فکر و نظر

ہر درد کی دوا—بھارت ماتا کی جے

 انڈین نیشنل ازم:اگر آپ کو ڈر نہیں لگتا تو اس کا مطلب آپ ہوش میں نہیں ہیں…میں چاہتا ہوں کہ آپ ڈریں۔ جس دن ڈر سما جائے گا، آپ کے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔ اور تب آپ بول اٹھیں گے۔ ہم سب بول اٹھیں گے۔

فوٹو:پی ٹی آئی

فوٹو:پی ٹی آئی

آئندہ جنرل الیکشن نیشنل ازم کے نام پر ہوگا۔ میں کوئی پیشن گو ئی نہیں کر رہا۔ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔ نیشنل ازم ایک ایسا آلہ ہے جسے ہم سب اپنی اپنی سہولت کے حساب سے استعمال کرتے ہیں۔ ہر پارٹی کا اپنا نیشنل ازم  ہے۔ ہر گروہ کا  اپنا راگ ہے۔ ہر شخص کا اپنا الاپ ہے۔ یہاں تک کہ سبزی خوروں کا الگ اور گوشت خوروں کا الگ۔  تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ٹی وی اسٹو ڈیوز میں ہر  چوتھے دن نیشنل ازم پر بحث ہوتی ہے۔اینکرز ہمیں نیشنل ازم کا سبق چیخ چیخ کر پڑھا تے ہیں۔بحث اتنی گرم ہو جاتی ہے کہ ہمارا خون تیزی سےکھولنے لگتا ہے۔ ہم سب کے رونگٹے کھڑے ہوجا تے ہیں۔ مگرسر پھوڑ لیجئے کہ اتنی گرم بحث کے بعد بھی آج تک ہمیں کچھ بھی پلے نہیں پڑا۔

ہم آج تک یہ سمجھ پانے سے قاصر ہیں کہ آخر کون سا نیشنل ازم صحیح ہے۔ بی جے پی والا یاکانگریس والا۔ یا پھر کوئی اور۔  گزشتہ چند سالوں میں نیشنل ازم پر سب سے زیادہ اور سب سے گرم بحث تب ہوئی تھی جب  2016 میں جےاین یو کا واقعہ پیش آیا تھا۔ بحث اتنی گرم تھی کہ اس کی تپش سے پورا ہندوستان جھلسنے لگا تھا۔ پورا جے این یواینٹی نیشنل ہو گیا تھا۔ اور پورا دیش نیشنلسٹ۔ ہر شام ہم سب دل تھام کے بیٹھ جاتے۔ ٹی وی کے اینکرز جیسے جیسے دہاڑتے ویسے ویسے ہماری امیدیں بڑھتی جاتیں، کہ اب شاید گتھی سلجھ جائے گی۔ اب شاید سمجھ آجائے گا کہ کون نیشنلسٹ ہے اور کون اینٹی نیشنل۔ اب شاید کچھ پلےپڑ جائے گا  ‘واٹ ازانڈین نیشنل ازم’ ۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

مگر حاصل کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ نیشنل ازم کے نام پر ہمیں ہاتھ لگا بلڈ پریشر ۔ ہمیں نیشنل ازم سمجھ آئی اور نہ ہی جے این یو۔آپ نوٹ کر لیجئے آئندہ جنرل الیکشن کے شبھ اوسر پر ایک بار پھر نیشنل ازم  پر گرانڈ بحث کا انعقاد ہو گا۔ شاموں کو رنگین اور خوشگوار بنا یا جائیگا۔ ٹی وی اسکرینز پر ایک بار پھر ترنگا لہرائے گا۔ جیسے جیسے نیشنل ازم کا رس آپ کے کانوں میں گھلے گا، آپ کے رونگٹے کھڑے ہونے لگیں گے۔ آپ کب اٹھ کھڑے ہونگے اور کب بھارت ماتا کی جے پول پڑیں گے آپ کواحساس تک نہیں ہوگا۔مگر ایک بار پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔ لہذا آپ پہلے ہی سر پھوڑ کر بیٹھ جائیے۔ ٹی وی آپ بند کر نہیں سکتے۔نیشنل ازم اپنے آپ میں کوئی نعمت نہیں ہے۔ ٹیگور کے لفظوں میں نیشنل ازم ایک آفت ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“Nationalism is a great menace. It is the particular thing which for years has been at the bottom of India’s troubles”

