فکر و نظر

کون اچھا، کون برا صحافی :یہ تمغہ بانٹنے کیوں نکلے ہیں سرکار

تقریباً تمام حکومتیں کہیں نہ کہیں آزاد میڈیا اور ایمانداری سے کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا ادارہ سے گھبراتی ہیں۔ ان کو اپنی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی تنقید ذرا بھی برداشت نہیں ہوتی۔

فوٹو: bjp.org

علامتی تصویر / فوٹو : بی جے پی ڈاٹ آرگ

فیک نیوز یعنی فرضی خبروں کو لکھنے والے صحافیوں کو سزا دینے  کا فرمان سنانے اور 12 گھنٹے کے اندر ہی اس کو واپس لینے کے باوجود حکومت اب بھی غلط دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ اب حکومت نے کہا ہے کہ ہم کچھ نہیں کریں‌گے، غلط یا فیک خبریں لکھنے والے صحافیوں پر کارروائی کرنے کا کام پریس کاؤنسل آف انڈیا کرے‌گی۔اس حکومت میں بیٹھے لوگوں کو شاید پتا نہیں کہ پریس کاؤنسل کے پاس پہلے سے ہی اس طرح کے حقوق موجود ہیں کہ وہ کس طرح، کس حد کے اندر غلط اور ہتک عزت کرنے والی خبروں کااپنی سمجھ کے مطابق نوٹس لےگی کارروائی کرےگی۔

سچائی یہ ہے کہ زیادہ تر پارٹیاں، جو جہاں، جس بھی دور میں حکومت چلا رہی ہوتی ہیں یا اقتدار میں رہتی ہیں وہ کہیں نہ کہیں آزاد میڈیا اور ایمانداری سے کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا ادارہ سے گھبراتی ہیں۔ ان کو اپنی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی تنقید ذراا بھی برداشت نہیں ہوتی۔ 1988میں جب راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے تو ان کے مشاورتی حلقہ کے اہم ممبر منی شنکر ایّر نے بڑی تعداد میں مخالفت میں اترے صحافیوں اور ان کی تنظیمات کو ایسا ہی جھوٹا ڈھارس بندھانے کی کوشش کی تھی کہ ہتک عزت بل 1988 پریس آزادی کو متاثر کرنے کے لئے نہیں بلکہ چھوٹے قصبات اور شہروں میںYellow journalism پر پابندی لگانے کے لئے لایا گیا ہے۔

غنیمت ہے کہ تب الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا آج کی طرح طاقتور نہیں تھا۔ واضح ہو کہ تب بوفورس توپ ڈیل میں دلالی اور کچھ اور مورچوں پر حکومت کی ناکامیوں پر پرنٹ میڈیا کی طرف سے بھاری تپش جھیل رہی راجیو گاندھی حکومت اصل میں پورے  ملک میں ہو رہی  مزاحمت کو لےکر فکرمند تھی۔ان حالات اور موجودہ حالت کا موازنہ کرتے ہوئے کئی لوگ مانتے ہیں کہ پارٹیاں بھلے ہی الگ الگ رہیں، لیکن ان کا مقصد ایک جیسا ہی ہے۔ہندوستان ٹائمس کے سابق مدیر اور ایڈیٹرس گلڈ کے  پرنسپل سکریٹری رہے ایچ کے دوا کہتے ہیں، ‘ اصل میں 1988 جیسا ماحول اس بار بھی ہے۔ تب راجیو گاندھی کے مشیر  مانتے تھے کہ بوفورس ڈیل سےجڑے اسکیم  کی فیک خبریں شائع کرکے  ان کی حکومت کے خلاف مہم چلانے والوں کی قلم کو بند کیا جائے۔ ‘

