خبریں

آٹھ سالہ بچی کے ساتھ وحشیانہ حرکت یہ دکھاتی ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں

وزیر اعظم کے نام لکھے ایک خط میں ریٹائرڈ نوکرشاہوں نے کہا ہے کہ یہ خط صرف اجتماعی شرم یا اپنی تکلیف کو آواز دینے کے لئے نہیں بلکہ سماجی زندگی میں زبردستی پیدا کی گئی نفرت اورتقسیم کے ایجنڈے  کے خلاف لکھا گیا ہے۔

نریندر مودی /فائل فوٹو : رائٹرس

نریندر مودی /فائل فوٹو : رائٹرس

عزت مآب  وزیر اعظم،

ہم سرکاری خدمات سے سبکدوش سابق افسروں کا ایک گروپ ہیں جو ہندوستانی آئین میں موجود سیکولر، جمہوری، اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ پر تشویش کا اظہار کرنے کے لئے گزشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے۔ایسا کرکے ہم مزاحمت کی ان دوسری  آوازوں سے جڑے جو سرکاری نظام کے اسپانسرڈ نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوفناک ماحول کے خلاف اٹھ رہی تھی۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا، دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے جڑے ہیں، نہ ہی کسی سیاسی نظریہ کے پیروکار ہیں سوائے ان قدروں کے جو آئین میں موجود  ہیں۔

کیونکہ آپ نے آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، ہم پرامید تھے کہ آپ کی حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور سیاسی جماعت جس کے آپ ممبر ہیں، اس خطرناک رجحان کی جانکاری لیں‌گے، پھیلتی سڑاند کو روکنے میں ایک قا ئدکا رول ادا کریں‌گے اور سب کو بھروسہ دلائیں‌گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کو لےکر بے خوف رہیں۔ یہ امید مٹ چکی ہے۔ اس کے بجائے، کٹھوا اور اناؤ کے حادثات کی ناقابل بیان دہشت بتاتی ہے کہ حکومت عوام کے ذریعے دئے گئے اپنے بنیادی فرائض کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

ایک ملک کے طور پر  جس کو اپنی اخلاقی روحانی اور ثقافتی وراثت پر فخر رہا ہے اور ایک سماج کے طور پر  جس نے اپنی تہذیبی رواداری، رحم اور ہمدردی کی قدروں کو سنبھال‌کر رکھا ہے، ہم سب ناکام رہے ہیں۔ ہندوؤں کے نام پر ایک انسان کے لیے ایک دوسرے  جانور جیسی بےرحمی کو پال کر ہماری انسانیت شرمسارہو رہی ہے۔ ایک آٹھ سال کی بچی کے وحشیانہ طور پر  ریپ  اور قتل کا واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم کمینگی کی کن گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیرا ہے جس میں ہم پاتے ہیں کہ ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا رد عمل ناکافی اور ڈھیلا رہا ہے۔ اس مقام پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکاتے ہیں۔

ہماری شرم اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے  ہیں کہ ہمارے کچھ جوان دوست بھی جو ابھی بھی حکومت میں ہیں، بالخصوص وہ جو ضلعوں میں کام کر رہے ہیں اور قانوناً دلت اور کمزور لوگوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے پرعزم ہیں، اپنا فرض  نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ عزت مآب ، ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم منانے کے لئے نہیں لکھ رہے ہیں۔ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے، تقسیم اور نفرت کے اس ایجنڈے  کے خلاف، جو آپ کی پارٹی اور اس کی بےشمار وقت بےوقت پیدا ہوتے معروف ،غیر معروف اداروں  نے ہماری سیاسی  قواعد میں، ہماری ثقافتی سماجی زندگی اور روز مرہ  میں  شامل کر دیا  ہے۔

اسی سے کٹھوا اور اناؤ کو سماجی حمایت حاصل ہوتی اور جواز ملتا ہے۔ کٹھوا میں، سنگھ کے ذریعے پر جوش اکثریت  کی جارحیت اوران  کی بداخلاقی نے فرقہ وارانہ وحشی عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ وہ جانتے تھے ان کی بداخلاقی کوان  سیاست دانوں کی حمایت حاصل  رہے‌گی جنہوں نے خود ہندو مسلمانوں کا پولرائزیشن کر کے اور ان میں پھوٹ ڈال‌کر اپنی سیاست  میں اضافہ کیا ہے۔ وہی اناؤ میں سب سے گھٹیا پدری سماج ، سامنتی مافیا غنڈوں پر ووٹ اور سیاسی اقتدار کھینچنے کے لئے انحصار کے باعث، ان لوگوں کو  ریپ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کی آزادی اپنی ذاتی طاقت کو جمانے اور پھیلانے کے لئے ملی ہے۔

لیکن اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ  اور اس کی فیملی کے، بجائے مبینہ ملزم کی پشت پناہی  ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب ہو چلا ہے۔ یوپی ریاستی حکومت نے تبھی کچھ کیا جب عدالت نے اس کو مجبور کیا، جس سے اس کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔دونوں معاملوں کی ریاستوں میں، وزیر اعظم، آپ کی حکمراں جماعت ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری، آپ اور آپ کی جماعت کے صدر مرکزی کنٹرول کی وجہ، اس خوفناک صورتحال کے لئے کسی اور سے زیادہ آپ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

اس سچائی کو منظور کرنے اور معاوضہ دینے کے بجائے آپ کل تک خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی تب ٹوٹی جب ملک اور غیرملک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا جس کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔تب بھی حالانکہ آپ نے بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار کر دیا ہے، آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی ہے ؛ نہ ہی آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدل ڈالنے کا عزم لیا ہے جن کے تلے فرقہ وارانہ نفرت پھلتی پھولتی ہے۔

ہم ان مؤخر ڈانٹ پھٹکار اور انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جبکہ سنگھ پریوار کے سایہ میں پلنے والے رنگ دار فرقہ وارانہ ہانڈی کو لگاتار ابال پر رکھ رہے ہیں۔وزیر اعظم، یہ دو حادثے محض معمولی جرم نہیں ہیں جہاں گزرتے وقت کے ساتھ  ہمارے سماجی چادر کے داغ دھل جائیں‌گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں‌گے، اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے‌گی۔یہ ہمارے وجود پر آئے بحران کا پل، ایک موڑ ہے-حکومت کا رد عمل طے کرے‌گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر آئے بحران سے نمٹنے کے اہل ہیں، وقتی طور پر ہم آپ کو آواز دیتے ہیں کہ آپ درج ذیل کارروائی کریں :

اناؤ اور کٹھوا کے متاثر ین تک پہنچ‌کر ان سے ہم سب کی طرف سے معافی مانگیں۔

کٹھوا معاملے میں فوری استغاثہ کروائیں اور اناؤ معاملے میں بنا حیل وحوالہ کئے عدالت کے گائیڈ لائن کے مطابق  اسپیشل جانچ ایجنسی کی تشکیل کریں۔

ان بھولےبھالے بچوں اور نفرت جرائم کے دوسرے شکارلوگوں کی یاد میں دوبارہ پُرعزم ہوں کہ مسلمان، دلت، دیگر اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی تحفظ اور بھروسہ دیا جائے‌گاتاکہ وہ اپنی جان ومال اور شہری آزادی کے لئے بے خوف رہیں ؛ اور ان پر کسی قسم کے خطروں کو حکومت پوری طاقت سے ختم کر دے‌گی۔

حکومت سے ان تمام لوگوں کو برخاست کیا جائے جو ہیٹ کرائم اور نفرت آمیز تقریروں سے جڑے رہے ہیں۔

ہیٹ کرائم سے سماجی، سیاسی اور انتظامی طور پر نمٹنے پر گفتگو کے لئے ایک کل جماعتی اجلاس بلائیں۔

ممکن ہے کہ یہ دیر آید درست آید نہ ہو، پر اس سے نظام کچھ تو دوبارہ قائم ہوگا اور بھروسہ ملے‌گا کہ بدنظمی اور مسلسل گراوٹ کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم پرامید ہیں۔