فکر و نظر

رویش کا بلاگ: فیک نیوز پر مودی جی کو سنت بننے کا کوئی حق نہیں ہے

مرکز ی حکومت کے 13 وزیر جس ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں، اپیل کرتے  ہیں کہ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھائیں، اس ویب سائٹ کو کون چلاتا ہے، کہاں سے چلتی ہے، اس کا پتا دو دنوں تک میڈیا میں بحث ہونے کے بعد بھی نہیں چلتا ہے۔

بی جے پی دفتر میں منعقد دیوالی ملاقات تقریب میں صحافیوں کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

بی جے پی دفتر میں منعقد دیوالی ملاقات تقریب میں صحافیوں کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

اچانک 13 مرکزی وزیر ایک ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں جس نے چار بڑی خبروں کے فیک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان وزراء میں ایم جے اکبر بھی ہیں اور اسمرتی ایرانی بھی ہیں۔ وزیر لکھتے ہیں کہ فیک نیوز کے لئے اپنی آواز اٹھائیں۔انڈین ایکسپریس کے کرشن کوشک کی نظر اس ویب سائٹ پر پڑتی ہے جس کا پتا www.thetruepicture.in دیا گیا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ یہ ڈومین  پچھلے ہی سال رجسٹرکرایا گیا ہے۔ اس میں ایک لینڈلائن نمبر ہے جو بلوکرافٹ ڈجیٹل فاؤنڈیشن کا بھی ہے۔ بلو کرافٹ فاؤنڈیشن وزیر اعظم نے جو کتاب لکھی ہے Exam Warriors اس کا پارٹنر ہے۔ایکسپریس کے کوشک کناٹ پلیس میں واقع بلوکرافٹ کے دفتر جاتے ہیں جہاں دو لوگ ان کو بتاتے ہیں کہ وہ لوگ THETRUEPICTURE کے نام سے کوئی ویب سائٹ نہیں چلاتے ہیں۔  سرکاری رکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ بلوکرافٹ فاؤنڈیشن نام کی کمپنی راجیش جین اور ہتیش جین کے نام پر 2016 میں درج ہوئی تھی۔

راجیش جین کون ہیں؟  یہ جناب 2014 میں وزیر اعظم مودی کی مہم چلا رہے تھے۔  بلوکرافٹ کے بانی سی ای او اکھلیش مشرا بھی 2014 میں مودی کے لئے انتخابی مہم سے جڑے رہے ہیں۔  بلو کرافٹ سے پہلے اکھلیش مشر سرکاری ویب سائٹ MyGov. IN کے کنٹینٹ ڈائریکٹر رہے ہیں۔  اس کمپنی نے من کی بات نام سے کتاب چھاپی ہے۔  تقریر وزیر اعظم کی ہے مگر کتاب پرائیویٹ کمپنی چھاپتی ہے۔  یہی اپنے آپ میں کھیل ہے۔

عام طور پر اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کی سرکاری ذرائع سے دی گئی تقریر پر حکومت  کے شعبہ اشاعت کا حق ہونا چاہئے مگر اس کے لئے ایک نئی کمپنی بنائی جاتی ہے۔ کاش کوئی من کی بات کی فروخت کی ڈیٹیل بھی پتا کر لیتا۔  کوئی ناشر اس کھیل کو آسانی سے بتا سکتا ہے۔  پر خیر۔اکھلیش مشر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ بلوکرافٹ کا TRUE PICTURE ویب سائٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  پھر بلو کرافٹ کا لینڈ لائن نمبر دوسرے کی ویب سائٹ پر کیا کر رہا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کچھ گڑبڑی رہی ہوگی۔  اس اینگل پر این ڈی ٹی وی کے مانس تفتیش کرتے ہیں۔

