حقوق انسانی

کیاہیومین رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے بعد بھی سیمی سے جڑے زیر سماعت قیدیوں کو انصاف مل پائےگا؟

 ہیومین رائٹس کمیشن نے ایک جانچ میں بھوپال سینٹرل جیل میں سیمی سے جڑے زیر سماعت قیدیوں کے ساتھ زیادتی کی شکایتوں کو صحیح پایا ہے اور ا س کے لیے جیل اسٹاف کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔

فوٹو:رائٹرس

فوٹو:رائٹرس

ہیومین رائٹس کمیشن نے اپنی جانچ رپورٹ میں بھوپال کی سینٹرل جیل میں مبینہ طور پر سیمی سے جڑے زیر سماعت قیدیوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی شکایتوں کوصحیح پایا ہے اور اس کے لئے جیل اسٹاف کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔ دراصل گزشتہ سال 2017 میں بھوپال سینٹرل جیل میں سیمی سے متعلق معاملوں میں ملزم 21 زیر سماعت قیدیوں کے اہل خانہ  نے ہیومین رائٹس کمیشن سے شکایت کی تھی کہ جیل اسٹاف کے ذریعے قیدیوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے جس کے بعد کمیشن کے ذریعے اس معاملے کی تفتیش کرکے رپورٹ تیار کی گئی ہے۔

دراصل یہ پورا معاملہ 31 اکتوبر 2016 کی رات کو بھوپال سینٹرل جیل میں بند سیمی کے آٹھ مشتبہ کے مبینہ طور پر جیل سے بھاگنے اور پھر ان کے انکاؤنٹر ہونے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ انکاؤنٹر اپنے پیچھے کئی ایسے سنگین سوال کھڑا کر گیا ہے جو لیپاپوتی کی تمام کوششوں کے باوجود بیچ بیچ میں سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ اس انکاؤنٹر کو لےکر مارے گئے قیدیوں کے کنبوں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، حزب مخالف اور کچھ صحافیوں کے ذریعے سوال کھڑے کئے جاتے رہے ہیں اور جس کے پیچھے ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔

انکاؤنٹر کو لےکر ایسی ایسی کہانیاں سنائی گئیں تھیں جن میں سے کئی بچکانی ہیں اور ان پر مطمئن ہو جانا آسان نہیں ہے۔ انکاؤنٹر کے بعد پولیس کے ذریعے جو تھیوری پیش کی گئی تھی اس کے مطابق ملزمین نے جیل سے فرار ہونے کے لئے روٹیوں کا سہارا لیا۔ وہ کھانے میں 40 دنوں تک اضافی روٹی مانگتے رہے۔ ان روٹیوں کو وہ کھانے کے بجائے سکھا کر رکھ لیتے تھے، انہی روٹیوں کو جلاکر انہوں نے پلاسٹک کی ٹوتھ برش سے ایسی چابی بنا ڈالی جس سے تالا کھولا جا سکے۔ اس رات تالا کھولنے کے بعد انہوں نے وہاں تعینات سپاہی رماشنکر یادو کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور دوسرے سپاہی چندن سنگھ کے ہاتھ پیر باندھ دئے، پھر چادروں کو رسی کی طرح استعمال کر کے 25 فٹ اونچی دیوار پھاند‌کر بھاگ گئے۔

اسی طرح سے انکاؤنٹر کو لےکر وزرا، افسروں کے ذریعے دیئے گئے بیانات بھی آپس میں میل نہیں کھاتے ہیں جیسے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ بھوپیندر سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ انکاؤنٹر کے دوران ملزم ہتھیاروں سے لیس تھے جبکہ صوبے کے اے ٹی ایس  چیف کا بیان ٹھیک اس کے برعکس تھا جن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دکھ رہا ہے کہ فرار دہشت گرد سرینڈر کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے ان کو اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ایک دوسرے ویڈیو کے مطابق انکاؤنٹر میں پولیس ایک زخمی قیدی کو نشانہ بناکر فائرنگ کر رہی ہے۔

