فکر و نظر

اگر ان دو بچیوں کو انصاف نہیں ملا تو …

بھاڑ میں گئے ہندو اور بھاڑ میں گئے مسلمان۔ بھاڑ میں گیا اپوزیشن اور بھاڑ میں گئی حکومت۔ بھاڑ میں گئی دلیل اور بھاڑ میں بکواس، بھاڑ میں گئی روحانیت۔ بھاڑ میں گیا میں اور بھاڑ میں گئے آپ سب۔ اگر ان دو لڑکیوں کو انصاف نہیں ملا تو سمجھ لو بھاڑ میں گیا ملک۔

جموں و کشمیر کے کٹھوا میں آٹھ سال کی معصوم آصفہ کے ساتھ ریپ ہوا جس کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ وہیں اتر پردیش کے اناؤ میں بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر پر ایک نابالغ نے گینگ ریپ کا الزام لگایا ہے/فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر /اے این آئی

جموں و کشمیر کے کٹھوا میں آٹھ سال کی معصوم کے ساتھ ریپ ہوا جس کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ وہیں اتر پردیش کے اناؤ میں بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر پر ایک نابالغ نے گینگ ریپ کا الزام لگایا ہے/فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر /اے این آئی

ایک لڑکی زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ شاید پوری ننگی یا کچھ پھٹے کپڑوں سے ڈھکی ہوئی۔ اس کے جسم پر ہرجگہ چوٹیں ہیں۔ اس کا چہرہ سوجا ہوا ہے۔ اس کی پھولی آنکھیں خون جیسی لال ہو چکی ہیں۔ بھوؤں پر ہلکا سا کٹ بھی ہے۔ اس کے پستان پر دانتوں کے کاٹنے کے نشان ہیں۔اس کے ہونٹ بھی کٹے ہوئے ہیں جن پر اب خون جم چکا ہے۔ اس کے ایک بالوں کا گچھا اس کے ہی پاس پڑا ہے۔ جو اتنی زور سے کھینچا گیا تھا کہ سر کی کھال سے ٹوٹ‌کر الگ ہو گیا ہے۔ اس کی اندام نہانی میں سے خون رس رہا ہے۔درد اتنا زیادہ کہ اس کو سانس لینے میں بھی مشکل ہو رہی ہے۔ اس کے گھٹنے، کمر، کندھے، قریب قریب ہر جگہ سے اس کی کھال چھل چکی ہے۔ دانتوں کے کچھ اور نشان جسم کے کچھ اور حصوں پر بھی ہیں۔ گلے سے آواز نہیں صرف کراہٹیں نکل رہیں ہیں۔

یہ تو ہوئی باہر کی بات، اب تھوڑی اندر کی بات کرتے ہیں۔ اندر سے یہ بالکل ٹوٹ چکی ہے۔ یہ اپنی نظروں میں گر چکی ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس میں اس کی کوئی غلطی ہے، بلکہ اس لئے کہ سماج نے اس کو ایسا سکھایا ہے۔ اب وہ اپنے گھر والوں کو اپنا منھ دکھا سکتی ہے نہ سماج کو۔ آہستہ آہستہ اس کی موت کی شروعات ہو چکی ہے۔

آج سے یہ ڈر ڈر کر مرنا شروع کردی ہے۔ اس کی نیند سے اس کو یہ خوفناک منظر اکثر جگائے‌گا۔ لوگ کچھ بننے کے، کچھ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں یہ اب اپنے ساتھ، ایسا پھر ہونے کے خواب دیکھے‌گی۔ کبھی کبھی چائے بناتے بناتے، یوں ہی رو پڑے‌گی۔ رشتوں پر یقین کرنا اس کے لئے مشکل ہو جائے‌گا۔

حالانکہ یہ ابھی پوری دکھ رہی ہے پر یہ بکھر رہی ہے، گل رہی ہے، گھل رہی ہے، ڈوب رہی ہے۔ ہوا اس کے لئے تیزاب ہے اور سانسیں اس کے لئے گھٹن۔ یہ اکثر اس طرح  سوچے‌گی کہ اس میں میری کیا غلطی تھی؟ میں نے ایسا کیا کیا تھا یہ میرے ساتھ ہوا؟

اس لڑکی کا ابھی کچھ دیر پہلے ریپ ہوا ہے۔

اب اپنی آنکھیں بند کیجئے اور اس زمین پر پڑی ہوئی عورت کے چہرے کو دھیان  سے دیکھیے۔ پہچانا آپ نے۔ یہ آپ کی یا میری ماں، بہن یا بیٹی ہے۔

برا لگا نہ، بہت برا لگا نہ۔ اب آپ اس چہرے کو اپنے دماغ سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پر وہ چہرہ جا نہیں رہا ہے۔ میں نے آپ کو ایسی چیز دکھا دی ہے، جس کی وجہ سے شاید ابھی آپ کو، مجھ سے سب سے زیادہ نفرت ہے۔ کیجئے آپ مجھ سے نفرت۔ آپ کو پوری اجازت ہے۔

پر اس ریپسٹ کا کیا جس نے یہ سب کیا ہے؟ کیا اس سے آپ نفرت کرتے ہیں؟

آئیے میں آپ کے لئے یہ تصویر اور خوفناک کر دیتا ہوں۔ سوچئے۔ آپ کی ماں یا بہن یا بیٹی کے ساتھ یہ سب تب ہوا جب وہ آٹھ سال کی تھی۔ یہ تو بہت ہی کم عمر ہو گئی۔ چلئے ایسا ہوا جب وہ 16 سال کی تھی۔ اب ٹھیک ہے؟ کیا کریں‌گے آپ؟ آپ کا دل چاہ رہا ہے نہ آپ مجھے جان سے مار دیں۔ چاہنا بھی چاہئے۔