دوا مانتے ہیں کہ موجودہ حکومت چلا رہے لوگ بھی میڈیا سینسرشپ کی بلواسطہ شروعات کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت کی تعریفوں کے علاوہ کچھ بھی میڈیا میں نہ شائع ہو ، نہ کوئی دکھائے۔ بقول ان کے عدلیہ، پارلیامانی نظام، مجلس عاملہ اور میڈیا کنٹرول کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنے کی کوششوں کے تحت یہ سب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف صحافیوں کو سزا دینے  کے حال کے فرمان کو صحیح ٹھہرانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بکواس کر  رہے ہیں کہ ایسا تو پہلے کانگریس نے بھی کیا تھا۔ سینئر صحافی راجیو سردیسائی نے یہ عمدہ دلیل دینے والوں کو صحیح جواب دیا کہ ‘ اس دور میں بھی میڈیا کھل‌کر مخالفت میں اترا تھا۔ ‘بقول سردیسائی، ‘ ہتک عزت بل لانے کے لئے صحافی کمیونٹی تب راجیو گاندھی حکومت کے گلے میں مالا ڈالنے نہیں گئی تھی  بلکہ کھل‌کر ملک بھر میں سڑکوں پر مخالفت ہوئی تھی۔ ‘

مودی حکومت کے ذریعے فیک نیوز پر پابندی کے بہانے جو روڈمیپ بنایا گیا، اس کا مقصد جو بھی ہو، شروعات بہت ہی ڈراؤنی تھی۔ جیسا کہ گزشتہ  سوموار کو جاری فرمان میں کہا گیا کہ اگر کوئی صحافی ایسی فرضی خبر بناتا ہے تو اس صحافی کی شناخت معطل کر دی جائے‌گی۔ یہاں حکومت کی  منشاپر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ طے کون کرے‌گا کہ فلاں خبر فرضی ہے کہ نہیں۔سب سے بڑی حیرت تو یہ ہے کہ حکومت نے جن دو ادارے پریس کاؤنسل آف انڈیا اور نیوز براڈکاسٹر ایسو سی ایشن  کو کسی خبر کے فیک ہونے کی تفتیش کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ان دونوں ادارے کو ملک کے کسی قانون کے حساب سے کسی صحافی کی پہچان کی معطلی یا برخاست کرنے کا حق ہے۔ واضح ہو  کہ ان میں سی پہلا  ایک آئینی ادارہ ہے اور دوسرا ایک غیر سرکاری این جی او ہے جس کا کہ کوئی قانونی  وجود ہی نہیں ہے۔

سینئر صحافی جال کھنباتا کہتے ہیں، ‘ کسی خبر کو صحیح یا غلط قرار دینے یا خبر لکھنے والے کو سزا دینے کا کام عدالت کا ہے، پولیس کا نہیں۔ حکومت کی منشا بتاتی ہے کہ وہ میڈیا کو پولیس کا رعب و دبدبہ دکھاکر ان کو سزا دینے  یا ان کی سرکاری شناخت کو ختم کرنے کی دھمکی سیدھے طور پر ان کو منھ بند رکھنے کی ڈراؤنی نصیحت ہے۔ ‘ مزید  کہتے ہیں، ‘ کوئی غلط خبر اصلی حقائق سے کناراکشی کرکے لکھی گئی  ہے تو ایسی صورت میں متعلقہ فریق کے پاس مخالف فریق کو سزا دلوانے  کے لئے ہتک عزت کا واحد قانونی اور عدالتی اختیار موجود رہتا ہے۔ پریس کاؤنسل کو سزا دینے کا حق ہی نہیں۔ ‘

آزاد میڈیا کی آواز کو دبانے کے لئےوزارتِ  اطلاعات و نشریات صحافیوں کو پی آئی بی کی شناخت  دلانے کا حق رموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنے پاس رکھنا کیوں چاہتی ہے۔ کیا اس لئے کہ شکل دیکھ‌کر اچھا صحافی اور برا صحافی کا تمغہ بانٹنے کا حق اپنے قبضے میں رہے۔حال میں حکومت ہند کے ایکریڈیشن یافتہ  صحافیوں کی کمیٹی کی تشکیل میں پرانی روایت توڑ‌کر اپنی پسند کے صحافیوں کو نامزد کر کے وزارتِ اطلاعات و نشریات  پہلے ہی اپنی منشا ظاہر کر چکا ہے۔

(مصنف سینئر صحافی ہیں)