ادبستان

فلم ریویو : یقین ،حوصلےاور ضد کی کہانی ہے ہچکی…

فلم ہچکی موجودہ دور کے تعلیمی اداروں اور سماجی رویوں پر ایک پر زور طنز ہے‌۔ ساتھ ہی ساتھ سماج کے کمزور،معذور  اورمحروم طبقے کو تعلیم سے  دوررکھنے کی حکومت اور سماج کی شاطرانہ  چال سے پردہ اٹھاتی ہے۔

سدھارتھ ملہوترا کی ہدایت کاری اور رانی مکھرجی کی بہترین اداکاری کی تعریف ان دنوں خوب ہو رہی ہے۔دراصل فلم ہچکی  ان دنوں جہاں اپنے موضوع کی وجہ سے  چرچے میں ہے،وہیں بڑے دنوں بعد رانی کی واپسی کے طور پر بھی اس فلم کو دیکھا جارہا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اسی طرح کی ایک خاص فلم بلیک میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا تھا۔ ہچکی بھی اسی طرح کی ایک غیر معمولی فلم ہے جس میں درس وتدریس کو  موضوع بنایا گیا ہے۔نینا ماتھر کے نام سے رانی مکھرجی نے اس فلم میں ایک ٹیچر کا مرکزی کردار نبھایا ہے۔ نینا ماتھر اس فلم میں ایک ایسی بلند حوصلہ خاتون ہیں جو ٹوریٹ سنڈروم(Tourette syndrome) کی گرفت میں ہیں۔ ٹوریٹ سنڈروم دراصل ایک قسم  کا اعصابی عارضہ ہے جس میں رعشہ و اعضا کا تشنج واقعہ ہوتا ہے اور منہ سے بے ساختہ آوازیں نکلتی ہیں۔ اس سنڈروم کی دریافت فرانسیسی ماہر امراض اطفال عصبی جارج ٹوریٹ نے کیا تھا۔فلم  ہچکی بریڈ کوہن کی کتاب فرنٹ آف دی کلاس پر مبنی ہے مگر کہانی کو ہندوستانی تعلیمی نظام کے پس منظر میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

ہم یہی سمجھتے ہیں کہ  ایک اچھے ٹیچر کی خوبیوں میں اس کا لب و لہجہ صاف ستھرااور واضح ہونا بھی اہم ہے ۔چوں کہ نینا ماتھر اس فلم میں ٹوریٹ سنڈروم میں مبتلا ہے اس لیے ان کو ہچکی آتی ہیں اور الگ الگ طرح کی آوازیں نکلتی ہیں ۔اس وجہ سے  انٹرویو میں اس کی  حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں اور درس و تدریس کے بجائے دوسرے پیشے کا انتخاب کرنے کے لئے بن مانگے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

لیکن نینا ماتھر تدریس کے پیشے کو ہی اپنانے میں ہر طرح کے چیلنجز کو قبول کرنے کے لیے  تیار ہیں ۔اس وجہ سے ان کو ایک اچھے اسکول میں نوکری مل جاتی ہے۔ فلم کا یہ سب سے اہم حصہ ہے۔ شہر کےنامی گرامی اور نام نہاد  اسکول رائٹ ٹو ایجوکیشن   (آر ٹی ای ) ایکٹ کے تحت معاشی طور پر کمزور طلباء کو داخلہ دیکر سرکاری قانون کی تعمیل تو کر رہا ہے‌ مگر انگریزی میڈیم کا یہ اسکول اور صاف و شفاف کپڑوں میں ملبوس فراٹے دار انگریزی بولنے والے ٹیچرز ان طلباء کو سماجی سلیقہا ور مہارتوں کے اکتساب میں بچھڑ جانے کی وجہ سےبرانڈ کر دیتے ہیں انہیں جان بوجھ کر تدریس کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے بلکہ اسکول انتظامیہ  اورٹیچرز ان کے تعلیمی عمل میں بھی تعصب برتتے ہیں۔ نویں کلاس کے ایسے ہی  طلباء کا ایک الگ سیکشن بناکر انہیں نینا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

 یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  آر ٹی ای ایکٹ میں Inclusive Education کے تحت اگر نینا ماتھر کی تقرری کو دیکھا جائے تو اسکول نے نوکری دے کر ان پر مہربانی نہیں کی بلکہ خود کو قانون کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔فلم ہچکی موجودہ دور کے تعلیمی اداروں اور سماجی رویوں پر ایک پر زور طنز ہے‌۔ ساتھ ہی ساتھ سماج کے کمزور،معذور  اورمحروم طبقے کو تعلیم سے  دوررکھنے کی حکومت اور سماج کی شاطرانہ  چال سے پردہ اٹھاتی ہے۔ فلم کی کہانی میں فکشن کا رنگ بھرا گیا ہے مگر یہ حقیقت سے بہت نزدیک ہے۔

فلم میں نینا ماتھر کو ایسی چیلنجنگ کلاس پڑھانے کو دی گئی ہے جو طلباء سماجی سلیقہ و مہارتوں سے نا آشنا ہیں لہذا وہ اپنی نادانی میں اپنے محسن کو ہی پریشان کرتے ہیں۔ ان کے بولنے کے انداز کی نقلیں اتارتے ہیں۔ ان پر پھبتیاں کس کر مزاح کا پہلو نکالتے ہیں اور ان کا مذاق بناتے ہیں۔  نینا ان سب سے پریشان نہیں ہو تی ہے کیونکہ کہ بچپن سے وہ ٹوریٹ سنڈروم کی وجہ سے ایسے رویوں کی عادی ہو چکی ہے اور اپنی اس کمی پر بڑی دلیری اور سلیقہ مندی سے فتح حاصل کر چکی ہے۔وہ ان بچوں کو تعلیم دینے اور اپنے پیشے میں ایسے سخت حالات  کے لئے پوری طرح تیار نظر آتی ہے۔ایک طر سے  وہ سماج اور نظام کو غلط ثابت کرنے کی ضد پر  اپنی پوری ایمانداری سے قائم ہے کہ اگر مواقع اور وسائل میسر ہوں تو محنت اور لگن سے معذور اور محروم طبقہ بھی اپنی  صلاحیت کا  مظاہرہ کر سکتا ہے۔

نینا ماتھر پورے انہماک اور مستعدی سے سماج کے ان پچھڑے بچوں کو مین اسٹریم ایجوکیشن میں لانے کی کوشش کر تی ہے اور اپنی ہمت اور ضد سے اپنی کمیوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اپنے طالب علموں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ ان کے مستقبل کے لیے ان کی ٹیچر ان کے ساتھ ہے۔امید ہے یہ فلم اپنے موضوع کے اچھوتے پن کی وجہ سے ان طلبا کے تئیں ہمارے دیکھنے کے نظریے کو تبدیل کرگے گی جس میں ہم کسی عذر کی وجہ سے اس صلاحیت کو کم تر سمجھ لیتے ہیں۔