خبریں

سرکاری بینکوں کو 650 کروڑ کا چونا لگانے والی کمپنی سے وزیر ریل کا کیا رشتہ تھا؟

2010 تک پیوش گوئل ایک ڈفالٹر کمپنی شرڈی انڈسٹریز کے ڈائریکٹر تھے جس نے سرکاری بینکوں سے لیا قرض چکایا نہیں، الٹے ایک دوسری  کمپنی کے ذریعے گوئل کی بیوی کی فرم کو 1.59 کروڑ روپے  کا اَن سکیورڈ لون(Unsecured Loan) دیا۔

مرکزی وزیر ریل پیوش گوئل (فوٹو : پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر ریل پیوش گوئل (فوٹو : پی ٹی آئی)

ایسے وقت میں جب بینکوں میں بیڈ لون بڑھتے جا رہے ہیں، کیا یہ کسی وزیر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی کمپنی میں اپنے مفاد کے بارے میں بتائے جس کا کل بقایا قرض 650 کروڑ روپے ہے، اور جس کے ڈائریکٹر رہتے وقت یہ کمپنی اقتصادی نقصان میں گئی اور جس کو اس نے بعد میں چھوڑ دیا؟یہ کمپنی ممبئی کی شرڈی انڈسٹریز ہے۔  جولائی 2010 تک جب اس نے قرض لئے اور دیر سے ہونے والی ادائیگی کے لئے اس کو عالمی ریٹنگ ایجنسی کریسل (Crisil)نے پھٹکار لگائی۔ اس کے چیئر مین اب مودی حکومت کے ‘ سنکٹ موچن ‘ اور ملک کےوزیر  ریل پیوش گوئل تھے۔

یہاں تک کہ جب اس کمپنی پر سرکاری بینکوں سے لیا قرض بقایا تھا، تب شرڈی کے پرموٹرس نے ایک دوسری  کمپنی کے ذریعے پیوش گوئل کی بیوی کی ایک کمپنی Intercon Advisers Pvt Limited(انٹرکان ایڈوائزرس پرائیویٹ لمیٹڈ) کو ایک اَن سکیورڈ قرض دیا گیا۔  دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس لون کے بارے میں کہا کہ یہ ‘ دوستی ‘ کی وجہ سے  دیا گیا تھا۔انٹرکان کے ذریعے مالی سال 2016 میں دی گئی آخری فائلنگ میں دکھایا گیا تھا کہ کمپنی پر اسس انڈسٹریز(Asis Industries) کا 1.59 کروڑ روپے بقایا ہے۔  اسس انڈسٹریز شرڈی کے پرموٹرس کی ایک دوسری  کمپنی ہے۔اسس کا گوئل کی بیوی کو لون دینے کے علاوہ شرڈی کے پرموٹرس کا 4 کروڑ روپے کا پرووڈینٹ فنڈ بھی بقایا ہے۔

شرڈی انڈسٹریز نے نہ صرف اپنے لون چکائے بلکہ ان کے قرض کا معاملہ National Company Law Tribunal (این سی ایل ٹی) میں پہنچا، جہاں دین دار بینک قرض کا 60 فیصدمعاف کرنے پر متفق ہوئے۔یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ کسی بینک کے ذریعے قرض کی طےشدہ مدت اور طےشدہ حد سے اوپر ہو جانے کی حالت میں کمپنی اور بینک کے درمیان این سی ایل ٹی کے ذریعے بات ہوتی ہے۔حالانکہ بینکوں کا اس طرح کمپنی کا قرض معاف کرنا قانون کے تحت جائز ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ شرڈی کے ڈائریکٹر ایک مرکزی وزیر رہ چکے ہیں، اس کے پرموٹرس ایک دوسری  کمپنی کے ذریعے اس وزیر کی بیوی کی کمپنی کو لون دے چکے ہیں اور اس کمپنی کے پرموٹرس وزیر جی‌کے بھائی کی فرم سے بھی جڑے ہیں، اس کو مفاد عامہ کا مسئلہ بناتے ہیں۔

