فکر و نظر

یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاست اورناتھ فرقے کا گمشدہ ’مسلم‘ متن

آج بھلےہی یوگی آدتیہ ناتھ سیاسی فائدے کے لئے فرقوں کا پولرائزیشن کرتے ہوں، لیکن حال ہی میں سامنے آئے دو مخطوطات بتاتے ہیں کہ 20ویں صدی سے پہلے، ناتھ فرقے کے ممبر اقتدار پانے کے لئے مذہبی میل جول کا سہارا لیا کرتے تھے۔

ویلکم کلیکشن، لندن میں محفوظ ایک نایاب ناتھ مخطوطہ (فوٹو:سی سی بی وائی4)

ویلکم کلیکشن، لندن میں محفوظ ایک نایاب ناتھ مخطوطہ (فوٹو:سی سی بی وائی4)

گزشتہ چند ماہ سےاترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کے لئے کافی مشکل رہے ہیں۔ گورکھ پور کے گورکھ ناتھ مندر کا یہ مہنت تریپورہ سے کرناٹک تک ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک گھوم گھوم کر اپنی روحانی امیج کے نام پر بی جے پی کے لئے ووٹ مانگ رہا ہے۔سیاسی معاملوں میں ناتھ یوگیوں کا شامل ہونا غیرمعمولی نہیں ہے، مگر آدتیہ ناتھ جس طرح سے ہندتووادی لفظوں کا استعمال ووٹ پانے کے لئے کر رہے ہیں وہ ان کے فرقے کی روایتی خاصیت کے برعکس ہے۔حال ہی میں سامنے آئے اور اب تک غیر مطبوعہ ناتھ اصولوں-اولی سلوک اور کافر بودھ سے گزرنے پر پتا چلتا ہے کہ بھلےہی آدتیہ ناتھ سیاسی فائدے کے لئے فرقوں کا پولرائزیشن کرتے ہوں، لیکن 20ویں صدی سے پہلے، ناتھ فرقے کے ممبر اقتدار پانے کے لئے مذہبی میل جول کا سہارا لیا کرتے تھے۔

1942 میں اپنی موت سے تھوڑے ہی دن پہلےپتامبر دت بڑتھوال نے ایک ایسا مجموعہ تیار کیا، جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔ انہوں نے ناتھ یوگیوں کی ہندوی میں دئے گئے نصیحتوں کا ایک مستقل اور مستند تحریری سبق تیار کیا۔گورکھبانی عنوان سے شائع ناتھ فرقے پر کیا گیا یہ تاریخی کام بہت سارے مخطوطات کے مجموعےکی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا۔ گورکھ ناتھ اور دوسرے یوگیوں کے نام سے مروجہ نصیحتوں کو شامل کرنے والی اس کتاب کی اہمیت غیر معمولی ہے۔

بدقسمتی سے بڑتھوال اپنی کتاب کے شائع ہونے سے پہلے ہی چل بسے، مگر گورکھبانی کا یہ ایڈیشن پچھلے 80 سالوں سے ناتھ فرقے کے نظریے کی جدید تفہیم کے لئے بےحد ضروری مانا جاتا ہے۔

لیکن، تصور کیجئے کہ ہمیں یہ پتا چلے کہ اس کمیونٹی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے ضروری اصول کن وجہوں سے بڑتھوال کے ذریعے مجوزہ کتاب سے باہر کر دئے گئے تھے؟ یہ سوال بےحد اہم ہے، کیونکہ ریسرچ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ بات کچھ ایسی ہی ہے۔

بڑتھوال کے ذریعے تفصیلی تحقیق کے بعد مرتب گورکھبانی کی تھوڑی گہرائی سے جانچ کرنے پر ایک سنگین خامی سے سامنا ہوتا ہے۔ اس کتاب کو قریب سے دیکھنےپر پتا چلتا ہے کہ اس کی اشاعت سے پہلے کسی وقت ناتھ فرقے کے نظریات کی اس کتاب سے دو اہم نظریات کو مٹا دیا گیا تھا۔ پہیلی جیسے ناموں والے اولی سلوک (عظیم نغمہ) اور  کافر بودھ (لادینیت /عقیدہ نہ رکھنے والوں کا علم) کا ذکر بڑتھوال کےکردار میں تو ہے، مگر ان کے ذریعے بےحد محنت کے ساتھ تیار کئے گئے مجموعہ سے یہ غائب ہیں۔

