عام انتخابات اب نزدیک ہیں، ایسے میں بی جے پی کے اندر سے ہی اٹھ رہی دلت رکن پارلیامنٹ کی مخالفت کی آواز پارٹی قیادت کے لئے پریشانی کا سبب بن گئی ہے۔
لکھنؤ : دلتوں کی ناراضگی جھیل رہی بی جے پی کی مشکلیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں اتر پردیش کے چار دلت رکن پارلیامنٹ نے کھل کر پارٹی کی قیادت کی ریاست میں دلتوں کے مدعوں سے نپٹنے کےخلاف اپنی مخالفت درج کروائی ہے۔بہرائچ سے رکن پارلیامنٹ ساوتری بائی پھولے، رابرٹس گنج کے رکن پارلیامنٹ چھوٹےلال کھروار، اٹاوا کے اشوک کمار دوہرے اور نگینہ سے رکن پارلیامنٹ یشونت سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ پارٹی کی قیادت دلتوں سے جڑے مدعوں جیسے ایس سی ایس ٹی قانون کو کمزور بنانا، پارٹی کی ریزرویشن مخالف امیج، پولیس کے دلتوں کے خلاف بڑھتے مظالم سے صحیح سے نہیں نپٹ پا رہی ہے۔
ان میں سے ایک نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب انہوں نے اس مدعے پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے بات کرنی چاہی تب یوگی نے ان کی بے عزتی کی۔ملک بھرکے دلتوں کے نریندر مودی حکومت کے خلاف ایک ہونے کے بعد بی جے پی کے دلت رکن پارلیامنٹ کی شدیدمخالفت سامنے آئی ہے۔ دلتوں کی اس مخالفت کی جھلک 2 اپریل کو پورے ملک میں مختلف دلت جماعتوں کے ذریعے بلائے گئے بھارت بند کی صورت میں دکھی تھی۔ساوتری پھولے، جو کافی وقت سے بی جے پی سے ناراض چل رہی تھیں، نے 1 اپریل کو لکھنؤ میں آزادانہ طورپر ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ اس ریلی میں بھگوا کی جگہ نیلا رنگ استعمال کیا گیا تھا، ساتھ ہی بی ایس پی کے بانی کانشی رام کی تصویر بھی منچ پر رکھی تھی۔
اس انعقاد کے دوران پھولے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ میں ملک کی رکن پارلیامنٹ ہوں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ میں ایم پی رہتی ہوں یا نہیں لیکن میں آئین اور ریزرویشن میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کروںگی۔’ حالانکہ انہوں نے کوئی نام نہیں لیا لیکن اس ریلی میں بلائے گئے مقرر صاف طور پر مودی حکومت کے خلاف تھے۔
اس ریلی کوبھارتیہ سنویدھان اور آرکشن بچاؤ مہاریلی کا نام دیا گیا تھا۔ یہ انعقاد ‘ ناقابل شکست ‘نظر آتی بی جے پی میں پڑ رہی دراڑ کو واضح طور پر دکھاتا ہے۔ بی جے پی ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ اتر پردیش میں کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ پارٹی کا کوئی رکن پارلیامنٹ، وہ بھی دلت، 2019 کے عام انتخابات سے محض سال بھر پہلے اتنی ہمت کرےگا اور پارٹی کے خلاف ریلی بلائےگا۔اس ریلی کے ایک دن بعد بلایا گیا بھارت بند ریاست میں متشدد ہو گیا تھا کیونکہ حکومت کو اس کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے اس دوران ہوئے مظاہرے میں بڑے پیمانے پر تشدد اور کئی موتیں ہوئیں۔
ادھر بی جے پی پھولے کی ناراضگی سے نہیں نپٹ پائی تھی کہ رابرٹس گنج کے رکن پارلیامنٹ چھوٹےلال کھروار نے بھی حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ سے ملنے کی کوشش کی لیکن وزیراعلیٰ نے ان کو بے عزت کیا۔ انہوں نے کہا، ‘ وزیراعلیٰ سے دو بار ملا، مدد نہیں ملی ڈانٹکے بھگا دیا۔ ‘کھروار نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ جانبداری کا برتاوکیا گیا اور مقامی بی جے پی رہنماؤں کے ذریعے ان کے بھائی کو بلاک ہیڈ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر حملہ کیا گیا لیکن پولیس نے ان کی شکایت درج نہیں کی۔بی جے پی رکن پارلیامنٹ کے وزیراعلیٰ کے ذریعے ڈانٹکر بھگائے جانے کو حزب مخالف نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کو دلت وقار کا مدعا بتایا۔
