خبریں

صحافیوں کے احتجاج کے بعد فیک نیوزکے متعلق گائیڈ لائنس واپس

پی ایم او کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فرضی خبروں سے نمٹنے کی ذمہ داری پریس کاؤنسل اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن کی ہونی چاہئے۔

(فوٹو بشکریہ : رائٹرس / فِلکر السٹریشن : دی وائر) 

(فوٹو بشکریہ : رائٹرس / فِلکر السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی:وزیراعظم   دفتر (پی ایم او) نے منگل کو وزارت اطلاعات و نشریات سے فیک نیوز یعنی فرضی خبروں کے بارے میں جاری  ایک ریلیز کو واپس لینے کو کہا ہے۔  ساتھ ہی زور دیا کہ فرضی خبروں کی وضاحت کے موضوع کو پریس کے متعلقہ اداروں پر چھوڑ دینا چاہئے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پی ایم اونے محسوس کیا کہ حکومت کو اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔کئی طرف سے تنقید ہونے کے بعد پی ایم اونے وزارت کو ریلیز واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فرضی خبروں سے نمٹنے کی ذمہ داری پریس کاؤنسل آف انڈیا (پی سی آئی) اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن (این بی اے) جیسے اداروں کی ہونی چاہئے۔

بہر حال، وزارت اطلاعات و نشریات کے افسروں نے پی ایم او سے اس بارے میں ہدایت ملنے کی تصدیق کی ہے۔  وزارت کی طرف سے جاری مختصر بیان میں کہا گیا ہے، ‘ فرضی خبر کو مستقل کرنے کے سلسلے میں دو اپریل، 2018 کو پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)سے صحافیوں کے اکریڈیشن کے لئے ترمیم شدہ گائیڈ لائنس کےعنوان سے جاری پریس ریلیز واپس لی جاتی ہے۔  ‘

وزارت نے پیر کو فرضی خبروں کو روکنے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی صحافی اگر فرضی خبر بنائے‌گا یا اس کو آگے بڑھائے‌گا تب اس  کا اکریڈیشن رد کیاجا سکتا ہے۔ اس گائیڈ لائنس پر کانگریس پارٹی اورصحافیوں کی کئی تنظیموں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔دو اپریل کو جاری ان ہدایات میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی صحافی فرضی خبر کی اشاعت یا نشریات کے لیے ذمہ دار پایا جاتا ہے تب اس کا اکریڈیشن پہلی بار ایسی خلاف ورزی کرنے پر چھے مہینے کے لئے اور دوسری بار خلاف ورزی کے معاملے میں ایک سال کے لئے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے اشتہار میں کہا گیا تھا کہ تیسری بار ایسی خلاف ورزی کرنے پر صحافی کا اکریڈیشن مستقل طور پر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔  حالانکہ اس میں فرضی خبر کی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔وزارت نے کہا تھا کہ اگر فرضی خبر کے معاملے پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں تو اس کی کوئی بھی شکایت  پریس کونسل آف انڈیا(پی سی آئی) کو بھیجی جائے‌گی اور اگر یہ الکٹرانک میڈیا سے وابستہ پایا جاتا ہے تو شکایت نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن (این بی اے) کو بھیجی جائے‌گی تاکہ یہ طے ہو سکے کہ خبر فرضی ہے یا نہیں۔

وزارت نے کہا تھا کہ ان ایجنسیوں کو 15 دن کے اندر خبر کے فرضی ہونے کا تعین کرنا ہوگا۔اس سے پہلے اطلاعت و نشریات کی وزیر اسمرتی ایرانی نے ٹوئٹ کیا کہ پی آئی بی سے وابستہ ہدایات میں پریس کاؤنسل آف انڈیا اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن سے فرضی خبر کو وضاحت کرنے اور اس کے خلاف قدم اٹھانے کو کہنے کے موضوع پر بحث چھڑ گئی ہے۔  کئی صحافی اور تنظیم اس بارے میں مثبت مشورہ دے رہے ہیں۔ایک دیگر ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کو فرضی خبر کی برائی سے لڑنے میں  ایسے اداروں  کا مشورہ حاصل کرنے میں خوشی ہوگی۔

دریں اثناوشو ہندو پرشد نے فرضی خبروں کے معاملے میں صحافیوں کے اکریڈیشن کے لئے ترمیم شدہ گائیڈ لائنس کے لیے مرکز کے اقدام کی منگل کو تنقید کی اور کہا کہ یہ قدم ‘ غیراعلانیہ ایمرجنسی ‘ کے برابر ہے۔وہپ کے پروین توگڑیا نے میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون بتایا اور کہا کہ کسی بھی طریقے سے اس کی آواز دبانا شہری حقوق کے لئے خطرناک ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا، ‘ حکومت کے اس انتہائی غیرجمہوری قدم کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔  یہ اور کچھ نہیں بس غیراعلانیہ ایمرجنسی ہے۔  ‘

انہوں نے کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن کہا کہ جنہوں نے 52 سال تک ‘ اس طرح کی ایمرجنسی ‘ کی مخالفت کی، وہی اب اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں۔توگڑیا نے کہا، ‘ یہ حیران کن اور خوفناک ہے۔  ‘انہوں نے کہا کہ میڈیا کی کسی اسٹوری سےمتفقیا غیرمتفق ہونا یہ آدمی پر منحصر کرتا ہے لیکن میڈیا کی آواز کو دبانا ناقابل قبول ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے  ان پٹ کے ساتھ)