آج یہ جاننا تقریباً ناممکن ہے کہ کیا ان حصوں کو غیرمتفق مدیروں کے ذریعے دانستہ طور پر ہٹا دیا گیا تھا یا بڑتھوال کی اچانک موت ہو جانے کی وجہ سے غلطی سے یہ شامل نہیں ہو پائے تھے۔ جو بھی ہو، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے غائب ہونے سے ناتھ یوگیوں کو لےکر جدید عالمی نظریےکو کافی حد تک متاثر کیا۔

اولی سلوک اور کافربودھسب سے پہلے ناتھ یوگیوں سے جوڑے جانے والے ایک دم ابتدائی ہندوی تحریروں میں (سنہ1614 عیسوی کا ایک مخطوطہ موجودہ وقت میں جئے پور کےشری سنجے شرما پستکالیہ اور شودھ سنستھان میں رکھا ہوا ہے) جگہ پاتے ہیں۔ 19ویں صدی تک یہ  مخطوطے کی کئیروایتوں میں دکھائی دیتے ہیں۔

یہ دلچسپ نظریہ اکثر ایک دوسرے کے ساتھ  میں رکھے جاتے ہیں، کچھ اس طرح سے کہ مانو وہ ایک ساتھ مل‌کر کام کرنے کے لئے ہی تیار کئے گئے ہیں۔ اور بھلےہی اسلوب کی سطح پر وہ بہت حد تک الگ ہیں، لیکن ان نظریات کے تصوراتی سامعین مسلم ہیں۔

یہ دو نظریات دکھاتے ہیں کہ ناتھ یوگی نہ صرف اسلامی عقیدے کو تسلیم کرنے اور ضروری مسلم روایتوں کو جاری رکھنے کی نصیحت دیتے تھے، بلکہ ان میں مسلم کمیونٹی کے سامنے بھی اپنی رائے پیش کرنے کی خواہش تھی۔انہی دو نظریات کی وجہ سے بڑتھوال یہ لکھنے کے لئے راغب ہوئے کہ کہ اولی سلوک اور کافربودھ یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان، دونوں ہی ایشور کے خادم ہیں۔ ان سے اس خیال کو طاقت ملتی ہے کہ یوگی لوگ ان دونوں کے درمیان کوئی جانبداری نہیں برتتے تھے اور ان میں سے کسی کی بھی طرفداری نہیں کرتے تھے۔ ‘

حالانکہ، یہ بات اپنے آپ میں متضاد لگ سکتی ہے کہ فرقے کی خواہش اپنی پہچان ان دونوں کمیونٹیز کے قابل قبول توسیع کے طور پر قائم کرنے اور خود کو تمام دیگر دنیاوی مذہبی روایتوں سے اعلیٰ طور پر پیش کرنے کی تھی۔

ناتھ کے لئے باہم مخالف کرداروں اور شناخت کی الگ الگ کشتیوں کی سواری کوئی مسئلہ نہیں تھی، بلکہ ایک ذہنیت تھی، جس کو پورا کرنا چاہئے۔ اولی سلوک اور کافر بودھسمیت دیگر ناتھ تعلیم نے اپنے سامعین سےثنویت سے پرے جاکر سوچنے اور لازمی طورپر ناپسندیدگی میں خوشی پانے کی گزارش کی۔

جدید عہد کی ابتدا میں روحانی برتری کے لئے مقابلہ عام بات تھی۔ یہ خصوصاً پیروکاروں کو متوجہ کرنے اور تحفظ پانے کے لئے کیا جاتا تھا۔ تب اس فلسفہ کی کافی عملی قدر و قیمت بھی تھی۔ہندو یا مسلم میں سے کسی حکمراں سے دوری بنانے کی جگہ ناتھ یوگیوں نے دونوں مذہبی روایتوں کو ساتھ لےکر چلنے کی کوشش کی۔ ان کو یہ امید تھی کہ ان کو ان دونوں کمیونٹیز کے ممبر کے طور پر دیکھا جائے‌گا۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔

ان کو اکثر مغل سلطانوں اور ہندو راجاؤں، دونوں کی طرف سے آسرا ملا اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ کن ہی خاص ناتھ گروؤں یا الگ الگ مندر احاطوں کے پیروکار بھی بن گئے۔مخطوطات میں اولی سلوک کو ابتدائی مسلم ناتھ تحریر کے طور پر مقام دئے جانے سے عقیدت مند وںکو ناتھ فرقے کے اندر ایک ایسے مقدس مقام میں داخل ہونے کی دعوت ملی، جس میں اسلامی عقیدہ نہ صرف ہندو عقیدہ کے ساتھ موجود رہنے کے جذبے کے ساتھ رہ سکتا تھا، بلکہ ان کو اپنی اسلامی صفات کو بنائے رکھنے کی بھی اجازت تھی۔

ویلکم کلیکشن، لندن میں رکھا ایک نایاب ناتھ مخطوطہ

ویلکم کلیکشن، لندن میں رکھا ایک نایاب ناتھ مخطوطہ

یہ بات متن کے اسلوب سے خودبخود واضح ہے۔ جہاں ناتھ کمیونٹی کے نظریات اکثر زبان کی سطح پر  سدھوکڑی کہہ‌کر پکاری جانے والی معمولی ہندوی میں لکھے گئے ہیں، وہیں زیادہ تر اولی سلوک کافی فارسی آمیز اور اسلامی فرہنگ میں لکھا گیا ہے۔

یہ اپنے قاریوں کا دھیان، واضح طور پر پڑھنے والوںکی سمجھ میں آنے والی فرہنگ میں اس جانب دلاتا ہے کہ ناتھ کمیونٹی نے کس طرح سے اسلامی عقیدوں، روایتوں اور ا س کے پیروکاروں کو گلے لگایا۔حالانکہ، اولی سلوک کا زیادہ تر حصہ ہندو ڈھانچے میں منظم ہیں اور اس کے لئے مقدس لفظ ‘ اوم ‘ کا استعمال کیا گیا ہے اور روحانی ثنویت سے پار نکل جانے پر (اور اس دوہرےپن سے پار پانے کے لئے مخلوط آسنوں پر) زور دیا گیا ہے، مگر اس کا بیشتر حصہ ایسے عہدوں کو منسوب کرتا ہے، جو مخصوص طور پر اسلامی ہیں۔

اولیسلوک کی ابتدائی سطروں سے ہی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مسلم اصولوں کی تعریف بھی کرتا ہے اور اسلام اور ناتھ پنتھ کے درمیان آپسی سمجھداری کا راستہ بھی بناتا ہے :

Himati

[بہادر / ہمتی وہ لوگ ہیں، جو کتاب کے مطابق چلتے ہیں، جو کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ ڈرپوک ہیں۔ گھمنڈی آدمی دشمن ہے اور شائستہ آدمی دوست ہے۔

غصہ حرام ہے، سچ حلال ہے۔

خواہش رکھنے والا آدمی شیطان ہے، مطمئن آدمی پاکیزہ دل والا ہے ۔

جس آدمی میں غرور ہے، وہ کافر ہے، جو شائستہ ہے وہی مقدس مسلم مرد ہے۔]

اس سے بھی بڑھ‌کر اولی سلوک جس طرح سے مسلم عقیدہ اور رواج کو شامل کرتا ہے، وہ شاید زیادہ دلچسپ ہے۔ مندرجہ صیل اقتباس میں نہ صرف یہ دکھانے کی کوشش نظر آتی ہے کہ اسلامی طور طریقوں کو ناتھ پنتھ کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے، بلکہ یہ ان رسم و رواج اور مقدس جگہوں کی اہمیت کو بھی قبول کرتا ہے۔

