حقوق انسانی

کشمیر : ایک سال بعد بھی فوج کے’ہیومن شیلڈ‘ کو انصاف کا انتظار

9 اپریل 2017 کو فوج کے ذریعے جیپ پر باندھ‌کر گھمائے گئے فاروق احمد ڈار سال بھر بعد بھی اپنی عام زندگی میں لوٹنے کے لئے جوجھ رہے ہیں۔

اپنے گھر کے باہر فاروق احمد ڈار (فوٹو : مجید مقبول(

اپنے گھر کے باہر فاروق احمد ڈار /فوٹو : ماجد مقبول

گزشتہ سال 9 اپریل کی صبح، سینٹرل کشمیر کے بڑگام ضلع کے 27 سالہ بنکر فاروق احمد ڈار نے اس دن ہو رہے ضمنی انتخاب میں اپنا ووٹ ڈالا۔ اس کے بعد وہ پڑوس کے گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں ہوئی ایک میت کے بعد لوٹ رہے تھے، جب ان کو روک‌کر ان کی بجاج پلسر بائیک سے اترنے کو کہا گیا۔ان کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کو بیچ راستے میں فوج کے ذریعے روک‌کر، فوج کی جیپ پر باندھ‌کر گھنٹوں تک آس پاس کے گاؤں میں گھمایا جائے‌گا۔پیٹے گئے، پھٹی فرن پہنے ڈار کے ہاتھ رسی سے باندھ‌کر فوج کی جیپ کے بونٹ پر باندھا گیا۔ یہ سب بیرواہ سب ڈسٹرکٹ میں ہندوستانی فوج کے بڑگام کیمپ کے 53، نیشنل رائفل کے میجر لیتُل گگوئی کی قیادت میں ہوا۔

ان کی بائیک کو پہاڑی راستے سے نیچے دھکیل دیا گیا۔ ڈار یاد کرتے ہیں کہ پھر فوج کے لوگوں نے ‘ کوئی انتباہ بھرا پیغام ‘ ایک سفید کاغذ پر لکھا جو ان کے سینے پر چپکاکر ان کو رسیوں سے باندھ دیا گیا۔اس کے بعد بونٹ پر ڈرے سہمے بندھے ڈار بونٹ کو پکڑ‌کر بیٹھے رہے اور تقریباً 6 گھنٹوں تک ان کو اس علاقے کے کئی گاؤں میں گھمایا گیا۔ جہاں وہ رکتے وہاں ان کی تصویر لی جاتی۔فوج کے ایسا کرنے کا مقصد ان ممکنہ مظاہرین کو ڈرانا تھا، جن کا پیٹرولنگ کر رہی فوجی دستہ سے تصادم ہو سکتا تھا۔ اس دن ضمنی انتخاب کی ووٹنگ میں کشمیر کی انتخابی تاریخ کی سب سے کم (7 فیصد) رائے دہندگی ہوئی۔

جیپ کے بونٹ پر بندھے ہوئے بڑگام کے گاؤں کی ابڑکھابڑ سڑکوں پر گھمائے جا رہے فاروق کے لئے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی درد برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ فاروق نے زندہ لوٹ آنے کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔ انہوں نے سوچا یہ ان کا آخری دن ہے۔ اس کے کچھ وقت بعد فاروق کی فوج کی گاڑی پر بندھے ہوئے، کسی گاؤں کے راستے سے گزرتا ہوا ایک ویڈیو آن لائن دکھا، جس کی کافی تنقید ہوئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے اس چھوٹے سے ویڈیو کلپ میں ایک وارننگ بھی سنی جا سکتی ہے۔ فوج کی گاڑی کے اندر سے آواز آ رہی ہے کہ ایسا حال ہوگا پتھر والوں کا، یہ حال ہوگا۔

اس واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد اپنے تین کمروں کی مٹی کے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے فاروق کو اب بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ بچ‌کر لوٹ آئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد یہ گھر 6 مہینوں سے زیادہ وقت تک بند رہا۔ ان کے لئے اس بات کا بھی یقین کرنا بھی مشکل ہے کہ اس واقعہ کو ایک سال ہو گیا ہے۔فاروق کہتے ہیں کہ ان کی عمر سال بھر ہو گئی ہے۔ دوشالہ بنانے والے رنگ برنگے دھاگوں سے بھری دیوار والے اس چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے فاروق کہتے ہیں، ‘ مجھے لگتا ہے کہ 9 اپریل کو میں دوبارہ پیدا ہوا۔ اس دن یہاں 8 عام شہری مارے گئے تھے۔ میں نواں ہو سکتا تھا یہ معجزہ ہی ہے کہ میں زندہ ہوں۔ ‘

اس واقعہ سے جسم کے ساتھ ذہنی طور پر بھی بری طرح متاثر ہوئے فاروق عام زندگی میں لوٹنے کے لئے جوجھ رہے ہیں۔ وہ اس واقعہ سے پہلے کی زندگی میں لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے انہوں نے آہستہ آہستہ دوشالہ بننے کا کام بھی شروع کیا ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘ میرے ساتھ جو کیا گیا اس کے بعد زندہ رہنا بہت مشکل ہے میں پہلے والے فاروق کو یاد کرتا ہوں اس واقعہ سے پہلے کی زندگی کو… ‘

9 اپریل کی اس صبح سے پہلے فاروق ایک عام زندگی جی رہے تھے۔ وہ گھر پر دوشالہ بن‌کر تقریبا 3000 روپے مہینہ کما لیتے تھے۔ حالانکہ یہ بہت کم ہے لیکن اپنی ماں کے ساتھ رہنے والے فاروق بتاتے ہیں کہ یہ ان دونوں کی چھوٹی سے فیملی کے لئے کافی تھا۔اس واقعہ کے بعد، اس کی صحت خراب ہوگئی، مہینوں تک وہ سکون  سے سو نہیں پاتے تھے۔ بائیں بازو کا درد کم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا اور گزشتہسال کئی مہینوں تک یہ بنا رہا۔ وہ ایک بار میں کچھ گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں کر سکتے ہیں۔

فاروق بتاتے ہیں کہ اب وہ بمشکل 1000 روپے مہینہ کما پا رہے ہیں کیونکہ وہ دیر تک کام نہیں کر پاتے۔ وہ دیر تک بیٹھ نہیں سکتے، ان کو بےچینی ہوتی ہے اور وہ کام پر دھیان نہیں لگا پاتے۔فیرن کی جیب سے دوائی نکال‌کر دکھاتے ہوئے فاروق بتاتے ہیں، ‘ مجھے اب بھی درد رہتا ہے میرا جسم سوج گیا ہے۔ میں دل کی بیماری کی بھی دوائی لے رہا ہوں۔ ‘اس واقعہ کے سال بھر ہو گئے ہیں، لیکن اب بھی جب فاروق فوج کی کوئی گاڑی گھر کے پاس سے نکلتے دیکھتے ہیں، تو 9 اپریل کا دن ان کی آنکھوں کے سامنے کوند جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو رات کو برے خواب آتے ہیں، کبھی کبھی آدھی رات وہ پسینہ سے تربتر چونک‌ کر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ‘ میں اس واقعہ سے پہلے جیسے سوتا تھا، اب ویسے نہیں سو پاتا۔ ‘

اس واقعہ کے بعد شرینگر کے سرکاری مینٹل ہسپتال میں فاروق کا چیک اپ ہوا تھا، جس میں سامنے آیا کہ وہ ‘ شدید ذہنی دباؤکے ساتھ کئی دماغی تکلیفوں سے جوجھ رہے ہیں۔دسمبر 2017 تک اپنی بیمار ماں کے ساتھ فاروق نے چند مہینے اس گھر سے دور پڑوس کے گاؤں میں رہنے والے اپنے بھائی اور بہن کے گھر پر گزارے ہیں۔ ان کو ڈر تھا کہ ان کے ساتھ پھر کچھ ہو جائے‌گا۔ان کو برا لگتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ ان کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی سفارش پر ریاستی حکومت کی طرف سے 10 لاکھ روپے کا معاوضہ ملا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘ مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں نے 10 لاکھ روپے لیا ہے۔ میں نے 10 روپے تک نہیں لیا ہے۔ ‘اس واقعہ کے 3 مہینے بعد فاروق کو مقامی پولیس اسٹیشن سے ان کی بائیک واپس ملی۔ 9 اپریل کی صبح فوج کی گاڑی پر باندھنے سے پہلے ان سے چھینا گیا سیمسنگ کا اسمارٹ فون آج تک فوج کے قبضے میں ہے۔

