فکر و نظر

’سب سے پر امن واقعہ یہ ہے،آدمی آدمی کو بھول گیا‘

یشپال ہوں یا اکرم یا رشیدی، یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ قاتلوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس لئے ان کو معاف کر دیا جائے۔  وہ قتل اور تشدد کے لئے انصاف کے عمل کو ملتوی کرنے کی بات نہیں کر رہے۔وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ بدلے کی کارروائی انصاف کی جگہ نہیں لے سکتی۔  لیکن انصاف کیا ہی نہ جائے اور جرم کو بھلا دیا جائے، یہ وہ نہیں کہہ رہے ہیں۔

(بائیں سے) دلّی میں مارے گئے انکت سکسینہ کے والد یشپال سکسینہ، کاس گنج تشدد میں مارے گئے چندن کے والد سشیل گپتا اور آسنسول کے مولانا رشیدی (فوٹو بشکریہ : یوٹیوب / اے این آئی / ٹوئٹر)

(بائیں سے) دلّی میں مارے گئے انکت سکسینہ کے والد یشپال سکسینہ، کاس گنج تشدد میں مارے گئے چندن کے والد سشیل گپتا اور آسنسول کے مولانا رشیدی (فوٹو بشکریہ : یوٹیوب / اے این آئی / ٹوئٹر)

یشپال سکسینہ کو اس کی تسلی ہوگی کہ ان کی آواز دور تک گئی اور ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلہ پار کرتا ہوا اس کا وہ جواب آیا جو وہ چاہتے رہے ہوں‌گے۔آسنسول کے امام مولانا امدادرشیدی نے اپنے بیٹے کے دفن کی رسم کے وقت ان کے غم میں شامل مسلمانوں سے کہا کہ ان کا بیٹا مارا گیا لیکن وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور اپنا بیٹا کھوئے۔  انہوں نے کہا کہ وہ تیس سال سے اس شہر میں ہیں اور اگر کسی نے بدلے کی سوچی تو وہ شہر چھوڑ دیں‌گے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا نے تقریباً دو مہینے پہلے دہلی میں اپنے بیٹے کی موت کے غم میں ڈوبے ہوئے یشپال سکسینہ کو سنا تھا یا نہیں۔  ان کے بیٹے انکت سکسینہ کو اس کی معشوقہ شہزادی کی فیملی والوں نے مار ڈالا تھا، اس کی اس حماقت کے لئے کہ ہندو ہوکر وہ ایک مسلمان سے محبت کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔والد نے کہا، ‘ ہاں! جنہوں نے میرے بیٹے کو مارا وہ مسلمان تھے، لیکن ہر مسلمان پر اس کا الزام نہیں نہیں دیا جا سکتا میں کوئی اشتعال انگیز بیان بازی نہیں چاہتا۔  جو ہوا اس سے میں بہت غم زدہ ہوں لیکن میں نہیں چاہتا کہ کوئی (اس کے بہانے) مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت کا ماحول بنائے۔  ‘

یشپال سکسینہ کا رد عمل غیر معمولی تھا کیونکہ وہ انسانی تھا۔  وہ درد اور تکلیف کی سمجھداری سے پیدا ہواتھا۔  وہ کھونے کا مطلب جاننے کی کوشش کا نتیجہ تھا۔  خالی پن جو کسی اپنے کے نہ رہنے پر پیدا ہوتا ہے کیا دوسرے خالی پن سے بھرا جا سکتا ہے؟نہیں معلوم کہ یشپال سکسینہ نے اتنا کچھ سوچا تھا یا نہیں۔  ذاتی دکھ کو اجتماعی  ہوتے دیکھ‌کر تسلی ہوتی ہے لیکن جب اس دکھ کا اغوا کرکے اس کو عام کر دیا جاتا ہے تو وہ بیہودہ اور برہنہ ہو جاتا ہے۔  پھر وہ دکھ اپنا نہ رہ‌کر کسی اور کا ذریعہ بن جاتا ہے۔  اپنے دکھ کو اپنا رہنے دینے کی جدو جہد مشکل ہے۔