JanMasiti

[زندگی مسجد ہے۔ زندگی کے بغیر کوئی عبادت گاہ نہیں ہے۔ دل محراب ہے۔ اس کے بغیر کس سمت میں عبادت کی جائے، اس کے بارے میں پتا نہیں چلتا۔ صوفی وضوہے، اس کے بنا تم خود کو عبادت کرنے کے لئے تیار نہیں کر سکتے ہو۔ کلمہ قبولیت ہے۔ صرف ایک خدا اور محمد کو اس کا پیغمبر مانے بنا، کوئی قبولیت نہیں ہے۔ اچھائی، اچھی قسمت ہے۔ ایمانداری مصلیٰ ہے، ایمانداری کے بغیر کوئی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں االلہ کی عبادت کی جا سکے۔ رحم دلی نماز ہے۔ اس کے بنا کوئی عبادت نہیں ہے۔ خاکساری سنت ہے، اس کے بغیر کوئی اسلامی رسم و روج نہیں ہے۔ اچھی سیرت تمہارا روزہ  ہے۔ اچھی سیرت کے بغیر کوئی روزہ یااپنے اوپر کوئی اختیار نہیں ہے۔]

دوسرا سبق،  کافر بودھبھی مسلم سامعین کو خطاب ہے اور مذہبی ثنویت کے پار جانے سے متعلق ہے۔ حالانکہ اس کا طریقہ الگ ہے۔ اولیسلوک کے الگ، جو کم وبیش ایک عمدہ فکراسلامی آواز بنائے رکھتا ہے، کافر بودھزیادہ مدافعتی طریقے سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں گورکھ ناتھ پوچھتے ہیں،

‘ کونس کافر / کون مردار / دوئی سوال کا کرؤ بکار / ہمیں نکافر / امہے فقیر۔ ‘

[کون کافر ہے اور کون مردہ ہے (جس نے دنیا کی مایاکو پیچھے چھوڑ دیا ہے)؟ ان دو سوالوں پر غورکیجئے۔ ہم کافر نہیں ہیں۔ ہم فقیر ہیں۔]

پھر بھی اس سخت شروعات کے بعد، اصولوں کی آواز نرم  پڑنےلگتی ہے اور یہ ناتھوں کی ان خوبیوں کی بنیاد پر وضاحت کرتا ہے، جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ ان کو فقیر کہلانے کے لائق بناتے ہیں۔

جئے پور کے شری سنجے شرما کےکتب خانہ اور تحقیقی ادارے میں رکھے  مخطوطہ کی ایک کاپی

جئے پور کے شری سنجے شرما کےکتب خانہ اور تحقیقی ادارے میں رکھے  مخطوطہ کی ایک کاپی

حالانکہ، دونوں سبق روحانی طریقے سے مذہبی بٹوارےکے تجاوزاتقائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن  کافربودھ یہ کام مسلموں کے مختلف کمیونٹیز کے اندر ناتھ یوگیوں کو لےکر پہلے سے موجود نظریات کو چیلنج دےکر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بغیر کسی ہچک‌کے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں سے روحانی طور پر عظیم ہونے کی بات کرتا ہے۔

[ہم یوگی، دوسرے لوگوں کی تعریف کے عہدوں کی پروانہیں کرتے ہیں۔ لامتناہی مجسمے ہیں اور لامحدود حفاظتیں ہیں۔ اس لئے ہم اسی سے خوش ہیں، جو پانے کے لائق اور سمجھ میں آنے لائق ہیں۔ نہ تو دیووں کا وجود ہے، نہ مندروں، نہ مسجدوں، نہ میناروں کا وجود ہے۔ یہ سب بس ایک ہی پتھر ہیں۔]

جیسےجیسے تعلیمات آگے بڑھتی ہیں، ان کا زور اس بات پر بڑھتا جاتا ہے کہ نہ ہندو اور نہ مسلم ناتھ نظریہ کو پوری طرح سے سمجھ سکتے ہیں، جس کی بنیاد میں داخلی انتشار کی مکملقبولیت اور ثنویت کوہٹانے  کی صلاحیت ہے۔

