ادبستان

الیاس احمد گدی: کوئلہ مزدوروں کا قصہ گو…

یوم پیدائش پر خاص:جو کام مہا شویتا دیوی نے بنگلہ میں کیا ہے،وہی کام الیاس احمد گدی اردو فکشن میں انجام دے رہے تھے۔گدی انسانی تاریخ کو استحصال کی تاریخ تصور کرتے ہیں اور انسان کے تمام مسائل کی جڑ میں بھوک کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، جس کے سبب انسان پلو والے آم بھی کھانے کو مجبور ہوتا ہے۔

ilyas ahmad gaddi

الیاس احمد گدی کی شہرت ان کے ناول فائر ایریاسے ہے۔اس ناول پر انھیں میں ساہتیہ اکادمی انعام سے بھی نوازا گیا۔یہ  ناول ایک مکروہ اور استحصالی نظام کا مرقع ہے۔ ناول کوئلہ مزدوروں کی زندگی پر مبنی ہے۔ گدی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ کول فیلڈ کی زندگی سے اردو ادب کو متعارف کرایا ،وہ اس معاملے میں  یگانہ و یکتا ہیں۔گدی ایسے قلم کاروں میں ہیں جو بہت تھوڑے میں پورے اترتے ہیں۔ان کا تعلق جھریا ضلع دھنباد (بہار) موجودہ جھار کھنڈ کے ایک گدی خاندان سے تھا۔ غیاث احمد گدی آپ کے بڑے بھائی ہیں۔

الیاس احمد گدی انٹرمیڈیٹ تک ہی تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ نظریاتی طور پر اشترا کی تھے۔ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے مزدوروں کے  درد کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اس درد کو پیش کیا ہے جس کی بہترین مثال فائر ایریاہے۔دراصل گدی انسانی تاریخ کو استحصال کی تاریخ تصور کرتے ہیں اور انسان کے تمام مسائل کی جڑ میں بھوک کو ذمہ دار قرار دیتے ، جس کے سبب انسان پلو والے آم بھی کھانے کو مجبور ہوتا ہے۔ یہی بھوک ہے جو انسان کو غیر اخلاقی حرکتیں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔گدی کا خیال ہے کہ یہ صورت حال سماج کے بڑے لوگوں کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے. تاکہ ان کا سامراج قائم رہ سکے اور حاکم بنے وہ چھوٹے، بے زبان اور مجبور لوگوں پر حکومت کریں. ان کا یہ ناول زندگی کی مثبت قدروں کی ترجمانی میں ہمیں اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے بیدار کرتا ہے۔

 گدی کے ادبی سفر کی شروعات1948 کے آس پاس ہوئی۔ان کی پہلی کہانی’ سُرخ نوٹ‘ ماہنامہ افکار میں شائع ہوئی۔ پہلی معروف کہانی ’عجائب سنگھ‘ہے جس کوادبی حلقے میں خوب پسند کیا گیا۔یہ کہانی ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’آدمی‘ (1983)میں شامل ہے۔ دوسرا مجموعہ”تھکا ہوا دن“ کے عنوان سے1989میں شائع ہوا۔گدی نے کئی ناول لکھے جن میں ’زخم‘(1953) ’مرہم‘(1954)،فائر ایریا (1994) اور ایک ادھورا ناول ’بغیر آسمان کی زمین‘ہے۔اس ناول کا موضوع چھوٹا ناگپور کے قبائلی  لوگ اور ان کے مسائل ہیں۔ اس ناول میں گدی نے مسلم متوسط طبقے کی زبوں حالی اور پسپائی کو بھی پیش کیا ہے۔بیانیہ انداز میں لکھے اس ناول میں صورت حال کو پیش کرنے پر ان کی گرفت بے حد مستحکم ہے۔یہ شاید ان کی دور اندیشی ہی تھی کہ انہوں نے آج سے تقریباً تین دہائی قبل ان حالات کو محسوس کر لیا تھا جس سے مسلم متوسط طبقہ آج دوچار ہے۔قابل ذکر بات یہ ہےکہ ان کا یہ ادھورا ناول  ”ذہن جدید“ میں قسط وار شائع ہوا تھا۔

