خبریں

انگریزی نہیں آتی تو کیا وکیل نہیں بن سکتے؟

الہ آباد یونیورسٹی کے طالب علم آیوش تیواری نے دہلی  ہائی کورٹ میں پی آئی ایل کرکے دہلی یونیورسٹی کے بی اے ایل ایل بی  انٹرنس اگزام  کو انگریزی کے علاوہ ہندی میں بھی کرائے جانے کی مانگ کی ہے۔

فیکلٹی آف  لاء/فوٹو : فیس بک

فیکلٹی آف  لاء/فوٹو : فیس بک

نئی دہلی: قانون کی پڑھائی کے لئے  انٹرنس اگزام  کو ہندی میں بھی کرنے کی مانگ کو لےکر دہلی ہائی کورٹ میں پی آئی ایل قبول‌کر لی گئی ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کے 20 سالہ طالب علم  آیوش  تیواری نے منگل کو عرضی دائر کر کے  انٹرنس اگزام  کو ہندی میں کرائے جانے کی مانگ کی تھی، جس کو عدالت نے قبول‌کر لیا اور متعلقہ محکمہ جات سے جواب طلب کیا ہے۔بی اے فائنل کے طالب علم  آیوش بتاتے ہیں؛

‘ میری بھی خواہش ہے کہ میں دہلی یونیورسٹی میں  قانون کی پڑھائی کروں لیکن  انٹرنس اگزام  تو انگریزی میں ہوتا ہے۔ میری پرائمری سے لےکر بی اے کی تعلیم ہندی زبان میں ہوئی ہے اس لئے میں ہندی میں  انٹرنس اگزام  دینا چاہتا ہوں۔ لیکن اصول کے مطابق  انٹرنس اگزام  انگریزی میں ہی ہوتا ہے، تو مطلب کہ جس کو ایک زبان کا علم نہیں وہ کیا وکیل نہیں بن سکتا؟ ‘

 آیوش نے آگے کہا، ‘ میں قانون کی پڑھائی کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک انگریزی  زبان آڑے آ رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں انگریزی کے خلاف ہوں۔ میں بس چاہتا ہوں لوگ اپنی مقامی  زبان میں بھی  انٹرنس اگزام  دے سکیں اور قانون کی پڑھائی کر سکیں۔ کیونکہ  داخلہ کے بعد جو سیمسٹر کےامتحان ہوتے ہیں، وہ سب ہندی میں بھی ہوتےہیں۔ تو جب سیمسٹراگزام ہندی میں ہو سکتا ہے، تو  انٹرنس اگزام  کیوں نہیں؟ ‘آیوش کہتے ہیں کہ جب دہلی  یونیورسٹی کے دوسرے  بی اے اور ایم اے  کا انٹرنس اگزام  ہندی میں ہو سکتا ہے تو قانون کی پڑھائی کیوں نہیں؟ وہ ہمیں اس لئے نہیں روک سکتے یا بچپن میں ہی بتا دیتے کہ ہندی یا مقامی  زبان پڑھوگے تو آگے چل‌کر فلاں ڈگری یا کورس نہیں کر پاؤ‌گے۔ یہ ہم جیسے طالب علموں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

 آیوش نے بتایا کہ دہلی ہائی کورٹ میں جج گیتا متّل نے کہا کہ یہ بہت اچھا اور اہم معاملہ وہ لےکر آئے ہیں اور عدالت اس معاملے میں تمام متعلقہ محکمہ جات کو نوٹس جاری کر کے ان سے مسئلے پر جواب مانگیں گے۔آیوش نے عدالت سے امید جتاتے ہوئے کہا، ‘ اگر عدالت ہمارے حق میں فیصلہ سناتی ہے تو یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ  لاکھوں شمالی ہندوستان کے طالب علموں کے لئے اچھی بات ہوگی کہ صرف انگریزی نہ آنے کی وجہ سے  وہ دہلی یونیورسٹی جیسے بڑے ادارے میں نہیں پڑھ پاتے۔ ہم قانون کی پڑھائی کر لیں تو آگے  زبان بھی سیکھیں‌گے لیکن اس طرح شروع میں ہی روک دیا جائے‌گا، تو کتنے طالب علموں کے خواب ٹوٹ جائیں‌گے۔ ‘

وہ مزید  کہتے ہیں؛

‘ کیا  زبان کا علم انسان کو عالم بناتا ہے؟ کیا انگریزی نہ آنے سے کسی کے معیار میں کمی آتی ہے؟ کیا ہندی یا دوسری مقامی  زبان پڑھنے والے لوگ علم حاصل نہیں کر سکتے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ہماری حکومتوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہندوستان میں تنوع ہے اور ایک  زبان کو پیمانہ بنانے سے بہت سے طالب علموں کا خواب ہی ٹوٹ جائے‌گا۔ آرٹیکل 14مساوات کی بات کرتا ہے، تو کیا انگریزی کو اس طرح تھوپنا تعلیم کے میدان میں آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ مجھے امید ہے عدالت سے انصاف ملے‌گا۔ ‘

 آیوش کے وکیل کملیش کمار مشرا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘آیوش پڑھنا چاہتا ہے اور صرف  زبان کی وجہ سے اس کو روکا نہیں جانا چاہئے۔ اس نے اپنی پوری پڑھائی ہندی  زبان میں کی ہے اور اب صرف انگریزی کی وجہ سے  اس کے وکیل بننے کے خواب کو نہیں توڑا جا سکتا۔ ‘وہ مزید کہتے ہیں، ‘آیوش کا معاملہ ملک کے عام آدمی کا معاملہ ہے۔ آج ہم نے ایک ادھار کی  زبان کو سر آنکھوں پر بٹھاکر رکھا ہوا ہے۔ جب تک ہم اپنی مادری زبان اور مقامی  زبان کو ترجیح نہیں دیں‌گے، تب تک ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ انگریزی  زبان کو کسی بھی ڈگری یا نصاب کے لئے لازمی کرنا تعلیم کے اصل حق کے خلاف ہے۔ کوئی طالب علم صرف اس لئے محروم نہیں رہ سکتا کہ اس کو ایک  زبان نہیں آتی ہے۔ جس  زبان میں اس کی پرائمری تعلیم ہوئی ہے، اسی  زبان میں ہر ڈگری اورکورس کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ ‘

حا لانکہانڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2014 میں شیلیندر منی ترپاٹھی نے دہلی یونیورسٹی میں ایل ایل بی کا امتحان ہندی میں بھی دینے کے لئے ایک پی آئی ایل کی تھی، جس کو گیتا متّل کی بنچ نے ہی خارج کر دیا تھا۔عدالت نے اس وقت دلیل دی تھی کہ دہلی میں عدالت کی تمام کارروائی اور آرڈر انگریزی میں ہوتا ہے، اس لئے اس درخواست کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ درخواست گزار نے اس وقت کہا تھا کہ سیمسٹر کا امتحان ہندی میں ہوتا ہے، تو  انٹرنس اگزام  کیوں نہیں؟درخواست گزار کی دلیل پر دہلی یونیورسٹی کے وکیل نے کہا تھا کہ اسی بات کی وجہ سےانٹرنس اگزام میں آبجکٹیوسوال ہوتے ہیں، تاکہ ہندی زبان کے طالب علم بھی امتحان دے سکیں۔