دسمبر 2017 میں این سی ایل ٹی نے ایک غیر متوقع فیصلہ دیتے ہوئے اس کمپنی کے پرموٹرس کو اپنی ہی کمپنی کے لئے بولی لگانے کی اجازت دی کیونکہ ا س کے دین دار(جن میں زیادہ تر حکومت کی ملکیت میں ہیں) نے اس پر بھروسہ جتایا تھا۔

اسس انڈسٹریز کے پرموٹر راکیش اگروال (فائل فوٹو بشکریہ : اسس انڈسٹریز)

اسس انڈسٹریز کے پرموٹر راکیش اگروال (فائل فوٹو بشکریہ : اسس انڈسٹریز)

حالانکہ این سی ایل ٹی کا یہ فیصلہ مودی حکومت کے نومبر 2017 میں Non-performing asset (این پی اے) پر دئے گئے حکم کے بالکل برعکس تھا۔  حکومت کے اس حکم کے مطابق اگر کسی کمپنی کے قرض کو ایک سال سے زیادہ سے این پی اے میں ڈالا جا چکا ہے تو اس کے موجودہ پرموٹرس اپنی ہی کمپنی کے لئے بولی نہیں لگا سکتے۔این پی اے قانون اسی لئے بنایا گیا تھا کہ کمپنی پرموٹرس بینکوں سے بڑے قرض لےکر، اس کو ڈوباکر، پھر بینک سے قر ض معافی لےکر پھر (اقتصادی طور پر مضبوط ہو چکی) کمپنی پر حق جتانے نہ پہنچ جائیں۔  لیکن یہاں یہی ہوا۔

ٹریبونل نے کہا کہ اس نے نئے قانون کے اصولوں میں ڈھیل اس لئے دی کہ اس قانون کے اعلان سے پہلے شرڈی کے 99فیصد دین دار اس رسولیوشن پلان جس میں صرف شرڈی کے پرموٹرس ہی اکیلے بولی لگانے والے تھےکو لےکر متفق ہو چکے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ جب تک پیوش گوئل شرڈی کے صدر تھے تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔  سال 2008 سے 2010 کے  درمیان ان کے ڈائریکٹر رہتے ہوئے بھی شرڈی کی  کئی ادائگی بقایا رہ گئی تھی۔  حالانکہ ان قرضوں کو ڈیفالٹ کرنا سال 2014 کے بعد شروع ہوا۔اس کے بعد ان کو قرض دینے والے بینکوں کے کنسورٹیم نےAsset reconstruction companies (اے آر سی)-جے ایم فائننشیل اور ایڈلوائس کو وصولی کی ذمہ داری دی تھی۔  2015 میں چھپی بزنس لائن کی رپورٹ کے مطابق ان اے آر سی کمپنیوں نے پرموٹرس سے دوبارہ فنڈ لانے کو، ایکوٹی دینے کو کہا اور 82فیصد لون کو ری اسٹرکچر یعنی دوبارہ تیار کیا گیا۔  ساتھ ہی لون واپس دینے کی میعاد مارچ 2022 تک بڑھا دی گئی۔

حالانکہ لکویڈٹی کے فقدان میں شرڈی انڈسٹریز کو بیمار قرار دے دیا گیا اور اس کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے ایس بی آئی(اسٹیٹ بینک آف انڈیا) کو آپریٹنگ ایجنسی بنایا گیا۔بینکوں کے کنسورٹیم میں یونین بینک، ایس بی آئی، یوکو بینک، بینک آف انڈیا، انڈین بینک اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک شامل ہیں۔  وہ جزوی قرض واپسی کے بدلے شرڈی میں ایکوٹی لینے کو راضی ہوئے تھے۔

