ادبستان

یوم پیدائش پر خاص:  نہرو کے بعد ملک کے دوسرے مقبول رہنما پی سی جوشی کون تھے

پی سی جوشی کی فعال قیادت ہی تھی کہ پارٹی اپنی سیاسی سمجھ کو  عوام کے درمیان لے جانے میں کامیاب رہی۔ انہوں نےفاشسٹ قدموں کی آہٹ اس وقت سن لی تھی جب ان کے ہی کمیونسٹ دوستوں کے علاوہ دوسرےمکتبہ فکر کے لوگ اس خطرہ کو بہت ہلکے میں لے رہے تھے۔

PCJoshiBookCover

سوویت یونین کو بکھرے ہوئے تقریباً تین دہائی ہونے کو ہیں۔ دنیا میں متبادل  نظام کے طور پر کمیونزم نے اپنا پاور اور بھروسہ قریب قریب کھو دیا ہے۔ہندوستان سمیت پوری دنیا میں ایک طرح سے کمیونسٹ سیاست کا مرثیہ پڑھا جا رہا ہے۔ یورپ، امریکہ کے علاوہ ہندوستان جیسے ممالک میں بھی نواستعماری اور فسطائی  رجحان والی حکومتیں قابض ہو چکی ہیں۔  رواداری، بھائی چارہ اور مساوات جیسے بنیادی جمہوری‎ اقدار پر زبردست نظریاتی حملے ہو رہے ہیں۔

ایسے وقت میں پورن چند جوشی (پی سی جوشی) جیسے تقریباً بھلا دئے گئے کمیونسٹ رہنما کے بہانے کچھ ضروری سوالوں پر بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔یہ ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوتی ہے کہ ہندوستان کی ایک اہم پارلیامانی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کے اندر فاشسٹ رجحان والی مودی حکومت کو لے کر ایک بڑے مورچے کی تیاری  کے نام پراختلافات گہرے ہوتےجا رہے ہیں۔

سی پی ایم کے اندر مودی حکومت کے خلاف بڑے مورچے پر کانگریس کے ساتھ جانے کو لےکر واضح طور پر دو سیاسی لائن بنی ہوئی ہے۔پی سی جوشی زندگی بھر کانگریس کو ساتھ لےکر ایک استعماری  اور فرقہ پرستی مخالف مورچے کی وکالت کرتے رہے۔ اس وقت بھی ان کی کمیونسٹوں کے درمیان  زبردست مخالفت ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہ مخالفت پوری تلخ  کے ساتھ کمیونسٹوں کے ایک بڑے طبقے میں موجود ہے۔

پی سی جوشی کے صد سالہ جشن پیدائش2007 میں سی پی ایم کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پرکاش کرات نے پارٹی کے ترجمان  پیپلس ڈیموکریسی میں ان کی خدمات پر ایک مضمون لکھا تھا۔

اس مضمون میں پرکاش کرات نے لکھا  کہ پی سی جوشی کانگریس اور کمیونسٹ یکجہتی کے حامی تھے۔ ان کی قیادت میں 1954 میں اتر پردیش کی ریاستی کمیٹی نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس گورنمنٹ(این ڈی اے) کا نعرہ دیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کہ استعماریت، جاگیردارانہ نظام کے حمایتی  اور قومی بور ژوا طبقوں میں واضح فرق کرکے دیکھا جانا چاہئے۔ پارٹی کے اندر یہ  لمبے وقت سے چلی آ رہی بحث تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1964 میں پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی۔ سی پی ایم پی سی جوشی اور سی پی آئی میں ان کے جیسی سوچ رکھنے والوں کی لائن کے بالکل خلاف ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی کو بنانے میں پی سی جوشی کے کردار سے انکار کرنا ایک غیرتاریخی اور غیرمارکس وادی رویہ ہوگا۔  کمیونسٹ پارٹی بنانے والے اہم رہنماؤں میں ان کا شمار ہونا چاہئے۔

پی سی جوشی ان کمیونسٹوں  میں تھے جنہوں نے کانگریس کی قیادت میں ہونے والی استعماری  مخالف ہندوستانی قومی تحریک کی اہمیت کو نشان زد کیا تھا اور اس کو ایک بڑاانقلاب مانا تھا۔ انہوں نے کمیونسٹوں کو سیاسی طور پر اس تحریک کا ایک اہم حصہ بنایا تھا۔

