ادبستان

بک ریویو : عصمت چغتائی کے بہانے فکشن تنقیدسے سوال پوچھتی کتاب…؟

بک ریویو: کیا یہ کتاب صحیح معنوں میں عصمت کو زیادہ اور پورے طور پرسمجھاتی ہے،اورجب آپ پطرس بخاری تک کو اپنی کتاب میں شامل کر رہے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ منٹوکی وہ تحریر بھی شامل کریں جو کئی معنوں میں اس کا ردعمل ہے اور پھر منٹو سے زیادہ عصمت کا ہمعصر کون ہوگا بھلا؟

Art Work by Khwaab Tanha Collective

Art Work by Khwaab Tanha Collective

 معروف فکشن نویس عصمت چغتائی کے بارے میں  کچی پکی روشنائی سے خوب لکھا پڑھا گیا ہے۔ہاں یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ کتنے لوگوں کے ہاں  عصمت کی پڑھنت اور نئی پڑھنت قائم ہوئی ؟اس سوال کا جواب اپنے اپنے طور پر دیا جاسکتا ہے اور شاید بہتوں نے دیا بھی ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ اُردو میں جہاں عصمت کو سمجھانے والی تحریروں کی کمی نہیں ہے وہیں ان کو’ لحاف بھر‘ کا افسانہ نگار سمجھ لینے میں بھی ہماری تنقیدکسی پس وپیش کا شکار نہیں ہوتی۔

تنقید کی سیاسی زبان کو  اس میں شامل کر لیں توفیمنزم کے زیر اثر لکھی جانے والی فکشن شعریات کا دیباچہ بن کر بھی عصمت اپنا نام پتہ بتا تی رہتی ہیں۔لیکن ہم اپنے ادبی تحفظات کے باوجود یہ نہیں کہہ سکتے کہ عصمت کو ہمارے ہاں سمجھا ہی نہیں گیا۔دو چار اچھی تنقید آپ کو عصمت کے بارے میں مل ہی جائے گی۔یہ تو تھی اُردو کی بات اور اُردو کی بات اُردو تک محدود نہیں رہی ‘یوں تو محدود کبھی نہیں تھی،لیکن حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نےاین اَن سول وومین(An Uncivil Woman) کے نام سے انگریزی میں عصمت پرایک خوبصورت کتاب شائع کی ہے۔اس کتاب کو’ادبی مؤرخ اور نقاد‘رخشندہ جلیل نے مرتب کیا  ہے،اور ایک تفصیلی مقدمہ بھی لکھا ہے ۔

Ismat Chughtai 2

کتاب میں قرۃ العین حیدر،فیض احمد فیض،کرشن چندر،حسن عسکری،خلیل الرحمن اعظمی،پطرس بخاری،ہاجرہ مسرور،اپیندر ناتھ اشک اورآصف اسلم فرخی کے علاوہ گیتا پٹیل،طاہرہ نقوی،فاطمہ رضوی، کارلو(Carlo Coppola)اورسیدہ ایس حمیدکے مضامین/انٹرویو شامل ہیں ۔اس فہرست سے واضح ہےاکثر مضامین اُردو سے ہی لیے گئے ہیں،لیکن اسی وقت شایدیہ بھی اہم سوال ہے کہ مضامین کے انتخاب میں رخشندہ کی ترجیحات کیا رہی ہیں۔

یہ سوال میں اس لیے بھی پوچھ رہا ہوں کہ یہاں جن ناموں کو درج کیا گیا وہ بالعموم فکشن تنقید کے نمایاں نام نہیں ہیں۔ان ناموں کے پیش نظر کہنے کی جرٲت کررہا ہوں کہ ہماری فکشن تنقید میں ایک آدھ کو چھوڑ کر کوئی بھی اس لیے نہیں پڑھے جاتے کہ انہوں نے باقاعدہ تنقید نہیں لکھی ۔یہی بات اس کتاب کے لیے شاید نہیں کہی جاسکتی تھی ،لیکن رخشندہ نےعصمت کی تفہیم میں ان ناموں کو یوں پیش کیا ہے جیسے عصمت کی تفہیم میں بلکہ تعین قدر میں ان کوخاص اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔اس بات کی وضاحت سے پہلے وہ لکھتی ہیں ؛

Yes, She is a major writer, everyone agrees, yet no one has taken trouble to tell us exactly why and how. Urdu scholarship has been especially niggardly in this respect