فوٹو : رائٹرز

فوٹو : رائٹرز

گدی نے ایک سفر نامہ  لکچھمن ریکھا کے پارکے عنوان سے لکھا جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔اس کے علاوہ  اپنے بھائی غیاث احمد گدی کا ایک سوانحی خاکہ”مگدھ پوری کا داستان گو“لکھا جو کافی مقبول ہوا۔یہ جمشید قمر کی مرتب کردہ کتاب ”غیاث احمد گدی کے افسانے“ او ر ہمایوں اشرف کی کتاب”غیاث احمد گدی فرد اور فنکار“میں شامل ہے۔ الیاس احمد گدی نے ترجمے کے بھی کئی اہم کام کئے ہیں جن میں پھنیشور ناتھ رینو کی کہانیوں کو اردو میں ”بہترین کہانیاں“ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔

 گدی اپنے ہم عصروں پر کئی معنوں میں سبقت لے گئے۔انہیں ساہتیہ اکادمی کے علاوہ دوسرے ایوارڈ بھی ملے۔  گدی کے افسانے منفرد ہیں۔اُن کی زبان سلیں ہے۔ انہوں نے علامتوں کا بھر پور استعمال کیا۔ پہلے افسانوی مجموعے ’آدمی‘ میں تیرہ افسانے شامل ہیں جن میں ’آدمی‘ ’ہارے ہوئے لوگ‘ 25 مارچ کے بعد کا ایک دن‘ ایسے افسانوں کے زمرے میں آتے ہیں جنھیں علامتی کہنا مناسب ہے۔ان کے دوسرے افسانوی مجموعے ’تھکا ہوا دن“ میں کل پندرہ افسانے شامل ہیں۔جن میں تھکا ہوا دن، تکون،مکڑا، چلو بھر خون،  ’ابورشن‘ اور’سدھ کیا ہوا سانپ‘ کا شمار بھی علامتی کہانیوں میں کیا جا سکتا ہے۔یہ  کہانیاں فنی اعتبار سے بہت پختہ اور معنی خیز ہیں۔

مثال کے طور پر افسانہ ”مکڑا“  ”مجموعہ تھکا ہوا دن“ میں شامل ایک بہت ہی متاثر کن افسانہ ہے۔اس کا عنوان ہی علامتی ہے۔  ”مکڑا“ جو کہ ایک  نہایت’کریہہ‘بد نما سا کیڑا ہے جس کے تعلق سے ذہن میں منفی خیالات ہی آتے ہیں۔مکڑا جس کی فطرت جال بننا اور اس میں اپنے شکار کو پھانسنا ہے۔اس جال کے بننے اور پھانسنے کی صفت پر ہی مبنی ہے یہ افسانہ۔اس افسانے میں ایک شادی شدہ جوڑے کی کہانی کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔غربت و افلاس کے شکنجے میں پھنسا انسان خود کو حالات سے آزاد نہیں کر پاتا اور رفتہ رفتہ حالات کا شکنجہ اُسے جکڑتا چلامیں  جاتا ہے اور انسان اپنی مدافعت کی قوت کھوتا چلا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح مکڑے کے جال میں پھنسا اس کا شکار۔افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے ایک کینسر زدہ مرد کی بیوی کو اس کے دوست (مکڑا) کے احسان (جال) میں پھنستے اور مدافعت کی قوت ختم ہوتے دکھا یا ہے۔ایک اقتباس اس افسانے سے ملاحظہ ہو:

”کملیش رات میں آیا!شاید ابھی آئے………اس نے جیسے اپنے آپ   سے کہا۔ کملیش کا انتظار ہے۔وہ چونکی……اس کو؟  نہیں جیتندر کو،یا شاید دونوں کو،  یا شاید اس تمام گھر کو، باورچی خانے میں رکھے  خالی کنستروں کو، دواؤں کی  الماری کو،  کملیش جو ایک لفظ نہیں۔ ایک مرد ہے، توانا،خوبصورت، امیر، آنکھوں کی چمک من کو چھلنے لگتی ہے۔ گفتگو کا میٹھا اپنائیت بھرا نرم لہجہ چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔ اس سے بچنا،بچ نکلنا…..کبھی کبھی اپنی مدافعت کی طاقت پر بھی حیر ت  ہوتی ہے۔“