اس وقت دانشوروں اور سیاسی طور پر باخبر لوگوں کی نظر میں پی سی جوشی ملک میں نہرو کے بعد سب سے موثر رہنما مانے جاتے تھے۔پی سی جوشی کی پیدائش اتراکھنڈ کے الموڑا ضلع میں 14 اپریل 1907 کو ہوئی تھی۔ انٹر تک کی پڑھائی انہوں نے الموڑا سے ہی کی تھی۔ اس کے بعد وہ الہ آباد یونیورسٹی آ گئے تھے۔ جہاں سے انہوں نے بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی تک کی پڑھائی پوری کی۔ یہیں رہتے ہوئے ان کے سیاسی فہم میں ترقی   شروع ہوئی۔

یہیں وہ الہ آباد یوتھ لیگ کے ممبر بنے جس کے صدر جواہر لال نہرو تھے۔ یہیں رہتے ہوئے وہ نوجوان بھار سبھا کے بھی فعال ممبر ہو گئے تھے۔شروعاتی دنوں میں گاندھی جی کے عدم تعاون تحریک سے وہ کافی متاثر ہوئے تھے لیکن تشدد بھڑکنے کے بعد جب گاندھی جی نے تحریک واپس لے لی تھی تو وہ بہت مایوس ہوئے تھے۔

بعد میں پی سی جوشی مشہور میرٹھ سازش والے کیس  میں ملزم بنائے گئے۔ 31 انقلابی ملزمین کی فہرست میں وہ سب سے کم عمر کے ملزم تھے۔ اس وقت وہ صرف 22 سال کے تھے۔پی سی جوشی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پہلے جنرل سکریٹری تھے اور جب وہ 1935 میں جنرل سکریٹری بنے تھے تب ان کی عمر محض 28 سال تھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے اب تک کے سب سے کم عمر کے جنرل سکریٹری تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کمیونسٹ پارٹی پر انگریزی حکومت نے پابندی عائد کر رکھی تھی۔

وہ 1935 سے لےکر 1947 تک پارٹی کے جنرل سکریٹری تھے۔ ان 12 سالوں میں انہوں نے 1925 میں بنی کمیونسٹ پارٹی کو ایک عوام کے درمیان مقبول بنادیا تھا۔ پارٹی کی رکنیت 1947 تک آتےآتے صرف 50 کی تعداد سے بڑھ‌کر 90000 تک ہو گئی تھی اور اب وہ کانگریس کے بعد ہندوستان کی ایک اہم پارٹی بن گئی تھی۔

پی سی جوشی کی قیادت میں ہی مزدوروں کسانوں کی نمائندگی کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ بڑے پیمانے پر طالب علم،نوجوان، قلم کار، دانشور اور ڈراما نگار جڑے۔یہ وہ دور تھا جب آل انڈیا کسان سبھا، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن، اپٹا اور پروگریسیو رائٹر ایسوسی ایشن جیسی تنظیم وجود میں آئے۔تنظیم کے سلسلے میں وہ پورے ہندوستان کا دورہ کیا کرتے تھے۔ یہ سفر وہ ریل کے تیسرے درجے کے ڈبے میں کیا کرتے تھے۔

موہت سین نے اپنی کتاب ‘ اے ٹریولر اینڈ دی روڈ : اے جرنی آف این انڈین کمیونسٹ ‘ میں ان کےسفر کا ذکر کچھ یوں کیا ہے، ” پارٹی کی پالیسیوں کے بارے میں عوام کو بتانے کے لئے ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرنا تھا اور پارٹی کا پیپر نکالنا تھا۔ اس سے عوام کے کئی طرح کے مدعوں کی طرف دھیان گیا۔ اس سے پارٹی کے لوگوں کو عوام کے سوال اور ان کے خیال جاننے کا موقع ملا ہے اور ان کے کئی شکوک اور تعصبات کو دور کرنے کا بھی موقع ملا۔ “

