خبریں

رشتہ داروں نے کہا ، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ راج گرو کبھی آر ایس ایس سے وابستہ تھے

راج گرو کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ پورے ملک کے انقلابی تھے اور ان کا نام کسی خاص تنظیم سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔

Raj Guru Wikipedia

راج گرو/فوٹو : وکپیڈیا

نئی دہلی: حال میں آئی ایک کتاب میں مجاہد آزادی راج گرو کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سویم سیوک کے روپ میں دکھائے جانے پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان کے رشتہ داروں نے کہا ہے کہ راج گرو کے سنگھ سے وابستہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔آر ایس ایس  کے سابق نیشنل کیمپینر اور صحافی نریندر سہگل کے ذریعے لکھی گئی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ راج گرو سنگھ کے ‘ سویم سیوک ‘ تھے۔مجاہد جنگ آزادی  راج گرو کو شہید اعظم سردار بھگت سنگھ اور انقلابی سکھدیو کے ساتھ 23 مارچ 1931 کو پھانسی دے دی گئی تھی۔  سال 1928 میں برٹش پولیس افسر جے پی سانڈرس کے قتل کے الزام میں ان کو یہ سزا دی گئی تھی۔

راج گرو کے بھائی کے پوتے ستیہ شیل  اور ہرشوردھن راج گرو نے سوموار کو پونے میں کہا، ‘اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ راج گرو آر ایس ایس کے سویم سیوک تھے اور نہ ہی ہمارے دادا نے کبھی ہمیں اس بارے میں بتایا۔’ انہوں نے ایک مراٹھی نیوز چینل سے کہا، ‘ حالانکہ یہ صحیح ہے کہ ناگ پور میں ان کے (راج گرو) مختصر قیام کے دوران سنگھ کے ایک سویم سیوک نے انتظام کئے تھے۔’ ستیہ شیل  اور ہرشوردھن راج گرو نے کہا، ‘ راج گرو تمام ملک کے انقلابی تھے اور ان کا نام کسی خاص تنظیم سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔  ‘

سینئر آر ایس ایس رہنما ایم جی ویدیہ نے اس بات کی تردید کی ہے۔  انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ سنگھ کے  بانی کیشو بلرام ہیڈگیوار نے ناگ پور میں راج گرو کے قیام کے لئے ‘ خفیہ انتظام ‘ کرائے ہوں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا راج گرو نے ناگ پور میں آر ایس ایس کی شاخ موہتے باغ کا دورہ کیا تھا، ویدیہ  نے کہا، ‘ آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا راج گرو شاخ آئے تھے۔  ہو سکتا ہے، وہ آئے ہوں۔  کیا ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ان کے لئے کچھ انتظام کئے تھے؟  ہو سکتا ہے انہوں نے کیا ہو۔  ‘ انہوں نے ناگ پور میں کہا، ‘ جب ارونا آصف علی (جنگ آزادی کے دوران) زمین دوز تھیں تو وہ دہلی کے آر ایس ایس عہدےدار  ہنس راج گپتا کے گھر ٹھہری تھیں۔  ‘

ویدیہ نے کہا، ‘ اگر (راج گرو) آئے ہوں‌گے تو ممکن ہے کہ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ان کے قیام کے لئے خفیہ انتظام کئے ہوں۔  یہ ممکن ہے کیونکہ ڈاکٹر ہیڈگیوار ایک انقلابی تھے اور انقلابیوں سے ان کے تعلقات تھے۔  ان کی آپ بیتی میں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔’ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کبھی سنگھ کی دانشورانہ بحث میں راج گرو کے بارے میں بات چیت  ہوئی،   ویدیہ  نے کہا، ‘ کم سے کم میں نے اس بارے میں نہیں سنا ہے۔’  آر ایس ایس کے سابق کیمپینر نریندر سہگل نے اپنی کتاب ‘بھارت ورش کی سروانگ سوتنترتا ‘ میں دعویٰ کیا ہے راج گرو نہ صرف سنگھ کے سویم سیوک تھے بلکہ ناگ پور میں سنگھ کے صدر دفتر موہتے باغ کے سویم سیوک تھے۔ناگ پور میں گزشتہ  مارچ کے مہینے میں آل انڈیا ریپرزنٹیٹو میٹنگ کے دوران اس کتاب کی کاپیاں بانٹی گئی تھیں۔

ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، کتاب کا ایک حصہ جس کا عنوان ‘ سویم سیوک سوتنترتا سینانی ‘ میں سہگل نے لکھا ہے کہ برٹش پولیس افسر جے پی سانڈرس کے قتل کے بعد راج گرو نے ناگ پور میں سنگھ کے صدر دفتر کا دورہ کیا تھا۔سال 1928 میں سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کے دوران لالہ لاجپت رائے کے زخمی ہونے اور بعد میں ان کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سانڈرس کا قتل کیا گیا تھا۔سہگل کے مطابق، ناگ پور میں راج گرو سنگھ کے بانی کیشو بلرام ہیڈگیوار سے ملے تھے جنہوں نے ان کے لئے ایک محفوظ ٹھکانے کا انتظام کیا تھا اور پونے میں ان کے اپنے گھر نہیں جانے کی صلاح دی تھی۔

سہگل نے لکھا ہے، ‘ ان کی قربانی (راج گرو اور دوسرے لوگوں کو پھانسی دئے جانے کی خبر) کے بارے میں سن‌کر گروجی (ہیڈگیوار)دکھی  تھے لیکن حیران نہیں۔  انہوں نے اپنے معاونین سے کہا تھا کہ ان کی قربانی بےکار نہیں جائے‌گی۔’ اس دعویٰ کی سچائی کے بارے میں پوچھے جانے پر سہگل نے کہا تھا، ‘ یہ حقیقت سنگھ کے کئی اشاعتوں میں لکھی ہوئی ہے۔  اس بات کا ذکر سال 1960 میں سب سے پہلے نارائن ہری نے اپنی کتاب میں کیا تھا۔’ ہندوستان ٹائمس سے بات چیت میں مؤرخ آدتیہ مکھرجی نے کہا تھا، ‘ بی آر امبیڈکر، سوامی وویک آنند اور بال گنگادھر تلک کی طرح راج گرو کو اپنا بتانا سنگھ کی  ایک مضحکہ خیز کوشش ہے۔  ‘

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے دستاویز نام کی کتاب کو ایڈٹ  کرنے والے جے این یو کے سابق پروفیسر چمن لال نے بھی سہگل کے اس دعویٰ کو خارج کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا، ‘ اس سے پہلے سنگھ کی طرف سے بھگت سنگھ کو اپنا معاون بتانے کی کوشش کی گئی تھی۔  اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بھگت سنگھ یا راج گرو سنگھ میں شامل تھے۔  ان کے معاونین کی طرف سے لکھی گئی آپ بیتی میں بھی اس طرح کے دعویٰ کا ذکر نہیں ہے۔  ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)