فکر و نظر

آج ہی کےدن1947میں پیش ہوا تھا ہندو کوڈ بل،شدت پسندوں نےکی تھی مخالفت

ہندو کوڈ بل :آج جیسے تین طلاق میں تبدیلی کے مطالبے کو شدت پسند اسلام میں دخل اندازی بتاتے ہیں، کچھ ویسا ہی آزادی کے بعد ہندو رسم و رواج میں تبدیلی کئے جانے پر شِدّت پسندوں نے اس کو ہندو مذہب پر حملہ بتایا تھا۔

فوٹو: وکی میڈیا کامنس

فوٹو: وکی میڈیا کامنس

آپ کو یہ جان‌کر حیرانی ہوگی  کہ جب ہندوستان آزاد ہوا تب ہندو سماج میں مرد اور عورتوں کو طلاق کا حق نہیں تھا۔ مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی آزادی تھی لیکن بیوائیں دوبارہ شادی نہیں کر سکتی تھیں۔ بیواؤں کو جائیداد سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔آزادی کے بعد ہندوستان کا آئین تیار کرنے میں مصروف دستور ساز اسمبلی کے سامنے 11 اپریل 1947 کو ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر نے ہندو کوڈ بل پیش کیا تھا۔ اس بل میں بنا وصیت کئے مرجانے والے ہندو مرداور عورت کی جائیداد کی تقسیم سے متعلق قانون کی تدوین کئے جانے کی تجویز تھی۔

یہ بل مرنے والے  کی بیوہ، بیٹی اور بیٹے کو اس کی جائیداد میں برابر کا حق دیتا تھا۔ اس کے علاوہ، بیٹیوں کو ان کے باپ کی جائیداد میں اپنے بھائیوں سے آدھا حصہ ملتا تھا۔اس بل میں شادی سے  متعلق اہتماموں میں تبدیلی کی گئی تھی۔ یہ دو قسم کی شادیوں کو سند دیتا تھا، روایتی اور سول۔ اس میں ہندو مردوں کے ذریعے ایک سے زیادہ خواتین سے شادی کرنے پر پابندی اور الگ ہونے سے متعلق اہتمام بھی تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو خواتین کو طلاق کا حق دیا جا رہا تھا۔

شادی سے علیحدگی کے لئے سات نکات کا اہتمام تھا۔ عدم تعلقی، تبدیلی مذہب، رکھیل رکھنا یا رکھیل بننا، لاعِلاج دماغی بیماری، لاعِلاج اور متعدی کوڑھ بیماری، جنسی بیماری  اور ظلم و زیادتی کی بنیاد پر کوئی بھی آدمی طلاق لے سکتا تھا۔یہ بل ایسے تمام رسم و رواج کو ہندو مذہب سے دور کر رہا تھا جن کو روایت کے نام پر کچھ شدت پسند زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ اس کی زوردار مخالفت ہوئی۔ امبیڈکر کی تمام دلیل اور نہرو کی حمایت بھی بے اثر ثابت ہوئی۔ اس بل کو 9 اپریل 1948 میں  سیلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔

بعد میں 1951 کو امبیڈکر نے ہندو کوڈ بل کو پارلیامنٹ میں پیش کیا۔ اس کو لےکر پارلیامنٹ کے اندر اور باہر بغاوت ہوگئی۔ سناتن دھرم سے لےکر آریہ سماج تک امبیڈکر کے مخالف ہو گئے۔اس وقت ہندوستان کا آئین بھی بن‌کر تیار تھا۔ لیکن پارلیامنٹ کے ممبروں کو عوام نے نہیں چنا تھا۔ ان ممبروں کو اکثریتی ہندو سماج میں تبدیلی اور پرانی روایتوں کو بدلنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ پارلیامنٹ میں تین دن تک بحث چلی۔