ایکسپریس کی رپورٹ چھپنے کے کچھ گھنٹوں بعد پتا چلتا ہے کہ لینڈ لائن کی جگہ ایک موبائل نمبر آ گیا ہے۔  وہ موبائل نمبر کسی امت مالویہ کے نام سے درج ہے مگر فون کیا گیا تو نمبر کام نہیں کر رہا تھا۔اس ویب سائٹ نے جن چار خبروں کو فیک نیوز بتائی ہے ان میں سے دو انڈین ایکسپریس کی ہے۔  کرشن کوشک نے ان دو خبروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے تمام فریق سے بات کرنے کے بعد رپورٹ لکھی گئی ہے۔  خبر کا سورس بتایا گیا ہے۔جس ویب سائٹ کو مودی حکومت کے 13 وزیر یہ کہہ‌کر ٹوئٹ کرتے ہیں کہ اس نے فیک نیوز کا پردہ فاش کیا ہے، اس کے بارے میں ایکسپریس میں خبر چھپتی ہے، این ڈی ٹی وی میں رپورٹ ہوتی ہے، ارون شوری سوال اٹھاتے ہیں ،اس کے بعد بھی اس ویب سائٹ کی طرف سے کوئی سامنے نہیں آتا ہے۔  یہ اس ویب سائٹ کا حال ہے جو فیک نیوز کا پتا لگانے کا دعویٰ کرتی ہے۔  امید ہے آپ آسان ہندی میں یہاں تک کا کھیل سمجھ گئے ہوں‌گے۔

ایکسپریس کے نامہ نگار کرشن کوشک کی دوسرے دن رپورٹ چھپی ہے کہ بلو کرافٹ اور ٹرو پکچرکے ملازم ایک ہی ہیں۔  دو خاتون ملازم، جنہوں نے اپنے لنک ڈین(Linkedin) پروفائل میں بلو کرافٹ کے لئے کام کرنے کی بات لکھی ہے، کئی ویڈیو میں ٹرو پکچر کی طرف سے حکومت کی پالیسیوں اور تازہ خبروں پر گفتگو کرتی ہوئیں دیکھی جا سکتی ہیں۔  نامہ نگار کوشک نے بلوکرافٹ کے سی ای او سے سوال کیا تو جواب ملا کہ یہ دو عورتیں ذاتی طور پر ویب سائٹ کے لئے شراکت کرتی ہوں‌گی۔  ابھی مت ہنسیے‌گا۔اکھلیش مشر کہتے ہیں کہ ہم کسی کو اپنے لئے کام کرنے سے نہیں روکتے ہیں۔  یہی نہیں ایکسپریس کی پوچھ تاچھ کے بعد دو خواتین لنکڈین پروفائل سے اپنی تفصیل ہٹا دیتی ہیں کہ وہ بلو کرافٹ کے لئے کام کرتی ہیں۔  بلو کرافٹ کے راجیش جین نے ایکسپریس کو جواب دیا ہے کہ انہوں نے بلو کرافٹ چھوڑ دیا ہے۔

مرکز ی حکومت کے 13 وزیر جس ویب سائٹ کالنک ٹوئٹ کرتے ہیں، اپیل کرتے  ہیں کہ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھائیں، اس ویب سائٹ کو کون چلاتا ہے، کہاں سے چلتی ہے، اس کا پتا دو دنوں تک میڈیا میں بحث ہونے کے بعد بھی نہیں چلتا ہے۔یہ تو حال ہے فیک نیوز سے لڑائی کے متعلق حکومت کی سنجیدگی کا۔ اس طرح کی خاموشی سے اشارہ مل جاتا ہے کہ خفیہ تہہ خانہ سے حکمت عملی بن رہی ہیں۔  بنانے والے اتنے ڈرپوک ہیں کہ ایک ویب سائٹ کا پتا معلوم کرنے سے سب چھپ جاتے ہیں۔  ایک ساتھ 13 وزراء کو ٹوئٹ کرنے کے لئے اس ویب سائٹ کا لنک کہاں سے ملتا ہے؟

کیا ویب سائٹ والوں کے پاس ان کے ٹوئٹ کے پاس ورڈ ہیں؟  کیا ان وزراء کو خود سے نہیں بتانا چاہئے؟  بھائی آپ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھانے جا رہے ہیں تو اتنا بھی مت خاموش رہئے کہ ویب سائٹ ہی فیک لگے۔  یا پھر کوئی کہانی بنائی جا رہی ہے جس کو لےکر میڈیا میں پیش ہوا جائے‌گا۔  جلدی بنا لیجئے! اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ 13 وزیر کون ہیں جو ایک ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں مگر کون چلاتا ہے پتہ نہیں چلتا ہے اور نہ ہی ویب سائٹ خود سے بتاتی ہے۔  ان وزراء کے نام ہیں پیوش گوئل، رادھا موہن سنگھ، اسمرتی ایرانی، پرکاش جاویڈکر، بیریندر سنگھ، کرن رجیجو، ایم جے اکبر، راجیہ وردھن راٹھوڑ، وجے گوئل، بابل سپریو، پی رادھاکرشنن، ارجن رام میگھ وال۔آلٹ نیوزکئی مہینوں سے فیک نیوز کا بھانڈاپھوڑ کر رہا ہے۔اس کا تذکرہ  کچھ اخباروں میں بھی ہوتا ہے۔  کبھی ان وزراء نے فیک نیوز کا بھانڈا پھوڑ نہیں کیا۔