کھروار نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھکر اپنی شکایتں ان کو بتائی ہے۔ انہوں نے اس خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی شکایتوں کی وجہ سے نیشنل کمیشن فار شڈیول کاسٹ سے بھی رابطہ کیا ہے۔غور طلب ہے کہ کھروار خود بی جے پی کی ایس سی ایس ٹی اکائی کے ریاستی صدر ہے۔ دی وائر نے جب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تب ان کے معاونوں نے کہا کہ وہ اپنے کسی بیمار دوست سے ملنے گئے ہوئے ہیں۔جب بی جے پی بابا صاحب امبیڈکر کے نام میں ‘ رام جی’ جوڑکر دلتوں کے متعلق اپنی محبت ظاہر کرنے میں مصروف ہے، ایک دوسرے دلت بی جے پی رکن پارلیامنٹ اشوک دوہرے نے اتر پردیش پولیس سے اپنی ناراضگی کااظہارکیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس ریاست میں دلتوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اٹاوا سے رکن پارلیامنٹ اشوک دوہرے نے الزام لگایا ہے کہ 2 اپریل کو ہوئے بھارت بند میں ہوے تشدد کے بعد ریاست میں پولیس دلتوں کے خلاف نامناسب زبان کا استعمال کر رہی ہے، ساتھ ہی ان کے خلاف جھوٹھے مقدمے درج کئے جا رہے ہیں۔
دوہرے نے بھی وزیر اعظم مودی کو خط لکھکر کہا ہے کہ دلتوں کے خلاف جھوٹھے معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے دوہرے نے کہا، ‘ کیونکہ پارلیامنٹ کا اجلاس چل رہا ہے اس لئے میں دہلی میں تھا۔ اتر پردیش سمیت یہ سب جگہ ہو رہا ہے۔ اس لئے میں نے وزیر اعظم سے ملکر اپنا خط ان کو دیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ریاست کے کئی انتظامی افسروں سے بات بھی کی ہے۔ ‘ دوہرے نے مودی کو اپنا رہنما بتاتے ہوئے ان کی تعریف بھی کی۔اسی طرح مغربی اتر پردیش کے نگینہ سے رکن پارلیامنٹ ڈاکٹر یشونت سنہانے بھی وزیر اعظم کو خط لکھکر کہا ہے کہ 2014 میں عام انتخابات سے پہلے مودی نے دلتوں میں امید جگائی تھی کہ ان کی حکومت غریبوں، محروم اور دلتوں کے لئے کام کرےگی لیکن چار سال بعد بھی حکومت نے 30 کروڑ دلتوں سے کیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ملک میں ریزرویشن دلتوں کے لئے زندگی دینے والی ہوا کی طرح ہے، جس کے بغیر دلت اور پسماندہ سماج کا ملک میں کوئی وجود نہیں رہ جائےگا۔ لیکن اب اس کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا اپنے لوگوں کو جواب دینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی گزارش کی ہے کہ مودی حکومت پرائیویٹ سیکٹر میں فوراً ریزرویشن نافذ کروانے کے ساتھ سرکاری نوکریوں میں ایس سی ایس ٹی کوٹے کے خالی عہدوں پر بھرتیاں پوری کرے۔ ساتھ ہی حکومت پرموشن میں ریزرویشن کے بارے میں سوچے اور سپریم کورٹ کے ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں کی گئی تبدیلی کے فیصلے کو واپس لینے کے معاملے میں مداخلت کرے۔
عام انتخابات میں محض ایک سال باقی ہے، ایس پی اور بی ایس پی ساتھ آ چکے ہیں، ایسے میں بی جے پی کے لئے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی راجیہ سبھا میں بی ایس پی رکن پارلیامنٹ کی مدد سے اتر پردیش سے ایک اضافی سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی ہے لیکن وہ دلت کمیونٹی میں بڑھ رہی ناراضگی سے نپٹنے میں ناکام ہے۔ راجیہ سبھا میں جو بی ایس پی امیدوار ہارا، وہ دلت تھا۔ بی ایس پی کو راجیہ سبھا سے باہر رکھنے کے لئے بی جے پی نے ہر طرح کی جوڑ توڑ کی۔بی جے پی اب ڈیمج کنٹرول موڈ میں ہے۔ (2 اپریل کے بعد سے اپنی زیادہ تر تقریروں میں مودی نے امبیڈکر کا نام لیا ہے)اتر پردیش جہاں پارٹی حال ہی میں ہوئے ضمنی انتخاب میں دو اہم سیٹیں کھو چکی ہے، پارٹی کے رکن پارلیامنٹ، خاص کر دلت رکن پارلیامنٹ کی ناراضگی اس کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
ان مدعوں سے حزب مخالف کو آدتیہ ناتھ حکومت پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ ایس پی ترجمان اور قانون ساز کونسل ممبر سنیل سنگھ ساجن نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ابھی کئی بی جے پی رکن پارلیامنٹ قطار میں ہیں۔ ابھی کئی اور سامنے آکر آواز اٹھائیںگے۔ بی جے پی کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ دلتوں کو لگ رہا ہے کہ ان کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ رکن پارلیامنٹ کو اب احساس ہو رہا ہے کہ اب ان کو رائےدہندگان اور سماج والوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ‘
(محمدفیصل آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر