خبریں

پشتون تحفظ موومنٹ کا میڈیا بلیک آؤٹ ، کیا کسی کا اشارہ تھا؟

پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں کے میڈیا بائیکاٹ سے ایک بار پھر آزادیء اظہارِ رائے کے حوالے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔کئی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ غیر اعلانیہ بلیک آؤٹ ملک کے طاقتور ترین اداروں کے اشاروں پر کیا جا رہا ہے۔

PashtumTahaffuzMovement_DW

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) ایک نئی مزاحمتی تحریک ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ اس تحریک کا مرکز ملک کا شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ ہے۔ تاہم بلوچستان اور سندھ کے پختون علاقوں میں بھی اس تحریک کو بہت پذیرائی مل رہی ہے۔

پختون قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ اس بلیک آؤٹ کی وجہ سے ان کے نوجوانوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے، جو کسی بھی وقت خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔ معروف پختون دانشور ڈاکڑ سید عالم محسود نے اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ پہلا موقع نہیں کہ کہ پی ٹی ایم کے جلسے کو پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا نے کوریج نہیں کی۔ اس سے پہلے اس تحریک نے قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ اور اسلام آباد میں بڑے بڑے پروگرام کیے لیکن ذرائع ابلاغ نے اس کو بھی جگہ نہیں دی۔ کل اتوار کو پشاور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا لیکن اس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اسلام آباد میں نقیب اللہ محسود کے لیے پختونوں کے دھرنے کو صرف اس وقت کوریج ملی جب عمران خان نے وہاں لگے کیمپ کا دورہ کیا۔ ہمارے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ جب عمران، قادری اور خادم رضوی جلسہ کرتے ہیں تو میڈیا کا کیا رویہ ہوتا ہے اور جب پشتون مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ یقیناًیہ سب کچھ ریاست کے طاقتور اداروں کے اشارے پر ہورہا ہے۔‘‘

کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کئی خطرات سے دوچار ہے۔ لہذا اسٹیبلشمنٹ ایسے موقع پر کسی ایسی تحریک کو برداشت نہیں کر سکتی جو ملک کے طاقتور اداروں پر بے رحمانہ تنقید کر رہی ہو۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں کیونکہ پی ٹی ایم ایسے معاملات کو اٹھا رہی ہے، جو ریاستی اداروں سے متعلق ہیں، اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ ایسے لوگوں کو میڈیا پر کوریج دی جائے،’’یہ تحریک گمشدہ افرادکی بازیابی، ماورائے عدالت قتل کی روک تھام، ان کی انکوائری اورفاٹامیں چیک پوسٹوں کے خاتمے سمیت کئی ایسے مسائل اٹھا رہی ہے، جو ریاستی اداروں کو پسند نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں جس طرح فضل اللہ نے اپنے ریڈیو کے ذریعے نفرت پھیلائی تھی بالکل اسی طرح اس تحریک کے لوگ بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کر کے ملک کے طاقت ور ترین ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ پنڈی کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ حالانکہ ٹی ٹی پی اور اس تحریک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ آئین کے اندر رہے کر حقوق چاہتے ہیں لیکن طالبان تو آئین کو ہی نہیں مانتے تھے۔ تو میرے خیال میں اس بلیک آؤٹ کی جگہ انہیں سنا جائے اور ان کےجائز مطالبات تسلیم کیے جائیں۔‘‘

معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں پاکستان میں ذرائع ابلاغ طاقتور اداروں کے دباؤ میں اس لیے آجاتے ہیں کیونکہ کئی مالکان کا تعلق کارپوریٹ سیکٹر سے ہے، ’’ملک میں ایک دو اداروں کے علاوہ تقریبا تمام چینلز مالکان کارپوریٹ سیکڑ سے وابستہ ہیں۔ ایسے افراد کی پھر اپنی کاروباری کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کا فائدہ ریاستی ادارے اٹھاتے ہیں اور پھر انہیں ڈکٹیٹ کراتے ہیں۔ جن اداروں کا تعلق کارپوریٹ سیکڑ سے نہیں ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ڈکٹیشن نہ لیے جائیں۔‘‘
اس بلیک آؤٹ کے خلاف صحافتی برادری سے بھی آوازیں آرہی ہیں گو کہ یہ آوازیں بہت زیادہ طاقت ور نہیں ہیں۔ پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے میڈیا کی طرف سے پی ٹی ایم کے جلسے کو نظر انداز کرنے کے عمل کو غیر منصفانہ قرار دیا جب کہ کچھ سینیئرصحافیوں نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔سوشل میڈیا پر بھی کئی افراد نے یہ ہی کہا کہ اس بلیک آؤٹ کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔

تاہم ریاستی اداروں کے قریب رہنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ ایک بے بنیا د الزام ہے۔ معروف تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس طرح کے الزامات صرف آرمی کو بدنام کرنے کے لیے لگائے جارہے ہیں۔ انہوں نے قربانیاں دے کر ملک میں امن قائم کیا۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔طالبان کو ختم کیا۔ اب یہ کہتے ہیں کہ چیک پوسٹیں ختم کر دی جائیں تا کہ طالبان دوبارہ آجائیں اور ملک ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہوجائے۔ اس سے صرف بھارت اور افغانستان کو خوشی ہوگی اور اس تحریک کے حوالے سے بھی یہ رپورٹ ہے کہ اس کی ویب سائٹ بھارت کے ایک شہر سے آپریٹ کی جارہی ہے جب کہ افغان حکومت نے بھی اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے۔ تو ایسی صورت میں ان کے خلاف تو کریک ڈاؤن ہونا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیوکو بھی غیر اعلانیہ پابندیوں کاسامنا رہا۔ ملک کے کچھ حصوں میں اب بھی عوام کی جیو نیوز کی نشریات تک رسائی نہیں ہے۔