یشپال سکسینہ نے ویسے لالچ کو بھی ٹھکرایا جس کے آگے کاس گنج کے سشیل گپتا جھک گئے۔  ان کے بیٹے کی موت اس تشدد میں ہوئی تھی، جو 26 جنوری کو ترنگا یاترا کے بہانے ہو گئی۔قتل کس نے کیا، یہ یقینی طور پر جاننا سشیل گپتا کے لئے ممکن نہ تھا۔  وہ موقع واردات پر نہیں تھے، لیکن انہوں نے دوسروں کے کہنے پر جو رپورٹ لکھوائی اس میں یہ کہا کہ سلیم سمیت 20 لوگوں نے ترنگا یاترا کے لوگوں کو روکا اور ان کے پرچم کو چھین‌کر زمین پر پھینک دیا۔  انہوں نے (یاتراکے) لڑکوں کو ‘ پاکستان زندہ باد ‘ کے نعرے لگانے کو کہا۔  میرے بیٹے نے جب اعتراض کیا انہوں نے اس پر پتھر پھینکے۔  سلیم نے نشانہ لگاکر میرے بیٹے پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہوا اور بعد میں ا سپتال میں اس کو مردہ قرار دیا گیا۔

اس ایف آئی آر کے علاوہ چندن گپتا کے والد اس کے لئے شہید کا درجہ مانگ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی فیملی اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔  انہوں نے جو بیان دئے ان میں مسلمانوں سے بدلہ لینے کی آواز صاف صاف سنی جا سکتی ہے۔  ان کے گھر میں جانے والے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ بیٹے کی تصویر کے اوپر ترنگا  لگا ہوا ہے۔سشیل گپتا کا رد عمل ہی آج کی حالت کے لئے فطری مانا جائے‌گا، یشپال سکسینہ کا نہیں۔  اگر چندن کی موت کے ٹھیک بعد کا ان کا رد عمل یاد کریں تو سشیل گپتا نے بھی امن کی اپیل کی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کا رد عمل بدل گیا۔یشپال سکسینہ کا نہیں بدلا۔

حالانکہ بی جے پی کے دہلی صدر اور ان کے معاون جماعتوں نے یہ کوشش کی۔  انہوں نے انکت کے لئے 1 کروڑ روپے کے معاوضے کی مانگ کی اور اس کو ‘ منظم جرم ‘ کا نام دےکر معاملے کو ایک خاص سمت میں موڑنے کی کوشش بھی۔ لیکن ان کے اشارے کے باوجود یشپال سکسینہ لالچ میں نہیں پڑے۔  یہاں تک کہ انکت کے نام پر نکالے گئے جلوس میں بھی وہ شامل نہیں ہوئے۔ایک تیسرا رد عمل اکرم حبیب کا ہے۔  ان کی بد نصیبی کہ وہ اپنی حاملہ بیوی سے ملنے 26 جنوری کو ہی کاس گنج آئے اور وہاں حالات بگڑتے دیکھ کر ان کو لےکر علی گڑھ نکلے۔  راستے میں بھیڑ نے ان کی کار کو گھیر لیا اور ان کو پتھروں، لاٹھیوں سے پیٹتے رہے۔

