ادبستان

منٹو نے کیوں کہا؛ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ…

یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔

علامتی تصویر/ فوٹو : اے آئی سی

علامتی تصویر/ فوٹو : اے آئی سی

یہ مضمون پہلی بار 1 اپریل  2018کو شائع کیا گیا تھا۔

ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں۔ ہندوستان کو اس چیز سے بچاؤ۔ اس چیز سے بچاؤ، مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چا ہیئے جو اس قسم کا شور پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے فن میں ماہر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، مگر ان کے دل اخلاص سے بالکل خالی ہیں۔ رات کو کسی جلسے میں گرما گرم تقریر کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنے پُرتکلّف بستروں میں سوتے ہیں تو ان کے دماغ بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان کی راتوں کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرا کہ ہندوستان کس مرض میں مبتلا ہے۔ دراصل وہ اپنے مرض کے علاج معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اپنے وطن کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کیلئے نکلتے ہیں…کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!

یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔ جس کی نمائش سے ہمارے یہاں گداگر عام طور پر بھیک مانگتے ہیں۔ سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے یہ نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہروہ بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں جو اونچے سروں میں کہی جاتی ہے۔ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ اس لاش کو ازسر نو زندگی بخش رہے ہیں۔

مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کر سکتیں۔ یہ لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُ لّو سیدھا کرنے کیلئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:غالب پر منٹو کی ایک خاص تحریر : قرض کی پیتے تھے…

ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤ جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے یہ نام نہاد لیڈر اپنی اپنی بغل میں ایک صندوقچی دبائے پھرتے ہیں۔ جس میں ہر کسی کی جیبیں کتر کر روپیہ جمع کرتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک لمبی دوڑ ہے۔ سرمائے کے پیچھے۔ ان کے ہر سانس میں آپ ریاکاری اور دغابازی کا تعفن محسوس کر سکتے ہیں۔

لمبے لمبے جلوس نکال کر، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر، چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر، ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لئے ایسا راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔

یہ لوگ چندے اکٹھے کرتے ہیں مگر کیا انہوں نے آج تک بے کاری کا حل پیش کیا ہے؟…یہ لوگ مذہب مذہب چلاتے ہیں مگر کیا انہوں نے خود کبھی مذہب کے احکام کی پیروی کی ہے؟…یہ لوگ جو خیرات میں دیئے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں، چندوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ جو مستعار اشیاء پر جیتے ہیں، جن کی روح لنگڑی، دماغ اپاہج، زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں۔ ملک و ملت کی راہبری کیسے کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محبت ،شادی اور مذہب : دوقومیں

بہ شکریہ؛ افکار کراچی

بہ شکریہ؛ افکار کراچی

ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں جو نئے سے نیا راگ الاپتے ہیں۔ ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو، جس کے سینے میں اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔ جو برہنہ پا اور گرسنہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان کی طرف مردانہ وار لیئے جائے۔

یاد ر کھیئے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کیلئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔ حریروپرنیاں میں لپٹے ہوئے آدمی ان کی قیادت نہیں کر سکتے، جو سخت زمین پر سونے کے عادی ہیں اور جن کے بدن نرم و نازک پوشاک سے ہمیشہ ناآشنا رہے ہیں، اگر کوئی شخص ریشمی کپڑے پہن کر آپ کو غربت کا سدّباب بتانے کی جرأت کرے تو اس کو اٹھا کر وہیں پھینک د یجیئے جہاں سے نکل کر وہ آپ لوگوں میں آیا تھا۔

یہ لیڈر کھٹمل ہیں جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ان کو نفرت کے ابلتے ہوئے پانی کے ذریعے باہر نکال دینا چاہیئے۔ یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لیےکہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔

ضرورت ہے کہ پھٹی ہوئی قمیصوں والے نوجوان اٹھیں اور عزم کو خشم کو اپنی چوڑی چھاتیوں میں لیئے ان نام نہاد لیڈروں کو اس بلند مقام پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں۔ جہاں یہ ہماری اجازت لئے بغیر چڑھ بیٹھے ہیں۔ ان کو ہمارے ساتھ، ہم غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی حق حاصل نہیں،…یاد ر کھیئے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے…اپنی کشتی کے کھویا خود آپ بنئے…اپنا نفع و نقصان خود آپ سوچئے اور پھر ان لیڈروں، ان نام نہاد رہنماؤں کا تماشا دیکھئے کہ وہ زندگی کے وسیع سمندر میں اپنی زندگی کا وزنی جہاز کس طرح چلاتے ہیں۔

بہ شکریہ؛منٹو کے ادبی مضامین،سعادت حسن منٹو،اعتقاد پبلشنگ ہاؤس،دہلی ،1972