مغربی نیشنل ازم (مغربی نیشنل ازم لوگوں کو ایک قوم/مذہب/زبان/کلچر کے نام پر متحد کرتی ہے) کی تنقید کرتے ہوے ٹیگور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ یورپ کے نیشنل ازم کے نتیجے میں دنیا کے دوسرے حصے مظلوم بنا ئے گئے۔ان کا ماننا تھا کہ نو آبادیات اور استعما ریت نیشنل ازم کی ہی پیداوار تھی۔ہندوستان کے سیاق میں ٹیگور نے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ مغربی نیشنل ازم کا تصور بھارت کے لئے با لکل بھی فٹ نہیں ہے۔ بھارت کبھی بھی ایک قوم نہیں رہا ہے۔ ایک قوم کے نام پر لوگوں کو متحد کرنا محض ایک چھلاوا ہے۔ ایسا کرنا بھارت کی رنگا رنگی کو مجروح کرنے کے برابر ہے۔خیر، الیکشن ایئر کا آ غاز ہوچکا ہے۔ٹی وی کے اینکرز نے اپنا منہ لال پیلا کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر شام دیش کے نام ہونے والی ہے۔ ایک بار پھر نیشنل ازم کا سبق دہرا یا جائے گا۔ اس بار تو اس لئے بھی کے بی جے پی کے پاس مدعے کے نام پر پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ لہذا ہر درد کی دوا—بھارت ماتا کی جے۔

بہر حال اس سے پہلے کے ان کے شوروغل سے ہمیں مائیگرین ہو جائے، آئیے ہم تھوڑی کوشش کریں اور نیشنل ازم کی گانٹھیں کھولنے کا جوکھم اٹھا ئیں۔آپ ٹیگور کی بات سے گھبرا ئیں نہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ نیشنل ازم اپنے آپ میں ایک برا آئیڈیا ہے، مگر ہمارا نیشنل ازم یعنی انڈین نیشنل ازم بیحد خوبصورت اور دلکش ہے۔ ٹیگور نے در اصل مغربی نیشنل ازم کو برا بھلا کہا ہے۔  انہوں نے ہندوستانیوں کو آگاہ کیا تھا کہ اس قبیح شکل نیشنل ازم کو ہندوستان میں پھٹکنے بھی مت دینا۔ ایسا انہوں نے اس لئے کہا تھا کیوں کہ انکے جیتے جی چند لوگوں نے یوروپین نیشنل ازم کی طرز پر انڈین نیشنل ازم کی بنیاد ڈالنے کی مہم چھیڑ رکھی تھی۔

ٹیگور نے بھارت میں پنپ رہے جس  ‘ودیسی نیشنل ازم’ کی طرف اشارہ کیا تھا آج اسے ہم ہندوتوا نیشنل ازم کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی ہندوتوا نیشنل ازم  یوروپین نیشنل ازم کا انڈین ورزن ہے۔ یہ ایک یوروپین آئیڈیا ہے، جسے ہندوستانیوں پر تھوپنے کی کوششیں زوروں پر ہے۔ایک قوم، ایک کلچر، ایک نسل، ایک مذہب اس آئیڈیا کا ٹریڈ مارک ہے۔ یو گیندر یادو لکھتے ہیں:”اس کا تعلق یوروپ کی اس نا اہلی سے ہے جس میں وہ اپنی رنگا رنگی سے نمٹنے میں نا کام رہا۔ اس کا تعلق یوروپ کی اس ناکام کوشش سے ہے جس کے ذریعہ اس نے یونیفارمیٹی لانے کی کوشش کی۔ جرمنی میں بسمارک اور اٹلی میں مازینی کی جد وجہد میں جو مقصد مضمر ہےو ہی ہندوتوا نیشنل ازم کا بھی منزل مقصود ہے اور یہی ان کا آئیڈیل ہے۔”