پی ایم مودی کے سیلاب متاثر چنئی کے ہوائی دورے سے جڑی یہ فرضی فوٹو  پی آئی بی، حکومت ہند کے ذریعے جاری کی گئی تھی۔  (فوٹو کریڈٹ : ٹوئٹر)

پی ایم مودی کے سیلاب متاثر چنئی کے ہوائی دورے سے جڑی یہ فرضی فوٹو  پی آئی بی، حکومت ہند کے ذریعے جاری کی گئی تھی۔  (فوٹو کریڈٹ : ٹوئٹر)

کیا وزیر اعظم کو اس بات پر غصہ آیا؟  نہیں نہ۔ فیک نیوز کے معاملے میں وزیر اعظم مودی کا رکارڈ خراب ہی نہیں، بہت زیادہ خراب ہے۔  گجرات انتخابات میں منی شنکر ایّر کے گھر کی میٹنگ کو لےکر انہوں نے ایک فیک نیوز بنائی تھی۔  جس کو لےکر ان کی طرف سے ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں معافی مانگی تھی۔یہ معافی اروند کیجریوال کی معافی دورےسے پہلے کی ہوئی تھی۔  وزیر اعظم نے کبھی فیک نیوز  پر کارروائی نہیں کی جس میں ان کے وزیر شامل رہے ہوں، ان کی پارٹی کے رہنما شامل رہے ہوں۔

اس لئے  فیک نیوز  پر  وزیر اعظم کو سنت بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔  اگر ڈرامے کے لئے کرنا ہے تو ان کا پورا حق بنتا ہے۔  ان کو برا لگے‌گا مگر وہ جانتے ہیں کہ میں نے بات صحیح کہی ہے۔  کیا پتا ہنستے بھی ہوں‌گے کہ صحیح لکھتا ہے، پھر بھی عوام پر تو جادو میرا ہی چلتا ہے! لیکن  مانتے تو ہوں‌گے کہ یہ صحافی جادو پر نہیں لکھتا ہے نہ ہی اس پر میرا جادو چلتا ہے!میں سیدھا بولتا ہوں، وزیر اعظم جی فیک نیوز روکنے کے معاملے میں آپ کا ٹریک رکارڈ زیرو ہے۔  یہ میں ان دوستوں کے لئے لکھتا ہوں جو مجھے ڈراتے رہتے ہیں کہ مودی جی کو چھوڑ‌کر لکھو ورنہ تمہاری نوکری چلی جائے‌گی۔بتائیے تو ہرسال ایک کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے، اسمرتی ایرانی دس پانچ صحافیوں کی نوکری کھانے کا اصول بنا رہی تھیں۔  مجھے ہر دن وزیر اعظم کا نام لےکر میری نوکری جانے کا ڈر دکھایا جاتا ہے۔

پردھان منتری جی، آپ کے حمایتی  آپ کے نام کو بدنام کر رہے ہیں۔  ایسے لمپٹ اور چاپلوس صحافیوں سے دور رہئے۔  جن کی صحافت اور قارئین کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں وہ آپ کے حق  میں ٹوئٹ کرکے  آپ کی ہنسی اڑاتے ہیں۔  آپ جج لویا پر نکیتا سکسینہ کی رپورٹ پڑھئے۔  کیروان ویب سائٹ کا لنک آپ کے 13 وزیر ٹوئٹ کرکے  عدلیہ میں شفافیت کے چیمپئن بن سکتے ہیں۔  ہیں نہ مسٹر پرائم منسٹر!