ان کے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری رہتے ہوئے پارٹی کی طرف سے آزادی کی تحریک کا ایک بےحد متنازع فیصلہ لیا گیا تھا۔ 1942 میں گاندھی جی کی قیادت میں شروع کئے گئے ہندوستان چھوڑو تحریک میں کمیونسٹ پارٹی نے حصہ نہیں لینے کا فیصلہ لیا تھا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا وقت تھا اور پارٹی کا ماننا تھا کہ نازی جرمنی کی رہنمائی میں فاشسٹ طاقتیں دنیا کے لئے بڑا خطرہ ہے اور اس کو روکنا کسی بھی قیمت پر ضروری ہے۔ اس لئے اس وقت برطانوی حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہ کی جائے۔

سوویت یونین بھی برٹن اور امریکہ کے ساتھ مل‌کر اس وقت فاشسٹ خطروں کے خلاف لڑ رہا تھا جبکہ  برٹن اور امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کے گہرے نظریاتی اختلافات تھے لیکن سوویت یونین کی بھی یہی سمجھ تھی کہ ہٹلر کی قیادت میں ہونے والا فاشسٹ حملہ استعماریت سے زیادہ بڑا خطرہ ہے اور اس کو ہر حال میں روکا ہی جانا چاہئے۔

جو پی سی جوشی کمیونسٹ کو گاندھی جی کی قیادت میں چلنے والے سامراجی مخالف ہندوستانی قومی تحریک کے قریب لاتے ہیں وہی ہندوستان چھوڑو تحریک میں کانگریس سے الگ رخ اختیار کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ابھی برٹن کو کمزور کرنے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ یہ ان کے فاشزم کے خلاف واضح سمجھ اور ثابت قدم رویے کو دکھاتا ہے۔

ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ نہیں لینے کے فیصلے کے بعد پارٹی کی مقبولیت کو گہرا دھکا لگا تھا اور عوام میں پارٹی کو لےکر پریشان کن حالت بن گئی تھی۔دوسری عالمی جنگ کے بعد لارڈ ویویل نے خود مختار حکومتوں کے لئے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی ان انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری میں جٹی ہوئی تھی اور پی سی جوشی پارٹی کی حالت صاف کرنے کے لئے پورے ملک کا دورہ کر رہے تھے۔ اسی دوران وہ بہار بھی پہنچے۔

پی سی جوشی کی سوانح عمری لکھنے والی مؤرخ گارگی چکروتی لکھتی ہیں، ” بہار میں ان کو غصائی ہوئی بھیڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جلسوں پر حملے ہوئے۔ بہار کے ایک ریلوے اسٹیشن پر جب وہ پہنچے تو غصائی ہوئی بھیڑ نے ان پر کمیونسٹ پارٹی مردہ باد، پی سی جوشی مردہ باد، کمیونسٹ پارٹی غدار ہے، کا نعرہ لگاتے ہوئے حملہ کر دیا تھا۔ اس وقت ایک سکھ کامریڈ نے ہاتھ میں تلوار لےکر بھیڑ کو کھدیڑتے ہوئے ان کی جان بچائی تھی۔ “

یہ پی سی جوشی کی فعال قیادت ہی تھی کہ پارٹی اپنی سیاسی سمجھ کو بعد میں عوام کے درمیان لے جانے اور اس کو سمجھانے میں کامیاب رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کو آزادی کے بعدکے عام انتخابات میں وسیع عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ پی سی جوشی نے ہندوستان میں فاشسٹ قدموں کی آہٹ اس وقت سن لی تھی جب ان کے ہی کمیونسٹ دوستوں کے ساتھ ساتھ تمام مکتبہ فکر کے لوگ اس خطرہ کو بہت ہلکے میں لے رہے تھے۔ انہوں نے اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے بلغاریائی کمیونسٹ رہنما جارجی دمتروو کے مشترکہ مورچے کی سیاسی لائن کو اپنانے پر زور دیا۔ لیکن نہ ہی پی سی جوشی کے وقت اس بات کی اہمیت کو سمجھا گیا اور نہ ہی اب جب فاشسٹ اپنے پورے رنگ میں ہندوستان پر قریب قریب قابض ہو چکا ہے، اس کو سمجھنے کو لےکر کوئی سنجیدہ کوشش نظر آ رہی ہے۔