          افسانے میں ایک مکھی کو مکڑے کے جالے میں پھنس جانے کو بھی بڑے علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ارچنا جو مکڑے سے نفرت کرتی ہے لیکن اسے گھر سے باہر نکال نہیں پاتی کیونکہ جیتندر اسے منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اُس کا بگاڑتا ہی کیا ہے۔کیا لیتا ہے وہ اپنا شکار ہی تو تلاش کرتا ہے۔اور پھر اس گھر میں مکڑے یا کسی اور جانور کو نہیں مارنا چاہئے جہاں کوئی بڑا مریض ہو۔ارچنا کملیش کے احسان روپی جال میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتی ہے۔اس بات کو بھی افسانہ نگار نے علامتی انداز میں یوں پیش کیا ہے۔

”کملیش کی آنکھوں میں بڑی نرمی ہے۔ممتا وہ پگھلنے لگی ہے، ان آنکھوں میں دیکھنا دیکھتے رہنا مشکل لگتا ہے۔جلدی سے نظر ہٹا کر دیوار کی طرف دیکھتی ہے تو چونک جاتی ہے۔مکڑے کے جال میں ایک مکّھی پھنسی تیزی سے پنکھ چلا رہی ہے۔ کیسے پھنس گئی۔؟ کیسے چھوٹے گی……مگر مکڑے کی آنکھوں میں بڑی نرمی ہے، بڑی ممتا……..آخر کار…….آخرکار……..وہ سہم سی گئی۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔جبھی جیتندر کی آواز نے اُسے گھسیٹ لیا۔ ”لو یہ روپے رکھ کو۔! کملیش روپوں کا بنڈل لئے کھڑا تھا۔وہ گڑ بڑائی، نہیں وہ روپے نہیں لے گی۔کسی دوسرے مردکے ہاتھ سے…….. ”آپ رکھ دیجئےنا تکیہ کے نیچے۔!“

          غرض یہ کہ افسانہ نگار نے مکڑے کی فطرت کوبطور علامت افسانے کے پیرائے میں پیش کر دیا ہے۔مکڑا جو کہ ایک مکروہ کیڑا ہے جس کے چاٹ جانے اور اس کے پیشاب کے لگ جانے سے جسم کے اس حصے پر دانے نکل آتے ہیں۔جو دیکھنے میں بھی بدنما ہو تا ہے اور اس کی فطرت اس سے بھی زیادہ مکروہ ہوتی ہے،جسے افسانہ نگار نے علامتی انداز میں بڑے حُسن اسلوب کے ساتھ پیش کیاہے۔

 گدی ایک جینوئن فنکار تھے۔انہوں نے زندگی کے مختلف رنگ کو اپنے افسانوں میں علامتوں کا سہارا لے کر بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے  فنی افتاد کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ہندی کے ایک ممتاز ادیب کا قول با معنیٰ معلوم ہوتا ہے کہ جو کام مہا شویتا دیوی نے بنگلہ میں کیا ہے،وہی کام الیاس احمد گدی اردو فکشن میں انجام دے رہے تھے  اور اس منزل کی طرف گامزن تھے  جہاں پہنچ کر مہا شویتا دیوی کی امتیازی شناخت بنی،لیکن المیہ یہ ہے کہ الیاس صاحب کا ذریعہ اظہار ’اردو‘ تھی  اور اردو جس بے اعتنائی کا شکار ہے وہی موصوف کے حصّے میں بھی آئی۔ساتھ ہی ان کی زندگی نے بھی ان کے ساتھ کچھ زیادہ وفا نہ کیا آخر کار مگدھ پوری  کا یہ قصّہ گو،  قصّہ گوئی کی محفل سونی کر کے ہورلا ڈیہہ کے قبرستان میں 27/جولائی1997 کو ابدی نیند سو گیا۔