ہندو کوڈ بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ  پارلیامنٹ کے ممبر عوام کے چنے ہوئے نہیں ہیں اس لئے اتنے بڑے بل کو پاس کرنے کا ان کواخلاقی طور پر حق نہیں ہے۔ ایک اور مخالفت اس بات پر تھی کہ صرف ہندوؤں کے لئے قانون کیوں لایا جا رہا ہے، کثیر شادی کی روایت تو دوسرے مذاہب میں بھی ہے۔ اس قانون کو سب پر پر نافذ کیا جانا چاہئے۔ یعنی یونیفارم سول کوڈ۔پارلیامنٹ  میں جہاں جن سنگھ سمیت کانگریس کا ہندو وادی طبقہ اس کی مخالفت کر رہا تھا تو وہیں پارلیامنٹ کے باہر ہری ہرانند سرسوتی عرف کرپاتری مہاراج کی قیادت میں بڑا مظاہرہ چل رہا تھا۔

فوٹو: وکی میڈیا کامنس

فوٹو: وکی میڈیا کامنس

اکھل بھارتیہ رام راجیہ پریشد کے بانی کرپاتری کا کہنا تھا کہ یہ بل ہندو مذہب میں مداخلت ہے۔ یہ بل ہندو رسم و رواج، روایتوں اور مقدس کتابوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے اس بل پر وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو مذاکرہ کرنے کا کھلا چیلنج دیا۔کرپاتری مہاراج کے ساتھ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، ہندو مہاسبھا اور دوسرے ہندووادی تنظیم ہندو کوڈ بل کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس لئے جب اس بل کو پارلیامنٹ میں بحث کے لئے لایا گیا تب ہندووادی تنظیموں نے اس کے خلاف ملک گیر سطح پر مظاہرہ شروع کر دیا۔ آر ایس ایس نے اکیلے دہلی میں درجنوں  ریلیاں  کیں۔

حالانکہ وزیر اعظم نہرو اس بل کو منظور کروانا چاہ رہے تھے، لیکن تمام مخالفت اور پہلے عام انتخابات نزدیک ہونے کے سبب وہ اس کو ٹال گئے۔ غور طلب ہے کہ فروری 1949 کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں نہرو نے کہا تھا، ‘ اس قانون کو ہم اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ہماری حکومت بنا اس کو پاس کرائے اقتدار میں رہ ہی نہیں سکتی۔ ‘

وہیں امبیڈکر ہندو کوڈ بل منظور کروانے کو لےکر کافی فکرمند تھے۔ وہ کہتے تھے، ‘ مجھے ہندوستانی آئین کی تعمیر سے زیادہ دلچسپی اور خوشی ہندو کوڈ بل پاس کرانے میں ہے۔ ‘ لیکن یہ بل اس وقت منظور نہیں ہو سکا۔ امبیڈکر نے ہندو کوڈ بل سمیت دیگر مدعوں کو لےکر وزیر قانون کے عہدے سے استعفی دے دیا۔ملک کےپہلے لوک سبھا انتخاب کے بعد نہرو نے ہندو کوڈ بل کو کئی حصوں میں توڑ دیا۔ جس کے بعد 1955 میں ہندو شادی ایکٹ بنایا گیا۔ جس کے تحت طلاق کو قانونی درجہ، الگ الگ ذاتوں کی خاتون اور مرد کو ایک دوسرے سے شادی کا حق اور ایک بار میں ایک سے زیادہ شادی کو غیر قانونی قراردیا گیا۔

اس کے علاوہ 1956 میں ہی ہندو وراثت قانون ،گود لینے سےمتعلق قانون اور ہندونابالغ اور تحفظ قانون نافذ ہوئے۔ یہ تمام قانون خواتین کو سماج میں برابری کا درجہ دینے کے لئے لائے گئے تھے۔ اس کے تحت پہلی بار خواتین کو جائیداد میں حق دیا گیا۔ لڑکیوں کو گود لینے پر زور دیا گیا۔