ہندوتوا نیشنل ازم کا اعتقاد اس بات پر ہے کہ بھارت زمانہ قدیم سے ہندوؤں کی آماجگاہ رہا ہے۔  ہندو تہذیب و تمد ن ہی در اصل ہندوستانی تہذیب و تمد ن ہے۔ ہندوؤں کے علاوہ مسلم، عیسائی، یہودی اور پارسی یہ سب ہندوستان کے اصل باشندے نہیں ہیں۔  یہ لوگ ‘باہری’ ہیں، لہذا  ان تمام کمیونیٹیز کوہندوؤں کے برابر نہیں گردانا جا سکتا۔ ہندوان کے مقابلے اعلیٰ ہیں۔ مسلم، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔

علامتی فوٹو:پی ٹی آئی

علامتی فوٹو:پی ٹی آئی

جہاں تک ہندو کلچر اور تہذیب کا سوال ہے، یہ بات صد فیصد لا یعنی ہے۔ جب ہندوازم خود متعدد کلچرز اور تہذیبوں کا سنگم ہے، تو “ہندو کلچر” یا “ہندوستانی کلچر” جیسی چیز کا وجود ہی کیونکر ہو سکتا ہے۔ ہندوازم شاید اس کرہ ارض پر اکیلا مذہب ہے جو گونا گوں عقائد کا مجمو عہ ہے۔ ہندوازم کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جہاں معبود کی عباد ت کے سینکڑوں طریقے ہیں، اور سب قابل قبول ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں ہندوازم اپنی رواداری، تکثیریت اور ہم آہنگی کے لئے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوازم اپنی ان ہی خصوصیات کی وجہ کر پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔مگر ہندوازم کے لئے یہ بد بختی کی بات ہے کہ اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ ہندوتوا نیشنل ازم نے اسے نگل لیا ہے۔ یا کم از کم  دبوچ تو لیا ہی ہے۔

ہندوازم کی ایک خوبصورت بات جو مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے وہ یہ کہ پوری دنیا میں شاید یہ اکیلا مذہب ہے جو یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ (ہندوازم)  اکیلا سچ پر مبنی  ہے اور باقی سب (دوسرے مذاہب) جھوٹ پر ۔ ہندوازم تمام مذاہب اور عقائد کا برابر احترام کرتا ہے ۔ ہندوازم کی اس خوبی پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ شاید ہندوازم کی اسی خوبی کی وجہ کرہندوستان میں درجنوں مذاہب برسوں سے پھل پھول رہے ہیں۔ دراصل ہندوازم کی یہی مضبوطی بھی ہے۔رواداری یہیں سے آتی ہے۔سب کچھ ہونے کے با وجود بھی”ایک سچ” والے ایمان میں دوسرے عقائد کے احترام کا گہرا فقدان ہو تا ہے۔ یہ بات تھوڑی کڑوی ہے، مگر آپ جانتے ہیں میں سچ بول رہا ہوں۔

خیر میں بات کر رہا تھا ہندوتوا کی۔ ہندوتوا نیشنل ازم کی۔ یہ ایسا نیشنل ازم ہے جو انڈین نیشنل ازم   اور ہندوستانی آئین  کے  لئےخطرہ کی گھنٹی ہے۔ اور میں اسی لئے کہتا ہوں کہ ہمیں اپنے ہوش ٹھکانے لگا نے پڑیں گے، ورنہ ٹی وی کے اینکرز ہمیں روبوٹ بنا ڈالیں گے۔ ہندوستا نی آئین اور انڈین نیشنل ازم کے بغیر ہم ہندوستان کا تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ ایک خطرہ ہے جو برسوں سے منڈلا رہا ہے۔ مگر اب صورت بھیانک ہو چکی ہے۔ خطرات دروازے پر دستک دینے لگے ہیں۔

یہ بات ہمیں گانٹھ باندھ لینی چاہئے کہ ہندوتوا نیشنل ازم ہمارے لئے اور ہمارے ملک کے لئے سیدھا خطرہ ہے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوے بھی ہم تمام بھارت واسی ‘ہندوستانی نیشنل ازم’ کی رسی میں بندھے ہوے ہیں۔ یہی وہ میجک ہے جس نے اتنے وشال دیش کو ایک دھاگے میں پرو یا ہوا ہے۔ ہندوستانی نیشنل ازم سچ میں ایک جادو ہی ہے۔ سینکڑوں زبانیں، درجنوں بولیاں، انگنت ثقافت، بھانت بھانت کے کلچرز، گونا گوں تہذیب اور مختلف مذاہب—یہ سب ایک ساتھ نہ صرف رہ رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو سیلیبریٹ بھی کرتے ہیں۔