انکاؤنٹر کے بعد جس طرح سے پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے اس پر بھی سوال اٹھے تھے۔ اس دوران انگریزی اخبار ڈی بی پوسٹ میں شائع خبروں کے مطابق آٹھوں ملزمین کا پوسٹ مارٹم میڈیکو لیگل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک شرما کے ذریعے چار گھنٹے میں اکیلے ہی پورا کر لیا گیا جبکہ ماہرین بتاتے ہیں کہ ایک عام پوسٹ مارٹم کرنے میں بھی 45 منٹ سے 1 گھنٹے تک لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے پوسٹ مارٹم کے دوران نہ تو وہا ں کوئی فارنسک ماہر موجودہ تھا اور نا ہی عدالت کو اس کی اطلاع دی گئی۔ جبکہ قیدی عدالتی حراست میں تھے اور اہتماموں کے مطابق لاش کی جانچ سے پہلے متعلقہ جوڈیشیل مجسٹریٹ کو اطلاع دی جانی چاہئے تھی۔

پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شرما کے ذریعے بار بار بیان بدلنے کی وجہ سے بھی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر سوال اٹھ رہے تھے جیسے کہ پہلے انہوں نے بتایا تھا کہ ” ملزمین نے اپنا آخری کھانا 10 بجے رات (واقعہ کے 4 گھنٹے پہلے) کے قریب لیا تھا۔ ” لیکن بعد میں ڈاکٹر شرما نے اپنا بیان بدلتے ہوئے کہا کہ ” ملزمین کے ذریعے اپنا آخری کھانا شام 7 بجےلینے کا امکان ہے۔ ” معلوم ہو کہ بھوپال سنٹرل جیل میں قیدیوں کو شام 6.30 بجے کھانا دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے پہلے ڈاکٹر شرما کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ ” چار ملزمین کے جسم سے گولی پائی گئی ہے جبکہ چار دیگر کے جسم سے گولی آرپار نکل گئی ہے۔ ” جس کا مطلب یہ ہے کہ ان چاروں کو بہت قریب سے گولی ماری گئی ہے۔ جب اس پر سوال اٹھنے لگے تو ڈاکٹر شرما نے پلٹتے ہوئے کہا کہ ” وہ یقینی طورپر نہیں کہہ سکتے کہ ان کو قریب سے گولی ماری گئی تھی یا دور سے۔ “

فوٹو:پی ٹی آئی

فوٹو:پی ٹی آئی

حکومت کی طرف اس انکاؤنٹر میں تین پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بات بھی کہی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ انکاؤنٹرکے دوران ان تینوں پولیس اہلکاروں کو دھاردار ہتھیار سے ہوئے حملے میں ہاتھ اور پیر پر چوٹیں آئی ہیں۔ لیکن 11 نومبر 2016 کو انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس میں شائع ایک خبر کے مطابق ان تینوں میں کوئی بھی پولیس اہلکار شدیدطور پر زخمی نہیں ہوا تھا۔

بھوپال انکاؤنٹرکو لےکر بھوپال کورٹ کے ذریعے بھی سوال اٹھائے گئے تھے، کورٹ کا کہنا تھا کہ ‘ انکاؤنٹر ہونے کے نو دن بعد اس کو سرکاری طور پر اس کی جانکاری دی گئی، جبکہ اس میں مارے گئے لوگ عدالتی حراست میں تھے اور قانوناً اس کے بارے میں کورٹ کو فوراً بتایا جانا چاہئے تھا۔ ‘ کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘ ملزمین کا پوسٹ مارٹم بھی عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے نہیں کرایا جو قانونی اہتماموں کی خلاف ورزی ہے۔ ‘ اسی طرح سے کورٹ نے انکاؤنٹر کے مقام کو سیل نہیں کرنے پر بھی سوال اٹھائے تھے۔

انکاؤنٹر کو لےکر اتنے سارے سوال ہونے کے باوجود بھی وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے نہ صرف ان سوالوں کو نظرانداز کیا بلکہ انہوں نے بہت ہی جارحانہ انداز میں  انکاؤنٹر کو صحیح ٹھہرایا ۔ انکاؤنٹر کے اگلے دن ایک نومبر کو ریاست کی یوم تاسیس تقریب کے دوران وزیراعلیٰ انکاؤنٹر کو جواز دلانے کے لئے بھیڑ سے کہا کہ ” پولیس نے دہشت گردوں کو مار‌کر صحیح کیا یا غلط؟ ” جواب میں وہاں موجود بھیڑ ہاتھ اٹھاکر کہتی ہے ” صحیح کیا۔ “

اس دوران وہ انکاؤنٹر میں شامل پولیس اہلکاروں کو انعام دینے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ان کا ایک اور بیان ہے کہ ” کئی سال تک وہ (سیمی ملزم) جیل میں بیٹھ‌کر چکن بریانی کھاتے ہیں پھر فرار ہو جاتے ہیں۔ ” حالانکہ وزیراعلیٰ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ خوف ناک غذائی قلت کی مار جھیل رہے جس صوبے کی حکومت آنگن باڑی مراکز میں غذائی قلت کے شکار بچوں کو انڈا نہیں کھلا سکتی تو وہ جیلوں میں بند قیدیوں کو چکن بریانی کیسے کھلا سکتی ہے؟ مدھیہ پردیش کی جیل کےوزیر کسم مہدیلے نے بھی انکاؤنٹر پر اٹھ رہے سوالوں کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” جیل سے فرار سیمی کے ممبروں کو مار گرانے کے لئے ان کی تنقید کے بجائے تعریف ہونی چاہئے “۔

لیکن معاملہ انکاؤنٹر کو جواز دلانے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس پر سوال اٹھانے والوں کو سبق بھی سکھایا گیا۔ لکھنؤ میں انکاؤنٹر کے خلاف رہائی منچ کے دھرنا کے دوران منچ کے جنرل سکریٹری اور دیگر کارکنان کی پولیس کے ذریعے جم کر پٹائی کی گئی تھی۔ اندور میں بھی انکاؤنٹر کے خلاف مخالفت  اور اپنی مانگ رکھنے والےشہریوں کو پروگرام کرنے نہیں دیا گیا اور پروگرام سے پہلے نظربند کر دیا گیا تھا۔

فوٹو:پی ٹی آئی

فوٹو:پی ٹی آئی

ہر انکاؤنٹر ایک سوال چھوڑ جاتا ہے اور بھوپال انکاؤنٹر کا پورا معاملہ ہی سوالوں کا انبار ہے۔ اگر شہریوں کو تحفظ دینے کے لئے جواب دہ حکومت اور پولیس انتظامیہ ہی سوالوں کے گھیرے میں آ جائیں تو پھر حالت کی سنجیدگی کو سمجھا جا سکتا ہے اور پھر جس طرح سے حکومت اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعے اس انکاؤنٹر کا جشن منایا گیا تھا اس سے انکاؤنٹر کو لےکر اٹھے سوالوں کے جواب ملنے کی امید کیسے کی جاتی کیونکہ جن کو جواب دینا تھا وہ اپنا فیصلہ پہلے ہی سنا چکے تھے اور تفتیش بھی انہوں نے ہی کی۔ اس پورے معاملے میں اصل سوال یہ تھا کہ جس حکومت کا سربراہ انکاؤنٹر کو پہلے سے ہی صحیح مان‌کر اس میں شامل لوگوں کو انعام دینے کے اعلانات کئے ہوں وہ اس کی تفتیش کس طرح سے کرائے‌گا؟

بہر حال لگاتار سوال اٹھنے پر مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے پہلے اس معاملے کی تفتیش این آئی اے کے ذریعے کرائے جانے کی بات کی گئی تھی لیکن بعد میں وہ اس سے پیچھے ہٹ گئی۔ پھر ہائی کورٹ کے سبکدوش جج شری ایس کے پانڈے کی صدارت میں عدالتی تفتیش کے لئے ایک رکنی جانچ کمیشن تشکیل کر دی گئی۔ کمیشن کی جانچ‌کے تین اہم پوائنٹ تھے؛