ان کی  منّت سماجت کی وجہ سے  شاید بھیڑ میں شامل کسی کی بچی رہ گئی انسانیت نے سر اٹھایا اور ان کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔  اس حملے میں اکرم کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تھی لیکن انہوں نے بیان دیا، ‘ جنہوں نے میری آنکھ پھوڑی، اللہ ان کو معاف کرے۔  میرے دل میں ان کے لئے کوئی میل نہیں۔  میں بہت خوش ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھ سکا۔  اور کوئی بات میرے لئے معنی نہیں رکھتی۔  جنہوں نے میرا یہ حال کیا، میں ان کو کوئی بددعا نہیں دینا چاہتا۔  ‘اکرم پر حملہ اور ان کا یہ بیان انکت کے قتل سے پہلے کا ہے۔  کہنا مشکل ہے کہ اکرم کی یہ جذباتی اپیل یشپال سکسینہ تک پہنچی بھی ہوگی، لیکن دونوں کا رد عمل ایک سا ہے۔  اس میں کیا شک کہ اکرم پر حملہ اسی لئے ہوا کہ وہ مسلمان تھے اور حملہ آور ہندو۔یہ بھی صاف ہے کہ انکت کا قتل غیر مسلمان ہوکر بھی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کے ارادے کی وجہ سے کیا گیا۔  دونوں میں لیکن ایک فرق ہے اور وہ فرق اہم ہے۔

اکرم جس تشدد کے شکار ہوئے، وہ مسلمان محض کے خلاف تھا۔  اکرم کی جگہ کوئی صلاح الدین یا عمران بھی اس کی چپیٹ میں آ سکتا تھا، جیسے کہ کئی مسلمان آئے بھی۔ جبکہ انکت کا قتل ہندوؤں کے خلاف منظم تشدد کا نتیجہ یا حصہ نہ تھا۔  اس کا نشانہ انکت کے علاوہ کوئی اور ہندو نہ ہوتا۔ایک فرق اور ہے۔  اکرم پر حملے کی مزاحمت ہندوؤں پر واپسی حملے کے طور پر ہو، اس کا خدشہ ابھی کے ہندوستان میں نہ کے برابر ہے۔  ویسے ہی جیسے دلت کبھی بھی اپنے اوپر حملے کا جواب نہیں دے سکتے۔  اونچی ذاتوں کے دلتوں پر حملے کی مزاحمت کبھی ان پر واپسی حملہ کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔یہ نہیں کہ ایسا ہونا چاہئے لیکن یہ ہوا نہیں ہے، یہ ایک حقیقت ہے جو اپنے آپ میں کم اہم نہیں ہے۔  آج کے ہندوستان میں مسلمان بھی اسی حالت میں ہیں۔  بلکہ وہ دلتوں سے بھی گئی گزری حالت میں ہیں کیونکہ دلت کم سے کم احتجاجی مظاہرہ لےکر ممبئی تک جا سکتے ہیں، مسلمان یہ بھی نہیں کر سکتے۔

انکت کے علاوہ کسی اور ہندو کا قتل اس کی جگہ نہیں ہوتا، یہ صاف ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ انکت کے قتل کو ایک ہندو کے مسلمان کے ذریعے کیا گیا قتل میں بدلنا بہت آسان تھا۔یہ بھی اس کو ایک ہندو کے طور پر اپنا لیا جانا اور اس کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑکانا آسان تھا۔  اسی لئے انکت کے والد یشپال سکسینہ کی اپیل کے ایک الگ معنی ہیں۔  وہ اس منظم طاقت کو جانتے ہیں جو مردہ انکت کو اپنانے کو مستعد ہے۔اس لئے وہ اس کے لئے 1 کروڑ کے معاوضے کو سمجھ پائے : یہ کوئی ان کے متعلق ہمدردی نہ تھی بلکہ رقم کو بڑی کرکے اس موت کی خوفناکی کو اور گہرا کرنے کی کوشش تھی۔

اس بڑے معاوضے کے ذریعے یہ اشارہ کرنے کی کہ اس ملک میں ہندوؤں کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔  اس کے ٹھیک پہلے چندن کی موت کے بعد بیس لاکھ کی رقم معاوضے میں فوراً دی گئی تھی۔  اس رقم کو بڑھانے کی مانگ بھی کی گئی تھی۔یشپال سکسینہ نے سشیل گپتا سے نہیں سیکھا، اپنی روح کو سنا۔  سشیل گپتا نے اپنے مردہ بیٹے کو ان لوگوں کے حوالے کر دیا جن کے لئے مرنے کے بعد وہ کہیں زیادہ مفید ہو سکتا تھا۔چندن کو اب مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار میں بدل دیا گیا تھا لیکن یشپال سکسینہ نے یہ نہیں ہونے دیا۔  وہ ان کا بیٹا بنا رہا، ان کا دکھ بھی صرف ان کا دکھ بنا رہا، کسی انتقام کا ایندھن نہیں بنایا جا سکا۔