ابتدائی جدید ناتھ کمیونٹی دونوں مذہبوں کا استقبال کرنے والا رہا ہوگا، لیکن آخرکار دونوں روحانی طور پر اس اصل علم سے دور ہی رہے، جو علم صرف ناتھ تعلیمات سے ہی پایا جا سکتا ہے۔

آج جبکہ اس فرقے کے سب سے مشہور چہرے آدتیہ ناتھ اپنے اثر کا استعمال ناتھ یوگیوں کے متنوع تاریخ کو دبانے کے لئے کر رہے ہیں، سیاسی کروٹ کے طور پر ناتھ فرقے کی ہندوکاری پوری طرح سے 20ویں صدی کی تخلیق ہے۔حالانکہ، ناتھ یوگی صدیوں سے سیاست میں شامل رہے تھے، لیکن صرف مہنت دگوجئے ناتھ (1934-69) کی قیادت میں ہی گورکھ ناتھ مندر احاطہ اپنے بشمول سیاسی وجود سے تشدد آمیز طریقے سے دور جانے لگا۔

حالانکہ نوآبادیات، جدیدیت اور نئے ابھر رہے ہندوتکثیریت سبھی نے مختلف ناتھ فرقوں کے ذریعے اپنی پہچان کو وضع کرنے اور اپنے سیاسی اثر کو بنائے رکھنے کی کوششوں کے طریقے کو گہرائی سے متاثر کیا، مگر گورکھ پور میں دگوجئے ناتھ‌کی قیادت نے ہی آدتیہ ناتھ کے فرقہ وارانہ ایجنڈےکی بنیاد تیار کرنے کا کام کیا۔

ہندو توا کے نظریے کے تئیں دگوجئے ناتھ کی وابستگی ناتھ فرقے کی روحانی پہچان کے تئیں ان کے جوش کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی۔ جارج ویسٹن برگس کے 1920 کی دہائی میں گورکھ ناتھ مندر کے بیان کے مطابق یوگی کی بیعت لینے سے پہلے ہی دگوجئے ناتھ ایک مقدمہ لڑ رہے تھے، جس کا مقصد ناتھ مندر احاطے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینا تھا۔

انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ گدی پانے میں کامیاب رہتے ہیں، تو وہ فرقے کے ممبر بن جائیں ے اور اپنا کان چھیدن (ناتھ یوگیوں کی روایتی بیعت) کروا لیں‌گے۔ اس مقدمے میں ان کی جیت ہوئی، انہوں نے اپنے کان چھدوائے اور وہ مندر کے مہنت بن گئے۔

لیکن، دگوجئے ناتھ کی مہنتی کی شروعات جس طرح سے ہوئی، اس سے یہ صاف ہے کہ وہ اپنے اثر کا استعمال الگ اور کم روحانی طریقے سے کرنا چاہتے تھے۔ آدتیہ ناتھ ان ہی  کی تقلید کر رہے ہیں۔

حالانکہ، پورے جنوبی ایشیا میں ابتدائی ناتھ متون کی مکملاہمیت اور وسعت کو سمجھنے کے لئے کافی مطالعہ کئے جانے کی ضرورت ہے، لیکن، ان نظریات کا پھر سے سامنے آنا اس بات کا پختہ ثبوت ہے ابتدئی جدید ناتھ فرقے نے کس طرح سے مسلم اور ہندو کمیونٹیز کے اندر اپنے لئے جگہ کا تصور کیا۔

ادبی روایت کے اندر ان کے مقام کو پھر سے قائم کرنا ناتھ روایت کو پوری طرح سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بی جے پی کے ممبر اور بالخصوص آدتیہ ناتھ ہندوستانی تاریخ میں چھیڑچھاڑ کئے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ صلاح دینا شاید غلط نہیں ہوگا کہ گورکھ ناتھ مندر احاطے کا مہنت ہونے کے ناطے یوگی پہلے اپنے کمیونٹی کی تخلیقات اور تاریخ کی تفتیش کریں۔

(مضمون نگار کولمبیا یونیورسٹی،نیویارک میں ریسرچر ہیں۔)