Farooq-Dar-Photo-By-Majeed2

فاروق نے بتایا کہ ایک ووٹر ہونے اور اس روز ووٹ کرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی افسر، وزیر یا مقامی ایم ایل اے اس واقعہ کا سرخیوں میں آنے کے بعد ان سے ملنے ان کے گھر نہیں آیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے رشتہ داروں اور کچھ گاؤں والوں کی ہمدردی جتانے کے علاوہ کوئی این جی او یا ادارہ ان کی مدد یا قانونی صلاح دینے کے لئے آگے نہیں آیا۔حالانکہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور ریاستی حکومت سے فاروق کو معاوضہ دینے کو کہا تھا، جس کو دینے سے حال ہی میں ریاستی حکومت نے انکار کیا ہے۔ ریاستی انسانی حقوق کمیشن اس پر ہائی کورٹ جانے کی سوچ رہا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کو بھیجے جواب میں ریاستی حکومت نے کہا، ‘ ریاست میں ایسی کوئی اسکیم یا پالیسی نہیں ہے جو ایسے کسی معاملے میں معاوضہ دینے کی بات کہتی ہو۔ ساتھ ہی، کمیشن فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ میں دخل نہیں دے سکتا۔ ‘فاروق کہتے ہیں کہ اگر ان کا وہ کچھ سیکنڈ کا ویڈیو آن لائن نہیں آیا ہوتا، تو کوئی مجھ پر یقین نہیں کرتا-کسی کو نہیں پتا چلتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا، ‘ شروعات میں تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ویڈیو کشمیر کا نہیں ہے۔ لیکن اس ویڈیو کے ذریعے ہی سچ سب کے سامنے آ گیا۔ ‘

فاروق کی ماں فیضی بیگم دل کی مریض ہیں۔ وہ افسوس کرتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ان کے بیٹے کی صحت گر رہی ہے جس سے وہ صحیح سے کام نہیں کر پا رہا ہے۔ حالانکہ وہ شکرگزار ہیں کہ وہ اس دن بچ گیا۔اب وہ اس کو زیادہ دیر کے لئے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ ان کو ہمیشہ اس کی فکر رہتی ہے، خاص کر جب وہ گھر سے باہر جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ‘ میرا دل کمزور ہے۔ میں اس کو درد میں نہیں دیکھ سکتی۔ اس کا پیٹ اور چہرہ سوج رہا ہے۔ ‘

ڈبڈبائی آنکھوں سے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولتی جاتی ہیں، ‘ پچھلا ایک سال ہمارے لئے دوزخ کے جیسا رہا ہے۔ انہوں نے میرے بیٹے کو زندہ لاش میں بدل دیا ہے۔ ‘واقعہ سے پہلے وہ اپنے تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے فاروق کی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھیں، لیکن اب وہ کہتی ہیں کہ اس واقعہ سے سب بدل گیا۔ ان کی شادی میں ہو رہی تاخیرسے مایوس فیضی کہتی ہیں، ‘ اب کچھ فیملی پوچھتے ہوئے آتے ہیں اور اس کی اور اس گھر کی حالت دیکھ‌کر واپس نہیں لوٹتے۔ اللہ جانے اس کی شادی کب ہوگی۔’

وہیں فاروق کو معاوضہ سے زیادہ انصاف کا انتظار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میجر گگوئی اور ان کے جن دوستوں نے فاروق کو جیپ پر باندھا، ان پر اس غیر انسانی عمل اور اس کے بعد جو درد ان کو اور ان کی ماں کو جھیلنا پڑا، اس کے لئے معاملہ درج کیا جانا چاہئے۔

Farooq-Dar-Photo-By-Majeed3

اپنی ماں کے ساتھ فاروق احمد ڈار/ فوٹو : ماجد مقبول

شکایتی لہجے میں وہ کہتے ہیں، ‘ بجائے ان پر معاملہ درج کرنے کے، آپ نے دیکھا کہ میڈیا میں کس طرح میجر گگوئی کے ہیرو جیسی امیج بنائی گئی۔ اس سے بڑا مذاق نہیں ہو سکتا۔ ‘

فاروق کہتے ہیں کہ یہ واقعہ تاعمر ان کو برے خواب کی طرح ستاتارہے‌گا۔ ان کے کمرے کی دیوار پر ایک تصویر لگی ہے۔ یہ ایک پرنٹ آوٹ ہے، جو ان کو جیپ پر باندھ‌کر گھمائے جانے کے اگلے دن کے کسی مقامی اخبار کی ہے۔ اس کو دکھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘ میں ہر روز اس دن کی ہیبت سے گزرتا ہوں۔ ‘اس تصویر میں وہ  فوج کی جیپ پر بندھے ہوئے ہیں اور تصویر کے نیچے بڑے حروف میں لکھا ہے، ‘ ہیومن شیلڈ ‘یہ تصویر ہاتھ میں لئے فاروق بہت دیر تک سوچتے رہتے ہیں، پھر آہستہ سے کہتے ہیں، ‘ اگر اب بھی انصاف نہیں ملا تو کچھ بھی باقی نہیں رہے‌گا۔ ‘

(ماجد مقبول صحافی ہیں اور شرینگر میں رہتے ہیں۔)