یہی نہیں، پوسٹ کارڈ نیوز جس کی کئی خبروں کو آلٹ نیوز  نے کئی بار تمام ثبوتوں کے ساتھ فیک ثابت کیا ہے، اس کے مدیر کو وزیر اعظم ہی فالو کرتے ہیں۔  ان کا نام مہیش ہیگڑے ہیں، جن کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے خبر شائع کی کہ ایک جین سنت پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا۔مقصد آپ سمجھ سکتے ہیں تاکہ جذبات بھڑک جائیں۔  پتا چلا کہ جین سنت سڑک حادثہ میں زخمی ہوئے تھے۔  وزیر اعظم کے ایک وزیر اننت ہیگڑے اس مدیر کی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہیں۔  ایک رکن پارلیامان مہیش گری بھی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہیں۔  رکن پارلیامان پریش راول نے بھی کچھ مہینے پہلے فیک نیوز ٹوئٹ کیا تھا، جس کو لےکر خوب مذاق اڑا تو ڈلیٹ کر دیا۔  یاد نہیں کہ وزیر اعظم نے کچھ بولا ہو۔  یاد نہیں کہ اسمرتی ایرانی نے کچھ بولا ہو۔  آپ قارئین کو یاد ہے؟

ایک طرف حکومت فیک نیوز والوں کے ساتھ کھڑی ہے، دوسری طرف فیک نیوز سے لڑنے کا تاناشاہی قانون بناکر خود کو حاکم اعلان کرنا چاہتی ہے۔  اس کھیل کو ایک لائن میں بتا دیتا ہوں۔  وزیر اب اپنا کام چھوڑ‌کرجو خبریں ہیں ان کو فیک ثابت کرنے میں لگائے جائیں‌گے تاکہ ان کی پارٹی دنیا میں جتنے بھی سوشل میڈیا کے جنگجو ہیں وہ اس کو پھیلا دیں کہ صحیح خبر فیک ہے۔فیک نیوز سے لڑنے کے لئے نہیں، صحیح خبر کو فیک بنانے کا یہ کھیل دنیا بھر میں ہوتا ہے۔  اپنے ٹرمپ صاحب تو سوال کرنے والے میڈیا کو روز فیک نیوز کہتے ہیں۔  اب سیدھے سیدھے ٹرمپ کی کاپی کریں‌گے تو ٹھیک نہیں لگے‌گا اس لئے وزراء کو لگا دیا گیا۔  ایسا معلوم ہوتا ہے۔

ہندی میں ایسی صحافت کم ہوتی ہے۔  ہندی اخباروں کے زیادتر مدیر وزیر اعظم میں لامحدود امکانات کو دیکھتے ہوئے ایسی خبروں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، جس میں سماج کو اخلاقیات کا سبق پڑھا سکیں مگر ایسی کوئی خبر نہیں تلاش کریں گے جو حکومت کو اخلاقیات کا سبق پڑھا سکیں۔انگریزی رسالہ اور ویب سائٹ CARAVAN کی نکیتا سکسینہ نے جس طرح جج لویا کی اسٹوری پر ڈیٹیل رپورٹ شائع کی ہے، ویسی رپورٹ کرنے یا کرانے کی اوقات آج ہندی کے کسی اخبار کے مدیر کی نہیں ہے۔  دی وائر کی روہنی سنگھ نے پیوش گوئل کے بارے میں جو رپورٹ چھاپی ہے اس کا ذکر ہندی کے کسی اخبار میں نہیں ہوگا۔

آپ کی طرح ہم بھی ان اخباروں کے جھانسے میں 20 سال تک رہے۔  کبھی اس پر سوچئے‌گا کہ کیا یہ اخبار واقعی آپ کو قاری سمجھتے ہیں؟  آپ کے ساتھ روز صبح دھوکہ ہوتا ہے۔  آپ ان اخباروں کو دھوکے میں مت رکھئے۔  تھوڑی کوشش کر کے ہر مہینے کوئی دوسرا اخبار لے لیجئے۔بھلے وہ بےکار ہو کیونکہ بےکار تو آپ پڑھ ہی رہے ہیں۔  خبروں کے نام پر تیج تہوار، تلسی اور کبیر کے دوہا کا تجزیہ ہی پڑھنا ہے تو کوئی بھی اخبار لے سکتے ہیں۔  ایک اخبار زندگی بھر نہ پڑھیں۔  سڑا ہوا اخبار اپنے قارئین کو سڑا دیتا ہے۔  ڈرپوک مدیر قاری کو اور بھی ڈرپوک بنا دیتا ہے۔

(بہ شکریہ قصبہ)