوں میں تھوڑا الگ تھا۔  بی جے پی کو اترپردیش میں غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی اس کے برعکس وہاں کی دو بڑی پارٹی سپا اور بسپا کو کافی نقصان ہوا۔  دونوں پارٹیاں کو مل‌کر 42.12 فیصد ووٹ ملے تھے جو کہ بی جے پی کو ملے ووٹ سے صرف آدھا (0.5) فیصد ہی کم تھے لیکن دونوں کے الگ الگ انتخاب لڑنے کی وجہ سے بی جے پی 71 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی اور سپا صرف 5 سیٹیں اور بسپا کوکو ئی بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔  اگر اب یہ دونوں پارٹیاں ریاست میں اتحاد کرکے (جیسا کہ میڈیا رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے) انتخاب لڑتی ہے تو 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایک بڑا فرق اتر پردیش میں دکھے‌گا۔  ساتھ ہی راجیہ سبھا کے انتخاب کی طرح اگر کانگریس الگ الگ ریاستوں میں وہاں کی چھوٹی پارٹیوں کو تھوڑی اہمیت دیتے ہوئے صحیح سے اتحاد کرنے میں کامیاب رہی تو قومی سطح پر بھی کچھ الگ منظرنامہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

(مضمون نگاراشوکا یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں اور ملک کے کئی ریاستوں میں انتخابی تجزیے کا کام کر چکے ہیں۔)