زیر سماعت بندی کن حالات اور واقعات میں جیل سے فرار ہوئے؟ مذکورہ واقعہ کے لئے کون افسر اور ملازم جواب دہ ہیں؟

پولیس تصادم اور زیر سماعت قیدیوں کی موت کن حالات اور واقعات میں ہوئی؟

کیا انکاؤنٹر میں پولیس کے ذریعے کی گئی کارروائی ان حالات میں صحیح تھی؟

حالانکہ مارے گئے ملزمین کے وکیل نے اس انکاؤنٹر کی عدالتی جانچ ریٹائر جج سے کرائے جانے کی حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل  دائر کی گئی تھی جس میں مانگ کی گئی تھی کہ ریاستی حکومت کے ذریعے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی صدارت میں بنائی گئی ایک رکنی جانچ کمیشن  سے کرانے کے بجائے انکاؤنٹر کی تفتیش ہائی کورٹ کے سٹنگ جج کے ذریعے کرائی جائے۔ لیکن ہائی کورٹ کے ذریعے اس عرضی کو خارج کر دیا گیا۔

20 ستمبر 2017 کو بھوپال سے انگریزی روزنامہ ڈی بی پوسٹ میں ایک ایکسکلوسیو اسٹوری شائع ہوئی تھی جس کے مطابق جسٹس ایس کے پانڈے نے اپنی عدالتی جانچ رپورٹ مدھیہ پردیش کی وزارت داخلہ کو سونپ دی ہے جس میں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکاؤنٹر پر سوال نہیں اٹھایا ہے اور انکاؤنٹر کے بعد کام میں شامل رہی ٹیم کی طرف سے درج ایف آئی آر میں جو کہانی بتائی گئی تھی، اس پر مہر لگا دی ہے۔ رپورٹ میں بھوپال سینٹرل جیل سے زیر سماعت قیدیوں کے بھاگنے اور پھر انکاؤنٹر میں ان کے مارے جانے کے معاملے میں پولیس کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ جانچ کمیشن نے یہ بھی مانا ہے کہ زیر سماعت قیدیوں کے پاس ہتھیار تھا اور سرینڈر کرنے کی مانگ پر انہوں نے پولیس ٹیموں پر حملہ کیا اس کے جواب میں ہوئی کارروائی میں تمام زیر سماعت قیدی مارے گئے۔ اس رپورٹ کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے۔

31 اکتوبر 2016 کی رات انکاؤنٹر میں آٹھ زیر سماعت قیدیوں کے مارے جانے کے بعد فی الحال بھوپال سینٹرل جیل میں 21 قیدی بچے ہیں جن پر ممنوعہ تنظیم سیمی کے ممبر ہونے کا الزام ہے۔ انکاؤنٹر ہونے کے بعد سے ان قیدیوں کی فیملی والے لگاتار یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کو جیل میں جسمانی اور دماغی طور پر پریشان کیا جا رہا ہے۔ رشتہ داروں نے الزام لگایا تھا کہ اس سے متعلق عدالت کے سامنے شکایت کرنے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی صورت حال میں کوئی بہتری آئی۔

بعد میں رشتہ داروں کے ذریعے اس کی شکایت ہیومین رائٹس کمیشن سے کی گئی جس میں کہا گیا کہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ، وزرا سیمیت کئی سینئر اہلکاروں کے ذریعے عوامی منچوں سے پولیس کے ہاتھوں مارے گئے آٹھ قیدی کی موت کو مناسب ٹھہرایا گیا اور جیل میں بند ان زیر سماعت قیدیوں کو دہشت گرد بتایا گیا (جبکہ وہ سزا یافتہ نہیں بلکہ زیر سماعت قیدی ہیں) جس کی وجہ سے رشتہ داروں کو ان کے انکاؤنٹر کا ڈر ستاتا رہتا ہے۔ رشتہ داروں کا الزام تھا کہ جیل بریک کے واقعہ کے بعد قیدیوں کو جیل انتظامیہ کے ذریعے پریشان کیا جا رہا ہے، ان کے ساتھ شدیدطور پر مارپیٹ کی جاتی ہے، ان کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں دیا جاتا اور نہانے دھونے اور پینے کے لئے مناسب مقدار میں پانی نہیں دیا جاتا ہے۔ ان کوsolitary confinementمیں رکھا جا رہا ہے اور رشتہ داروں کوان سے صحیح سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے اور ان کو اپنے مذہب کے خلاف نعرے لگانے کو مجبور کیا جا رہا ہے۔

رشتہ داروں کی شکایت کے بعد اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہیومین رائٹس کمیشن کے ذریعے ٹیم بھیج‌کر ان الزامات کی تفتیش کرائی گئی، اس سے متعلق کمیشن کی ٹیم نے دو مرتبہ جون اور دسمبر 2017 میں بھوپال سینٹرل جیل کا دورہ کرکے زیر سماعت قیدیوں کا بیان درج کیا تھا اور قیدیوں کے رشتہ داروں، ان کے وکیلوں، جیل کے افسروں اور سماجی کارکنان سے بھی بات چیت کی تھی۔

ہیومین رائٹس کمیشن نے اپنی تفتیشی رپورٹ اور سفارشوں کو مدھیہ پردیش حکومت کو پہلے ہی سونپ دیاتھا اور اب یہ عمومی طور پر بھی دستیاب ہے۔ تفتیشی رپورٹ میں کمیشن نے رشتہ داروں کی زیادہ تر شکایتوں کو صحیح پایا ہے اور اس میں شامل افسروں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔

اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیدیوں کو 5 ‘ X8 ‘ کی سیل میں سنسان قید میں رکھا گیا جہاں پنکھے نہیں ہیں اور وہاں گرمی اور امس ہے۔ قیدیوں کو دن میں کچھ منٹوں کے لئے ہی سیل سے باہر نکالا جاتا ہے اس کی وجہ سے یہ قیدی کئی طرح کی دماغی خرابیوں کے شکار ہو چکے ہیں۔ جبکہ اس کو لےکر سپریم کورٹ کا واضح حکم ہے کہ زیر سماعت قیدیوں کو کسی بھی حالت میں  سنسان قید میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کو جیل کے اسٹاف کے ذریعے بری طرح پیٹا جاتا ہے۔ قیدیوں نے کمیشن کی تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ ان کو ربر کی پٹیوں، آٹا چکی کی بیلٹ اور لاٹھیوں سے مارا جاتا ہے۔ کئی قیدیوں کے جسم پر چوٹ کے نشان پائے گئے ہیں۔ اس سے متعلق جیل اسٹاف نےتفتیشی ٹیم کو کوئی وضاحت نہیں دی۔جیل اسٹاف قیدیوں کے خلاف مذہبی حسد کی ذہنیت رکھتے ہیں، قیدیوں کو اپنے مذہب کے خلاف نعرے لگانے کو مجبور کیا جاتا ہے اور انکار کرنے پر پٹائی کی جاتی ہے۔

اصولوں کے مطابق زیر سماعت قیدیوں کو ہفتے میں دو بار 20 منٹ کی ملاقات کی اجازت ہے لیکن یہاں یہ پایا گیا کہ قیدیوں کے کنبوں کو 15 دنوں میں صرف ایک بار پانچ منٹ کے لئے ملنے دیا جا رہا ہے اور اس میں بھی کھل‌کر بات نہیں کرنے دی جاتی ہے۔کمیشن نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں قیدیوں کے ظلم وستم میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل جیل ملازمین‎، افسروں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش بھی کی ہے ساتھ ہی رپورٹ میں قیدیوں کے ذریعے لگائے الزامات کی تفتیش اعلی سطح پر کرانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

حالانکہ بھوپال جیل ڈائریکٹر جنرل سنجےچودھری نے کمیشن کی رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے اس کو یکطرفہ رپورٹ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ آخری نہیں ہے اور اس کا بالترتیب جواب جنوری میں ہی کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے۔

1977 میں تشکیل شدہ ‘ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا ‘ (سیمی) پر سال 2001 میں پابندی لگا دی گئی تھی جس کے بعد سے مدھیہ پردیش میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو سیمی سے جڑے ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جامعہ ٹیچرس سالیڈیرٹی ایسوسی ایشن کے ذریعے 2013 میں ” گلٹ بائی ایسوسی ایشن ” نام سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مدھیہ پردیش میں سال 2001 اور 2012 کے درمیان ” غیر قانونی سرگرمی قانون ” (UAPA) کے تحت قائم کئے گئے تقریباً 75 مقدموں کی جانچ کی گئی ہے جس کے تحت 200 سے زیادہ مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں مدھیہ پردیش کے مختلف جیلوں میں بند ہیں۔

ان میں سے 85 کے خلاف ” غیر قانونی سرگرمی قانون ” (UAPA) کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ یہ سیمی کے کارکن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان ملزمین پر کسی بھی طرح کے دہشت گردانہ حملے کا الزام نہیں ہے اور زیادہ تر ایف ائی آر میں جو الزام لگائے گئے ہیں اس میں کافی یکسانیت ہے جیسے پولیس کی چھاپے ماری کے دوران ملزمین کے پاس سے سیمی کا لٹریچر، پوسٹر، پمپلیٹ بر آمد ہوئے ہیں (لیکن جس لٹریچر کی بات کی گئی ہے وہ سیمی کی پابندی سے پہلے کی ہے) یا ملزم چوک چوراہے اور دوسرے عوامی مقامات پر کھڑے ہوکر ممنوعہ  تنظیم سیمی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور بیان بازی کرتے ہوئے یہ عہد لے رہے تھے کہ وہ تنظیم کے مقصد کو آگے بڑھائیں‌گے۔

یہاں تک کہ کئی معاملوں میں تو اخباروں میں شائع سیمی سے جڑی خبروں کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے جیسے اگر سیمی سے متعلق اخباروں میں شائع خبریں کسی ملزم کے یہاں ملی ہے تو اس کو بھی ثبوت کے طور پر رکھاگیا ہے۔ ظاہر ہے رپورٹ حقیقتوں کے ساتھ بتاتی ہے کہ کیسے ان معاملوں میں ہلکے ثبوتوں اور قانونی عمل کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے 3 فروری 2011 کو دئے گئے اپنے لینڈمارک فیصلے میں کہا تھا کہ ” صرف ممنوعہ تنظیم کی رکنیت کسی آدمی کو مجرم نہیں ثابت کرتی۔ ” مدھیہ پردیش میں سیمی سے جڑے ہونے کے تقریباً دو درجن ملزم اسی بنیاد پر بری کئے جا چکے ہیں۔ بھوپال انکاؤنٹر میں مارے گئے ملزمین میں سے کئی کے معاملوں میں بھی عدالت نے ثبوتوں کو ناقابل یقین بتایا تھا اور ان کے جلدہی بری ہونے کا امکان تھا۔

ہمارے ملک میں کسی انڈرٹرائل قیدی کو دہشت گرد بتا دینا بہت عام ہے اگر معاملہ اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں سے جڑا ہو تو الزامات کے ثابت ہونے کا انتظار بھی بالکل نہیں کیا جاتا اور ہرکوئی جج بن‌کر فیصلہ سنانے لگتا ہے۔ اس معاملے میں میڈیا سب سے آگے ہے۔ ایسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں جہاں مسلم نوجوان کئی سالوں تک جیل کی ” سزا ” کاٹنے کے بعد بےقصور ثابت ہوئے ہیں لیکن اس دوران ان کو دہشت گرد ہی بتایا جاتا رہا۔ مارے گئے آٹھ اور بھوپال جیل میں قید 21 لوگوں پر بھی سیمی سے جڑے ہونے کا الزام تھا جس کو ثابت کیا جانا باقی ہے لیکن ہماری میڈیا ان کو دہشت گرد بتاتی ہے۔ بھوپال لال پریڈ گراؤنڈ پر وزیراعلیٰ نے بھی ان کو دہشت گرد بتایا تھا۔ ظاہر ہے بھلا جیل انتظامیہ کیسے اس ذہنیت سے بچا رہ سکتا ہے؟