فکر و نظر

رویش کا بلاگ : یہ زہر آپ کے بچوں کو خونی بنا دے‌گا…

فرقہ پرستی سے اس لئے مت لڑئیے کہ کانگریس بی جے پی کرنا ہے۔ یہ پارٹیاں یا تو خاموش رہ‌کر فرقہ پرستی پھیلاتی ہیں یا پھر کھلےعام۔ ان کے آنے جانے سے یہ لڑائی کبھی انجام تک نہیں پہنچتی ہے۔

آئی ایس ٹاپر ٹینا ڈابی اور اختر عامر خان کی دعوت  میں مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد بھی شامل ہوئے۔

آئی ایس ٹاپر ٹینا ڈابی اور اختر عامر خان کی دعوت  میں مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد بھی شامل ہوئے۔

گزشتہ سال مئی میں ریپبلک چینل پر حیدر آباد سے ایک اسٹنگ چلا تھا۔ آپ یو ٹیوب پر اس کی ڈبیٹ نکال‌کر دیکھیے، سر پھٹ جائے‌گا۔ اسٹنگ میں تین لڑکوں کو آئی ایس آئی کے لئے کام کرنے والا بتایا گیا تھا۔جب پولیس نے غدار وطن کا مقدمہ درج کیا تھا تب اس کو چینل نے اپنی کامیابی کے طور پر  پیش کیا ہی ہوگا۔ لیکن انڈین ایکسپریس کے صفحہ نمبر 8 پر خبر ہے کہ چینل نے اسٹنگ کے اوریجنل ٹیپ نہیں دئے۔ اس لئے پولیس کیس بند کرنے جا رہی ہے۔جبکہ ایکسپریس کے مطابق اس اسٹنگ میں تینوں لڑکے مبینہ طور پر سیریا نہ جانے پر یہیں  کچھ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ راشٹر واد  کا اتنا فرضی واڑا کرنے کے بعد آخر چینل نے ٹیپ کیوں نہیں دیا تاکہ ان کو سزا مل سکے؟ مگر اسٹوری کے آخر میں ریپبلک ٹی وی کا بیان چھپا ہے جس میں چینل نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کی طرف سے بغیر ایڈٹ  کیے ٹیپ نہیں دئے گئے۔

ری  پبلک ٹی وی تو خم ٹھونک‌کر بول رہا ہے کہ سارے ٹیپ پولیس  کو دے دئے گئے  تھے ۔ پولیس  چیف موہنتی کا بیان شائع ہوا  ہے کہ چینل کی طرف سے ایڈٹ فوٹیج دئے گئے ہیں۔ اب کسی کو تو فیصلہ کرنا چاہیے  کہ دونوں میں سے کون صحیح بول رہا ہے۔ کیا اس میں پریس کاؤنسل آف انڈیا کا کوئی رول ہے؟پوری دنیا کے سامنے عبداللہ باسط، عبدالحنّان قریشی اور سلمان کو دہشت گرد کے طور پر  پیش کیا گیا۔ ان تینوں کی فیملی پر کیا بیتی ہوگی اور آپ یہ ڈبیٹ دیکھتے ہوئے کتنے خونی اور فرقہ پرست ہوئے ہوں‌گے کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں، ویسے ہوتے ہیں۔

ایس آئی ٹی نے ریپبلک چینل کے اس اسٹنگ پر ان تینوں کو پوچھ تاچھ کے لئے بلایا تھا اور مقدمہ کیا تھا۔ آپ  انڈین ایکسپریس میں پوری اسٹوری پڑھ سکتے ہیں۔ 2015 بیچ کی آئی ایس ٹاپر ڈابی اور اختر عامر خان کو مبارکباد۔ اس دور میں اس ہندومسلم شادی کی تصویر مثال سے کم نہیں ہے۔ دہلی  میں دونوں نے دعوت کا انعقاد کیا جس میں ملک کے نائب صدر وینکیا نائیڈو بھی آئے اور قانون وزیر روی شنکر پرساد بھی۔ لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن بھی تھیں۔کبھی روی شنکر پرساد کے پرانے بیان نکالیے، وہ کہا کرتے تھے کہ لو جہاد کے نام پر دہشت گرد ی کی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ سنگھ کے ترجمان لو جہاد کو لےکر ایک سے ایک تھیوری پیش کرتے تھے۔ ٹی وی چینلوں نے اس پر لگاتار بحث کر کے  عوام کی ذہنیت کو خونی اور فرقہ وارانہ ذہنیت میں بدل دیا اور اب ان کے رہنما ہندو مسلم شادی میں گھوم گھوم کر آلو دم اور پوڑی کھا رہے ہیں۔ سماج کو زہر دےکر، خود رس گُلا چانپ رہے ہیں۔