پھر یہ بھی کہتی ہیں؛

But there is nothing that comes close to a critical and nuanced reading of Ismat and her works

اوراس دیباچہ کا ماحصل یہ ہے کہ ؛

In Ismat’s centenary, it seemed appropriate to search for critical reading of her by modern scholars as well as some essay by her contemporaries

ان سب کو ملا کر یعنی search for critical readingکے تحت  ان کے لفظوں میں عصمت کو سمجھنے کے لیے اس کتاب میں(More holistic way of ‘seeing’ Ismat) والی بات پیدا ہوگئی ہے۔اس طرح کی باتوں کے درمیان یہ سوال اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے کہ کیا یہ کتاب صحیح معنوں میں عصمت کو زیادہ اور پورے طور پرسمجھاتی ہے۔

اس سوال کے جواب کے پہلے حصے میں اگرآپ قرۃ العین حیدر،فیض احمد فیض اور پطرس بخاری کے مضامین کی بات کریں تو یہ تنقیدی نوعیت کے ہیں بھی نہیں ، اور اگر اضافی طور پر ہاجرہ مسرورکے تاثرات کے علاوہ اپیندر ناتھ اشک بلکہ خلیل الرحمن اعظمی کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہاں عصمت کے فنی نکات سے زیادہ وہ باتیں مل جاتی ہیں جو کسی بھی فن کار کے فنی رتبے کو نمایاں نہیں کرتیں ،ہاں اس کو سمجھنے میں ایک رول ضرور ادا کرتی ہیں ۔

اس طرح چاہیں تو آپ اُردو کے ان مضامین سے جس طرح استفادہ کرتے آئے ہیں کر سکتے ہیں ۔لیکن جب آپ پطرس بخاری تک کو اس میں شامل کر رہے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ سعادت حسن منٹوکی وہ تحریر بھی شامل کریں جو کئی معنوں میں اس کا ردعمل بھی ہے اور پھر منٹو سے زیادہ عصمت کا ہمعصر کون ہوگا بھلا؟میں یہ نہیں کہتا کہ آپ وارث علوی کو بھی شامل کریں یا وزیر آغا کے اس  مضمون کوبھی اس میں جگہ ملنی چاہیے جو انہوں نے ساختیاتی تنقید کے ذیل میں لکھی اور عصمت کے کرداروں کے Prototypeکو بیان کیا ۔

منٹو کا ضمناً ذکر ضرور کیا گیا ہے ،لیکن ان کو شاید اس لیے  شامل نہیں کیا گیا کہ اس نے یہ کہنے کی گستاخی بھی کی کہ ؛

عصمت اگر بالکل عورت نہ ہوتی تو اس کے مجموعوں میں بھول بھلیاں ،تل،لحاف اور گیندا جیسے نازک اور ملائم افسانے کبھی نظر نہ آتے ۔یہ افسانے عورت کی مختلف ادائیں ہیں۔صاف شفاف ،ہر قسم کے تصنع سے پاک۔

اور رخشندہ نے تو اپنی کتاب میں کرشن چندر کی عیب جوئی بھی اس لیے کی ہے کہ انہوں نے بقول صاحب کتاب عصمت کو ایک عورت بلکہ عورت محض سے الگ فکشن نویس کے طور پر نہیں دیکھا ۔رخشندہ اپنی اس بات کے پس پردہ پوری اُردو تنقید کو لعن طعن کرتی ہیں کہ ؛

There has been a tendency among Urdu critics to be not quite balance about Ismat and to be either dismissive or indulgent towards her

جب جزوی صداقت ہی سب بڑی حقیقت بن جائے تو لازم ہے کہ منٹو کے کہے کی داخلی صداقت کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔پھریہ کون جاننا چاہتا ہے کہ  کرشن چندر پر  دھرا گیا الزام بھی کتنا درست ہے؟ہاں یہ صحیح ہے کہ عصمت کو سمجھا کم گیا اورسمجھایا زیادہ گیا ،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پوری اُردو تنقید ایک ہی لکیر کو پیٹتی آئی ہے۔ویسے بات تو یہ بھی ہے کہ عصمت نے ایک سوال کے جواب میں بڑی بے باکی سے کہا تھا کہ ؛

سچ بولنے کی خواہش میں؛ میں نے جنس پر پر لکھا اوراگر کوئی ان موضوعات پر لکھ سکتا تھا تو مرد ہی لکھ سکتے تھے لیکن میں نے ایک عورت ہوکر لکھا اور وہ بھی مسلمان عورت ہوکر۔