لیکن میں نے تو کچھ نہیں کیا ہے۔ میں نے تو آپ کو صرف سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ پر ابھی یہاں بات ختم نہیں ہوئی ہے۔

آپ اس آٹھ سال کی لڑکی کو اٹھاکر ہسپتال لے جاتے ہیں۔ لڑکی مر چکی ہے۔ پولیس آتی ہے۔ ریپ کیس تو ہونا چاہئے۔ پر نہیں تبھی وہاں ایک بھیڑ آتی ہے۔

جئےشری رام کے نعرے لگاتی ہے۔ بھارت ماتا کی جئے کہتی ہے۔ ہندوستان کا ترنگا اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بھیڑ آپ کو غدار وطن بلاتی ہے اور پولیس کے ساتھ دھکا مکی کرکے اس کو وہاں سے بھاگا دیتی ہے۔ اب آپ اکیلے اپنی بیٹی کی لاش لےکر کھڑے ہیں۔

بیٹی ریپ کے بعد مار دی گئی ہے۔ آپ ڈر کے مارے کانپ رہے ہیں۔ اب کیسا لگ رہا ہے آپ کو؟ یہ ایک موڑ ہے اس کہانی کا۔ چلئے اب ٹھیک اسی کہانی کو دوسرا موڑ دیتے ہیں۔

وہ لڑکی جس کا ریپ ہوا اب وہ 16 سال کی ہے۔ آپ اس کے والد ہیں۔ اس بار مبینہ ریپسٹ کا بھائی آپ کو اٹھاکر لے جاتا ہے۔ جم‌کر آپ کو مارتا ہے۔ بیٹی کے ریپ کا انصاف ملنا تو دور آپ کی اپنی جان‌کے لالے پڑ گئے ہیں۔ پر آپ ابھی مرتے نہیں ہیں۔ بس مرنے جیسی حالت میں ہیں۔ پھر پولیس آپ کو اریسٹ کر لیتی ہے۔ اب آپ لاک اپ میں مر جاتے ہیں۔

پھر ایک اور بھیڑ آتی ہے، وہ غصے میں ہیں۔ آپ تو اب مر چکے ہیں لیکن بیٹی ابھی زندہ ہے۔ آپ کی بیٹی کو اب گاؤں چھوڑ‌کر بھاگنا پڑتا ہے۔ ریپ کے بعد، والد کا مرنا اور اب گھر سے بے گھر ہو جانا۔ یہ بھیڑ اب اس لڑکی کے جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔

یہ ہو گئی کہانی اب میں آپ سے سیدھے سیدھے بات کرتا ہوں۔

بھاڑ میں گئے ہندو اور بھاڑ میں گئے مسلمان۔ بھاڑ میں گیا اپوزیشن اور بھاڑ میں گئی حکومت۔ بھاڑ میں گئی دلیل اور بھاڑ میں بکواس، بھاڑ میں گئی روحانیت۔ بھاڑ میں گیا میں اور بھاڑ میں گئے آپ سب۔ اگر ان دو لڑکیوں کو انصاف نہیں ملا تو سمجھ لو بھاڑ میں گیا ملک۔ اگر ان دو لڑکیوں کو انصاف نہیں ملا تو یہ ملک اس شرمندگی سے کبھی نہیں باہرآ پائے‌گا۔

ہندو مسلمان، اونچی ذات، نیچی ذات، نارتھ انڈین، ساؤتھ انڈین، کالے،گورے، ہرے، پیلے، لال، گلابی، بھگوا، کتّھئی۔ سب بن لئے۔ اب ذرا ہندوستانی بن‌کر ہندوستان کو بچا لو۔کیونکہ وہ جو نربھیا کے لئے سڑک پر نکلے تھے، وہ لوگ مجھے کہیں نہیں دکھ رہے ہیں۔ جنہوں نے بد عنوانی کے خلاف سڑکیں بھر دی تھی، وہ بھی مجھے کہیں نہیں دکھ رہے ہیں۔ جن کو ناز تھا ہند پر، وہ مجھے کہیں نہیں دکھ رہے ہیں۔

بدتمیزی کی حد ہو چکی ہے۔ یہ مت بھولئے، یہ جو ان لڑکیوں کے ساتھ ہوا ہے، وہ ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ یہ آپ کے ساتھ نہیں ہوگا تو یہ غلط فہمی ہے۔ اس میں سے ایک لڑکی ہندو ہے اور ایک مسلمان۔ یہ سب کے ساتھ برابر کا ظلم کر رہے ہیں۔ ہم 99 فیصد عام ہیں۔ اور اگر اب عام نہ اٹھے تو خاص تو دور خاک بن‌کر رہ جاؤ‌گے۔

میں اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں۔ میری جڑیں بھی یہی ہیں اور میری قبر بھی۔ میں اسی مٹی کا بنا ہوں اور آپ سب بھی۔ ہم سب کو اسی مٹی میں ملنا ہے۔ آج اس مٹی کی عزّت آپ سب کے ہاتھ میں ہے، اس کی عزّت بچا لو، ورنہ یہ ہندوستان کی مٹی تم کو کبھی معاف نہیں کرے‌گی۔

(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔)