فکر و نظر

اقلیت پر اکثریتی تسلط کے سخت مخالف تھے بابا صاحب امبیڈکر

 سیاست داں اور ارباب اقتدار جہاں ایک طرف اپنے آپ کو امبیڈکر کا سچا ‘مقلد’ بتاتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتی طبقات کی حق تلفی کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔

Photo: PTI

فوٹو : پی ٹی آئی

محکوموں اور مظلوموں کے مسیحا بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر آج ہی کے دن یعنی 14/اپریل 1891 کو بمبئی صوبے کے ایک اچھوت مہار ذات میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے خود بھی اپنی زندگی میں طرح طرح کے تعصب، ظلم و ستم برداشت کیے ۔

اچھوت ہونے کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے لوگوں نے ان کے ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر بھید بھاؤ کیا۔ اعلیٰ ذات ہندوؤں کو امبیڈکر کی اس بات سے’ چڑ ھ’ تھی کہ وہ ذات پات اور چھوا چھوت پر مبنی بھید بھاؤ کے مسئلے کو قومی سیاست کے مرکز میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہیں دوسری طرف قومی تحریک سے وابستہ اعلیٰ ذات پر مبنی قیادت ان سوالوں کو دبا کر اقتدار کی کمان انگریزوں سے اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی تھی۔

امبیڈکر بھی ہندوستان کی آزادی کے پیروکار تھے   وہ   چاہتے تھے کہ ہندوستان کی قیادت خود ہندوستانیوں کے پاس ہو مگر امبیڈکر اس بات سے بھی فکر مند تھے کہ اگر ہندوستان آزاد ہوتا ہے تو یہاں کے محکوموں اور مظلوموں کو کیا کیا حقوق دیئے جائیں گے۔

ان کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ آزاد ہندوستان  میں محکوم اور مظلوم طبقات کو اقتدار میں واجب حصہ داری مل پائے گی بھی یا نہیں۔  وہ اس بات سے بھی فکر مندتھے کہ آزادہندوستان  میں اقلیتی طبقات پر اکثریتی طبقات اپنی تعداد کی بنیاد پر غالب نہ ہو جائے اور اپنے مفادات ان پر نہ تھوپے۔ان کےنزدیک  اگر اقلیتوں پر اکثریتی طبقے کا تسلط تھوپ دیاجائے گا تو یہ جمہوری اقدار کی سخت خلاف ورزی ہوگی۔

جن خدشات اور سوالات کو لے کر امبیڈکر آزادی کے وقت پریشان تھے، آج بھی وہ سوالات جوں کے توں قائم ہیں، جو بات امبیڈکر نے 80-70 سال پہلے کہی تھی اس کی اہمیت اور معنویت آج اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں ہندو شدت پسند جماعتیں برسراقتدار ہیں۔

افسوس اس بات کا نہیں ہے کہ آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی انتخابات در انتخابات فتح یاب ہوتی جا رہی ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اپنی جیت کے نشے میں جمہوری اقدارسے بھٹک گئی ہے۔ امبیڈکر نے جس بات کی طرف اشارہ کیا تھا وہ آج کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

کس طرح اکثریتی طبقہ اپنی بات اور اپنے مفاد اقلیتی طبقات کے اوپر تھوپ رہی ہے اور ان کے جذبات اور ان کی نمائندگی کو لے کر غیر سنجیدہ اور بے حس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امبیڈکر سے محبت کا دعویٰ کرنے والے روہت ویمولاکے نام سے کیوں گھبراتے ہیں؟

جمہوریت کیا ہے؟ اس کا جواب اکثر لوگ کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جہاں عوام کی حکومت ، عوام کے مفاد کے لیے، عوام کے ذریعے تشکیل دی جاتی ہے۔ مگر امبیڈکر صاحب نے جمہوریت کی جو تشریح کی ہے وہ اس سے ایک قدم آگے ہے، ان کا ماننا ہے کہ جمہوریت میں حکومت سازی کا عمل اکثریتی ووٹ سے ہی طے ہوتا ہے مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اکثریتی حکومت اقلیتی طبقات کے مفادات اور اقتدار میں ان کی حصہ داری کو نظر انداز کردے ۔

جدید ہندوستان کے معمار اور آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی ان ساری باتوں کو آج فراموش کردیا گیا ہے۔ سیاست داں اور ارباب اقتدار جہاں ایک طرف اپنے آپ کو امبیڈکر کا سچا ‘مقلد’ بتاتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتی طبقات کی حق تلفی کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔

حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ پارلیامنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد آج 1957 کےبعد سب سے کم ہے۔ برسراقتدار بی جے پی مسلمانوں کو الیکشن میں ٹکٹ نہ دینے کی غیر اعلانیہ پالیسی اپنا رہی ہے اور اسے یہ کہنے میں ‘شرم’ محسوس نہیں ہوتی کہ بی جے پی ہندوؤں کی پارٹی ہے اور اس کی حریف کانگریس مسلمانوں کی۔

اس سے بی جے پی کا یہ ایجنڈا کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پر گول بند کیا جائے اور خود کو اکثریتی طبقے سے جوڑ دیا جائے تاکہ اس کی سیاسی اکثریت فرقہ وارانہ اکثریت میں تبدیل ہوجائے۔ اس طرح وہ ہندوستانی سیاست میں ناقابل شکست پارٹی کی حیثیت اختیار کر لے گی جو کہ امبیڈکر کی نظرمیں جمہوریت کے لیے نہایت ہی مہلک اور خطرناک ہے۔

اترپردیش اسمبلی الیکشن کو ہی لے لیجئے جس میں بی جے پی نے ایک بھی ٹکٹ کسی مسلم کو نہیں دیا  اور اپنی حریف بی ایس پی کی جم کر اس بات پر تنقید کی کہ اس نے مسلمانوں کو 90 سیٹ پر اتارکر مسلمانوں کی منہ بھرائی کی ہے۔

جمہوری اقدار کی دھجیاں کچھ اس طرح اڑی کہ مسلمانوں کو پوری طرح سے نظر انداز کرنے کے باوجود اس جماعت نے اسمبلی انتخابات میں غالب اکثریت حاصل کی۔ آج بی جے پی کے پاس تقریباً چودہ سو اراکین اسمبلی اور تین سو سے زائد اراکین پارلیامنٹ (بشمول راجیہ سبھا) ہیں مگر وہاں بھی مسلمانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

اقتدار میں حصہ داری کی کون کہے، جب پالیسی اور اسکیم بنانی ہوتی ہے تو وہاں بھی بی جے پی مسلمانوں کے جذبات اور مفادات کا خیال نہیں رکھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی طلاق ثلاثہ پر لوک سبھا میں ایک بل لائی اور اس مسئلے پر لمبی بحث بھی ہوئی مگر سرکار نے کبھی بھی مسلمانوں کے معتبر قائد  اور ملی رہنماؤں سے گفتگو نہیں کی اور کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر کار مسلم سماج اس مسئلے کو کس طرح سے دیکھتا ہے۔

مسلمانوں کے نام پر بی جے پی نے ایسے لیڈروں کو آگے بڑھایا جن کی پکڑ مسلم سماج میں ڈھیلی ہے جو مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امبیڈکرسے مودی اور سنگھ کے پیارکی حقیقت

بی جے پی کے علاوہ دوسری سیکولر پارٹیوں کا ریکارڈ بھی اس سمت میں قابل اطمینان نہیں ہے۔ سیکولر پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والی کانگریس بھی مسلم مسائل پر زبان کھولنے سے گریز کر رہی ہے۔ اس کو اس بات کا ‘خوف’ ہے کہ کہیں بی جے پی اس کی مسلم دوستی کو طول نہ دے دے اور اکثریتی طبقے سے اسے مزید دور نہ کردے۔

غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی پارٹیاں جومختلف صوبوں میں برسراقتدار ہیں انھوں نے بھی مسلمانوں کے ووٹ تو لیے مگر ان سے کیے وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہیں۔ یہ سبھی سیاسی جماعتیں امبیڈکر نوازی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہیں مگر جب بات ان کے پیغامات اور ان کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی  ہو تو وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آتیں۔

Ambedkar_Narendra-Modi_PTI

امبیڈکر نے اپنی تحریر اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے ان مسائل کو مرکز میں رکھا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔ امبیڈکر چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان میں سبھی طبقے کو ان کا واجب حق اور ان کی صحیح نمائندگی ملے۔ 6 مئی 1945 کو بمبئی میں واقع آل انڈیاایس سی فیڈریشن کی سالانہ تقریب میں بولتے ہوئے امبیڈکر نے کہا کہ کسی بھی صورت میں ایک طبقہ دوسرے طبقے پر اپنا تسلط نہ جمائے۔

انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ تعداد کی بنیاد پر اکثریتی طبقہ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اقلیتی طبقے پر اپنی رائے تھوپے۔ انھوں نے  مزید کہا کہ اکثریت پر مبنی حکومت اصولاً درست نہیں ہے اور ایسی حکومت عملاً بھی صحیح نہیں ہے مگر اکثریت پر مبنی حکومت اس معنی میں قابل قبول ہوسکتی ہے جب وہ نسبتی (relative)ہو۔ ایسی حکومت جو مطلق (absolute) بن جائے وہ قابل قبول ہرگز نہیں ہے۔

امبیڈکر کے مذکورہ بالا جملے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اکثریتی ووٹ حکومت سازی میں کلیدی رول ادا کرتا ہے اور صرف اقلیتی ووٹ کی بنیاد پر کبھی بھی حکومت نہیں بن سکتی مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اکثریتی طبقہ اپنے ووٹ اور اپنی تعداد کی بنیاد پر ایک مطلق العنان حکومت قائم کرے اور اقلیتی طبقات کی حصہ داری اور ان کے واجب نمائندگی کو نظر انداز کردے۔؂ت

بھی تو امبیڈکر نے ہندوؤں کو متنبہ کیا کہ انھیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اکثریت پر مبنی حکومت ‘مقدس’ (sacrosanct) ہے اور اس پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔

آزادی کے وقت ہندو مسلم مسائل کو وہ اسی سیاق میں دیکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ملک کی تقسیم روکی جاسکتی ہے اگر ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے  جہاں اقلیتی طبقات کے مفادات کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ امبیڈکر کی اس تدبیر کو نہ اس وقت مانا گیا اور نہ آج کے ارباب اقتدار اسے ماننے پر راضی ہیں۔

لیکن جب بات امبیڈکر سے اپنا رشتہ جوڑنے کی ہواور دلت ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی ہو تو سبھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی نظر آرہی  ہیں۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ مضمون پہلی بار 14 اپریل 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