فوٹو:جگدیش چندر ودھاون/عصمت چغتائی شخصیت اور فن

فوٹو:جگدیش چندر ودھاون/عصمت چغتائی شخصیت اور فن

پھر جب آپ کو یہ بھی شکایت ہے کہ سردار جعفری نے عصمت کی جنس نگاری کو مریضانہ قرار دیتے ہوئے مضمون لکھا تو آپ ان باتوں کی تردید میں بھی ایک مضمون لکھ سکتی تھیں اورکیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کا مضمون ہی شامل کر لیا جاتا۔حالاں کہ کتاب میں شامل اور ناموں کی طرح سردار جعفری کے بارے میں بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ کیا وہ فکشن تنقید میں اہمیت رکھتے ہیں۔

پیش نظر کتاب میں ہمارے زمانے کی اہم فکشن نویس ذکیہ مشہدی کی تحریربھی  شامل ہوسکتی تھیں ‘مظہر امام کے زبان والے مضمون(عصمت چغتائی زبان کی افسانہ نگار) کا نام شعوری طور پر نہیں لے رہا کہ یہاں اچھے اچھوں کی تحریر قابل اعتنا نہیں ٹھہری ،اس لیے اگر آپ کو اس کتاب میں محمد حسن ،شمیم حنفی ،فہیم اعظمی ،فضیل جعفری ،شارب ردولوی اور ابوالکلام قاسمی وغیرہ کے مضامین کی تلاش ہے تو پھر آپ کے لیے اُردو والی کتابیں ہی ٹھیک ہے ۔

یوں کہہ لیجیے کہ رخشندہ اُردو کی فکشن تنقید سے اُردو والوں سے زیادہ بد گمان نظر آتی ہیں۔اس لیے ان کو Monochromatic Viewکا جواب گیتا پٹیل ،طاہرہ نقوی ،سیدہ ایس حمید اور فاطمہ رضوی کےہاں نظر آیا۔

اس کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جس میں رخشندہ عصمت کی اپنی پڑھنت کو پیش کرتی  ہیں اور بتاتی ہیں کہ انہوں نے کب کب عصمت کو پڑھا اور برسوں کی ریاضت میں عصمت نے ان کو کس طرح متاثر کیا ۔

اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ جو خاص نکات ہیں وہ یوں ہیں کہ ؛

…Inequality, injustice, exploitation, as well as her all-embracing love for Hindustan, its people and culture, its festival, and the rites and rituals of its people

رخشندہ نے عصمت مطالعات میں اس دریافت کے ساتھ یہ عذرپیش کیا ہے کہ عصمت کے اسلوب پر اس کتاب میں کوئی مضمون شامل نہیں ہے۔میں اس کو عذر بھی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ  اگر واقعی عصمت کے اسلوب پر کوئی مضمون مرتب کے نقطہ نظر سے  دستیاب نہیں تھاتو اس ضمن میں ایک مضمون خود ان کو لکھنا چاہیے تھا ۔ آپ ہمیشہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ اُردو میں تنقید ایسی ہے  ویسی ہےیا غیر متوازن ہے۔یہاں یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔کل ملا کر یہ کتاب انگریزی پڑھنے والوں کے لیے اچھی ہو سکتی ہے اور اُردو والوں کے لیے یوں اہمیت نہیں رکھتی کہ اس میں نئے دانشوروں کی شمولیت نے بھی کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ۔

کتاب کی تزئین کی بات کریں تو اس میں فلیپ پر بعض ایسی باتوں کو پیش کیا گیا ہے جو اُردو کے عشق میں دوسری زبانوں کے پڑھنے والوں کو لبھا سکے ،بس ایک مثال آپ بھی ملاحظہ فرمالیں؛

Ismat Chughtai, the Grand Doyenne of Urdu fiction, the woman who married a film director, who wrote screenplays and made films, who cooked up a storm for friends and family with the same gusto as she wrote bold, uninhibited, and memorable fiction…

235صفحات پر مشتمل یہ کتاب 550روپے میں دستیاب ہے ،اور قوی امید ہے کہ عصمت کے تعین قدر اورمرتب کے تنقیدی اپروچ سے الگ غیر اُردو داں طبقے کو یہ اپنی خاص طرح کی پیشکش کی وجہ سے پسند آئے گی ۔