ہادیہ پر کیا بیتی ہوگی؟ اکیلی لڑکی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی  سے لےکر گودی میڈیا کی فرقہ پرستی سے لڑ گئی۔ ہادیہ اس وقت محبت کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس کا قد لیلا مجنوں سے بھی اوپر ہے۔ اس ہادیہ کو لےکر مدعا گرمانے میں کس کا فائدہ ہوا۔ آپ جانتے ہیں۔ غریب ہادیہ خود سے لڑ گئی۔ عزت دار عامر اور ڈابی نے ان لوگوں کو بلاکر کھانا کھلایا۔ فوٹو کھنچایا ۔ لو جہاد ایک فوکٹ مدعا تھا آپ کو کچھ قتل کی حمایت میں کھڑا کرنے کے لئے۔

یہ بھی پڑھیں :ہم ناکام اور ڈرپوک عاشقوں کے سماج میں رہتے رہتے قاتل بن چکے ہیں

اس عمل میں لو جہاد کے نام پر آپ ناظر الو بنے ہیں۔ 2014 سے 2018 تک ٹی وی پر ہندو مسلم ڈبیٹ چلا ہے۔ بی جے پی کے بڑے رہنما اب اچھی امیج بنا رہے ہیں۔ ہندو مسلم شادی کو قبول کر رہے ہیں۔ اس کے لئے ان کو مبارکباد۔ اس لو جہاد کی وجہ سے لاکھوں ناظرین میں ایک کمیونٹی کے تئیں ڈر کو بڑھایا گیا اور آپ بھی قاتل ہوتی سیاست کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ان چار سالوں میں آپ حزب مخالف کے کردار  کو دیکھیے ۔ لگتا تھا کاٹھ مار گیا ہو۔ کبھی کھل کر سامنے نہیں آیا۔ حزب مخالف بھی ہندو فرقہ پرستی کے اس بڑے سے کیک سے چھوٹا ٹکڑا اٹھاکر کھانے کے فراق میں تھا۔ کانگریس کی تو بولتی بند ہو گئی تھی۔ ابھی بھی کانگریس نے کٹھوا ریپ  متاثرہ کے ملزمین کو بچانے والوں کو پارٹی سے نہیں نکالا ہے۔ کانگریس نے کبھی فرقہ پرستی سے ایمانداری سے نہیں لڑا۔ نہ باہر نہ اپنے اندر۔

فرقہ پرستی سے اس لئے مت لڑئیے کہ کانگریس بی جے پی کرنا ہے۔ ان کے آنے جانے سے یہ لڑائی کبھی انجام پر نہیں پہنچتی ہے۔ ہندوستان اس خستہ حال مسئلے پر اور کتنے انتخابات برباد کرے‌گا۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے ہی شہریوں کی ایک مذہبی کمیونٹی کی سیاسی نمائندگی ختم کر دی گئی۔ مسلمانوں کو ٹکٹ دینا گناہ ہو گیا ہے۔ ایسے میں آپ اس لڑائی کے لئے کیوں اور کس پر بھروسا کر رہے ہیں؟بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعت کے اندر فرقہ وارانہ مدعوں کے لئے اسلحہ  رکھے ہیں۔ یا تو وہ خاموش رہ‌کر فرقہ پرستی پھیلاتے  ہیں یا پھر کھلےعام۔ بہار کے اورنگ آباد میں کانگریسی ایم ایل اے کا رول  سامنے آیا ۔ ابھی تک پارٹی نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

کیا پارٹی نے اپنی حالت صاف کی ہے؟ میں خبروں میں کم رہتا ہوں، آپ بتائیے‌گا، ایسا ہوا ہے تو۔ اتراکھنڈ کے اگستیہ منی میں افواہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی دکانیں جلا دی گئیں۔ کیا کانگریس اور بی جے پی کا رہنما گیا، اس بھیڑ کے خلاف؟ جبکہ وہیں کے ہندو دکانداروں نے آگ بجھانے میں مدد کی۔ کل ملاکر زمین پر فرقہ پرستی سے کوئی نہیں لڑ رہا ہے۔اس لئے آپ فرقہ پرستی سے لڑئیے کیونکہ اس میں آپ مارے جاتے ہیں۔ آپ کے گھر جلتے ہیں۔ اس زہر کا پتا لگاتے رہیے  اور کہیں بھی کسی بھی رہنما میں، پارٹی میں اس کے عناصر دکھے، آپ اس کی مخالفت کیجئے۔

یہ زہر آپ کے بچوں کو خونی بنا دے‌گا۔ چاہے آپ ہندو ہیں یا مسلمان۔ اگر آپ نے دونوں جماعتوں کے اندر فرقہ وارانہ بھیڑ یا ذہنیت بننے دی ، انتخابی ہار جیت‌کے نام پر برداشت کیا، اس پر خاموش رہے تو یہ بھیڑ ایک دن آپ کو بھی کھینچ‌کر لے جائے‌گی۔ آپ کو مار دینے کے لئے یا پھر آپ کا استعمال کسی کو مار دینے میں کرنے کے لئے۔