انڈین نیشنل ازم کی خوبصورتی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ اسکی اساس کسی ایک مذہب، زبان اور کلچر پرنہیں بلکہ چند اقدار پر ٹکی ہے۔ وہ اقدار ہیں—جمہوریت، مذہبی اور لسانی تکثیریت، جنسی مساوات، غربت اور تعصب کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ۔ رام چندر گہا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب جمہوریہ ہند کا قیام عمل میں آ رہا تھا، تب اس کے شہری کو کسی ایک مذہب، زبان اور مشترکہ دشمن کے نام پر متحد ہونے کے لئے نہیں کہا گیاتھا۔ بلکہ انہیں چند اقدار(مندرجہ بالا) کے نام پر ایک کیا گیا۔ یہی بات انڈین نیشنل ازم کونہ صرف بے پناہ خوبصورت بنا تی ہے بلکہ نیشنل ازم کی دوسری تمام شکلوں سے مختلف اور بہتر بھی بنا تی ہے۔

لہذا ہمارا نیشنل ازم مندرجہ بالا اقدار کی پاسداری پر مبنی ہے۔ ہماری دیش بھکتی ان تمام اقدار کی ترویج اور پیروی پر منحصر ہے۔ اگر ہم ان میں سے کسی بھی ایک پر اپنا ایمان کھو بیٹھتے ہیں، تو ہم اینٹی نیشنل قرار دیے جانے کے قابل ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے اینٹی نیشنل کون ہے؟

اگر یہ کہوں کہ انڈین نیشنل ازم در اصل ایک مشن ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ اس مشن کی بنیاد ہماری جدو جہد آزادی کے دوران پڑی۔ یہ مشن اسی دوران پر وان چڑھا۔یوگیندر یادو لکھتے ہیں کہ انڈین نیشنل ازم کی سب سے خاص بات یہ ہےکہ اسکی اپج دراصل “انڈین ٹریڈیشن آف یونیورسل ازم” سے ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارا نیشنل ازم تب پھلا پھولا جب برطانوی حکومت کے خلاف ہماری جد وجہد آزادی پروان پر تھی۔ مگر قابل غور بات یہ ہےکہ ہمارنیشنل ازم گوروں سے نفرت کا باعث ہر گز نہیں بنا۔ اس میں غیر ملکیوں کے لئے نفرت کی کہیں کوئی جگہ نہیں تھی۔

اس الیکشن ایئر بی جے پی  ہندوتوا نیشنل ازم کواستحکام بخشنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قدم ا ٹھا سکتی ہے۔ کوئی بھی جوکھم مول لے سکتی ہے۔ آپ اور ہم سب  کو داو پر لگا سکتی ہے۔ہاں میں آپ کو ڈرا رہا ہوں۔ بات ڈرنے کی ہی ہے۔ ہندوستان کا آئین جب خطرے میں ہو تو ہم سب کو ڈرنا ہی چاہئے۔ جب کچھ لوگ انڈین نیشنل ازم کی روح کو مجروح کرنے پر آمادہ ہوں تو ہم سب کا ڈرجانا لازمی ہے۔اگر آپ کو ڈر نہیں لگتا تو اس کا مطلب آپ ہوش میں نہیں ہیں…میں چاہتا ہوں کہ آپ ڈریں۔ جس دن ڈر سما جائے گا، آپ کے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔ اور تب آپ بول اٹھیں گے۔ ہم سب بول اٹھیں گے۔لہذا کسی بھی ناگہانی کا انتظار کیے بغیر انڈین نیشنل ازم کا علم بلند سے بلند تر کرنا ناگزیر ہے۔ اس الیکشن ایئر اسے مزید استحکام بخشنا ہوگا، تبھی ہندوتوا نیشنل ازم اوندھے منہ گرے گا۔