یشپال سکسینہ نے جو اپیل کی وہ کہاں پہنچی؟  وہ کسے خطاب تھا؟  ہندوؤں کو یا مسلمانوں کو؟  مسلمان اس اپیل کو سن‌کر انکت کے والد کے شکرگزار ہوئے۔کیا وہ اپیل ہندوؤں نے سنی؟  کیا اس اپیل کے مقصد کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کی گئی؟  یا، یہ مان لیا گیا کہ یشپال سکسینہ کا خون خون نہیں پانی ہے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کے قتل کے بعد بھی مسلمانوں پر نہیں ابلا؟یشپال سکسینہ کی اس اپیل سے پہلے اکرم کی اپیل کو بھی غور سے سننے کی ضرورت ہے۔  اکرم یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی اور ان کی حاملہ بیوی کے خون کی پیاسی اس بھیڑ میں بھی انسانیت تھوڑی بچی تھی، ورنہ ان کی گاڑی کی چابی کیونکر واپس ملتی اور ان کو زندہ کیوں چھوڑ دیا جاتا؟

وہ پیٹے جانے اور آنکھ گنوا دینے پر دھیان نہیں دیتے بلکہ جان بخش دینے کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔  وہ اس اپیل میں کہتے ہیں کہ ہندوستان کو بچانے کی ضرورت ہے، اس کو ہندو ؤں کا ملک نہ بنا دیا جائے جس میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہ ہو!ظاہری طور پر ایک مسلمان کی طرف سے یہ اپیل ہندوؤں کے لئے ہے، ان میں بھی ان کے لئے جو ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا قبضہ مان بیٹھے ہیں۔یشپال سکسینہ اور اکرم کے دو مہینے بعد ہی مولانا رشیدی کو اپیل کرنے کی ضرورت آ پڑی، جس میں وہ اپنے بیٹے کے غم سے زیادہ ملک کی صحت کی فکر کریں۔  اس کا مطلب ہی ہے کہ پہلی دو اپیلیں خالی گئیں۔  اس سیاست میں جو ہندوؤں کے نام پر اس ملک میں کی جا رہی ہے، انسانیت کااستحکام پیدا کرنے میں وہ اپیلیں ناکام رہیں۔  وہ سیاست انسانیت کی کسی بھی پکار کو سن پانے میں نااہل ہے، یہ واضح ہے۔

یشپال ہوں یا اکرم یا رشیدی، یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ قاتلوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس لئے ان کو معاف کر دیا جائے۔  وہ قتل اور تشدد کے لئے انصاف کے عمل کو ملتوی کرنے کی بات نہیں کر رہے۔وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ بدلے کی کارروائی انصاف کی جگہ نہیں لے سکتی۔  لیکن انصاف کیا ہی نہ جائے اور جرم کو بھلا دیا جائے، یہ وہ نہیں کہہ رہے ہیں۔

تقسیم کے وقت کے تشدد میں بار بار یہ سوال اٹھا تھا کہ جو قتل ہوئے یا جرم ہوئے ان کو بھلا دیا جائے، نواکھالی، بہار، کلکتّہ اور دہلی میں بدلے کی آگ کو بجھاتے پھرتے گاندھی نے کہا کہ جرم کے لئے قائم ہوئے مقدمے واپس کرنے کی مانگ غلط ہے۔ہر جرم کا انصاف ہونا چاہئے اور جرم کرنے والوں کو سزا سے بچنے کے لئے نہیں سوچنا چاہئے، لیکن ابھی جس ہندوستان میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں انصاف کی جگہ بدلے نے لی ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)