Piyush-Shirdi-Rakesh-Agarwal

شرڈی اور اس کی اصل کمپنی اسس انڈیا کے پرموٹرراکیش اگروال نے بتایا، ‘ پیوش 1994 سے میرے بےحد قریبی دوست ہیں۔  ‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان دونوں کی فیملی بھی کافی قریب ہیں۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے راکیش نے کہا، ‘ پیوش سے میرا رشتہ بےحد گہرا اور عزت کا ہے لیکن میں نے کبھی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ ہماری ایسی تربیت نہیں ہوئی  ہی۔’ سال 2010 میں جب شرڈی انڈسٹریز نے آئی پی او کے لئےSecurities and Exchange Board of India(ایس ای بی آئی)کو کئے درخواست میں پیوش گوئل کو کمپنی کا چیئر مین اور نان ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر بتایا تھا۔اس کے علاوہ رجسٹرار آف کمپنیز کو دی گئی جانکاری کے مطابق گوئل اپریل 2008 سے جولائی 2010 تک شرڈی کے ڈائریکٹر تھے۔  30 ستمبر 2009 تک وہ فل ٹائم  ڈائریکٹر تھے، جس کے بعد وہ استعفیٰ دےکر نان ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر بن گئے تھے۔

اگروال نے بتایا، ‘ ہم چاہتے تھے کہ ہماری  رہنمائی کے لئے ہمارے دوست بورڈ میں رہیں، اس لئے وہ کچھ سالوں تک بورڈ میں تھے۔  لیکن اس کے بعد بھی ہم نے کبھی ان کا فائدہ نہیں اٹھایا۔’ 2010 کی Crisil رپورٹ میں مجوزہ آئی پی او کا تجزیہ کرتے ہوئے  کہا گیا کہ شرڈی میں کارپوریٹ گورنینس کا طریقہ بےحد خراب ہے، ساتھ ہی کمپنی بینکوں کو بقایا چکانے کے لئے بھی جوجھ رہی ہے۔اس رپورٹ میں کہی گئی سب سے اہم بات یہ تھی کہ کمپنی کے ذریعے اپنی مالی ذمےداریوں کو پورا کرنے کا رکارڈ بےحد خراب ہے۔کمپنی کی فائلنگ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فروری 2009 سے دسمبر 2013 تک پیوش گوئل اور ان کی بیوی سیما گوئل ایک دوسری  کمپنی Sajal Finance and Investments Private Limited میں ڈائریکٹر تھیں۔

ان کے بعد اسس انڈسٹریز کے ڈائریکٹر  گورو راکیش اگروال اور امت مکیش بنسل کو یہ ذمہ داری ملی۔  گورو اسس اور شرڈی کے پرموٹر راکیش اگروال کے بیٹے ہیں۔اگروال اگست 2011 سے اپریل 2013 تک پردیپ میٹلس کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں بھی تھے۔  پردیپ میٹلس کے پرموٹر پیوش گوئل کے بھائی پردیپ گوئل ہیں۔  اگروال کا کہناہے کہ پردیپ بھی ان کے دوست ہیں۔

یہ سب یہیں ختم نہیں ہوتا۔انتظامیہ کو دی گئی فائلنگ کے مطابق انٹرکان ایڈوائزرس پرائیویٹ لمیٹڈ پوری طرح سے پیوش گوئل کی بیوی سیما گوئل اور بیٹے دھرو گوئل کی ملکیت والی کمپنی ہے، جس کو مالی سال 2016 میں اسس انڈسٹریز سے 1.59 کروڑ روپے کا اَن سکیورڈ لون دیا گیا تھا۔اگروال کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی جس کی معاون کمپنی پر سرکاری بینکوں کا قرض بقایا ہے،کے ایک وزیر کی بیوی اور بیٹے کی کمپنی کو اَن سکیورڈ لون دینے میں کچھ غلط نہیں ہے۔اگروال نے بتایا، ‘ یہ رقم (اَن سکیورڈ لون) کچھ سال پہلے دی گئی تھی۔  اس وقت ہمارے پاس پیسہ تھا اور مجھ سے گزارش کی گئی تھی کہ کیا میں پیسہ دے سکتا ہوں اور ہماری دوستی کا خیال رکھتے ہوئے میں نے دیا بھی۔ لیکن یہ قرض اسس انڈسٹریز کے ذریعے دیا گیا تھا، جو شرڈی کی ہولڈنگ کمپنی ہے۔  اس لئے اسس ڈیفالٹر کمپنی نہیں ہے۔  ‘ حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ لون پہلی بار کب دیا گیا تھا۔

پیوش گوئل کو دی وائر کی طرف سے سوال بھیجے گئے تھے، جن کا جواب اس رپورٹ کی اشاعت تک نہیں دیا گیا ہے۔  ان کا جواب ملنے پر اس کو اس رپورٹ میں شامل کیا جائے‌گا۔غور کرنے والی بات ہے کہ پیوش گوئل دو سرکاری بینکوں کے بورڈ میں حکومت کے ذریعے نامزد ممبر بھی رہے ہیں ۔ واجپئی حکومت کے وقت پیوش بینک آف بڑودا اور 2004 سے 2008 تک منموہن حکومت کے وقت ایس بی آئی کے بورڈ میں تھے۔کمپنی کی فائلنگ کے مطابق سال 2008 میں شرڈی انڈسٹریز کا چیئر مین اور ڈائریکٹر بننے کے بعد گوئل نے ایس بی آئی بورڈ چھوڑا تھا۔ 2010میں گوئل نے  بی جے پی کےخزانچی  کا عہدہ سنبھالا  اور پھر راجیہ سبھا پہنچے۔  اسی سال ان کو مالی معاملوں سے جڑی ایک پارلیامانی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا۔  یہ کمیٹی بینکوں سمیت تمام مالی اداروں کا کام کاج اور کارکردگی دیکھتی ہے۔

اسس گروپ کی کئی اور کمپنیوں پر بھی کئی سرکاری بینکوں کا قرض بقایا ہے۔ اسس لاجسٹک پر دینا بینک، ایس بی آئی، جے اینڈ کے بینک کا تقریباً 60 کروڑ روپے بقایا ہے جو اب این پی اے ہو چکا ہے۔ان قرضوں کی بات قبول کرتے ہوئے اگروال کا کہنا ہے کہ یہ گروپ بینکوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی فائنل اسٹیج پر ہیں۔انہوں نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ باقی ڈیفالٹر کے برعکس ہم اب تک یہاں ہیں اور سامنے سے لڑ رہے ہیں۔  ہم نے کسی بھی فرم میں کام بند نہیں کیا ہے۔اگروال نے بتایا کہ اسس لاجسٹک اور شرڈی انڈسٹریز کے علاوہ اس گروپ کی دو اور کمپنیاں اسس پلائی ووڈ اور اسس گلو بل بھی لون ڈیفالٹر ہیں، لیکن ان کے مطابق ان کی لون رقم بہت کم ہے۔

شرڈی انڈسٹریز دسمبر 1993 میں Shirdi International Engineers Private Ltd کے نام سے شروع ہوئی تھی۔  1997 میں اس کا نام بدل‌کر شرڈی انڈسٹریز کیا گیا۔اس نے غیر ملکی کاروبار اور سرمایہ کاری صلاح کار کمپنی کے طور پر شروعات کی تھی۔  1997 میں یہ کسٹم کلیرینس اور فارورڈنگ سروس میں بھی اتر گئی۔  دس سال بعد یہ کمپنی بنیادی طور پر ایم ڈی ایف کی تعمیر میں لگ گئی۔کارپوریٹ پرموٹر اسس انڈسٹریز کے علاوہ شرڈی کے پرموٹر راکیش اگروال، سرویش اگروال، مکیش بنسل اور ہری رام اگروال ہیں۔  اسس کے پرموٹر راکیش اگروال اور مکیش بنسل ہیں۔اگروال نے اپنا کریئر ریجنل انجینئرنگ کالج، کروکشیتر میں لیکچرر کے طور پر شروع کیا تھا۔  بعد میں انہوں نے حکومت ہند کی Ministry of Power and the Directorate General of Technical Development(ڈی جی ٹی ڈی ) کے ساتھ کام کیا۔

1993 میں انہوں نے اسس انڈسٹریز کی تشکیل کی جو  اب انٹیریئر فرنیشنگ انڈسٹری (Interior furnishing industry)، لاجسٹک آپریشن اور سافٹ ویئر سسٹم کے شعبے میں کام کرتی ہے۔مکیش بنسل نے ایک کسٹم ہاؤس پارٹنر کے طور پر  شروعات کی تھی جس کو بعد میں اسس گروپ نے حاصل کر لیا۔  ہری رام اگروال اتر پردیش  حکومت کے مختلف محکمہ جات میں کام کر چکے ہیں۔