گراؤنڈ رپورٹ

بھارت بند: گوالیار میں مارے گئے دلتوں کی فیملی کو اب تک انصاف کا انتظار

گوالیار سے گراؤنڈ رپورٹ : راکیش ٹموٹیا اور دیپک جاٹو کی موت دو اپریل کو ‘ بھارت بند ‘ کے دوران ہوئے دنگے میں گولی لگنے سے ہو گئی تھی۔

گوالیار میں دلت کمیونٹی کی طرف سے دو اپریل کو بلائے گئے بھارت بند کے دوران مارے گئے راکیش ٹموٹیا اور دیپک جاٹو۔ (فوٹو : سوربھ ارورا / دیپک گوسوامی)

گوالیار میں دلت کمیونٹی کی طرف سے دو اپریل کو بلائے گئے بھارت بند کے دوران مارے گئے راکیش ٹموٹیا اور دیپک جاٹو۔ (فوٹو : سوربھ ارورا / دیپک گوسوامی)

دو اپریل کی صبح راکیش ٹموٹیا اور ان کی فیملی کے لئے کسی عام صبح کی طرح ہی تھی۔ مدھیہ پردیش کے گوالیار ضلع‎ کے تھاٹی پور علاقے میں بھیم نگر محلہ میں رہنے والا پیشے سے مزدور اور تین بچوں کے والد راکیش صبح کے تقریباً نو بجے کام کی تلاش میں گھر سے نکل چکے تھے۔اس کے بعد قریب سوا 11 بجے ایک جوان بھاگتا ہوا راکیش کے گھر پہنچا۔ اس وقت راکیش کی ماں، والد نیت رام سمیت راکیش کے بچے گھر کے باہری حصے میں ہی بیٹھے تھے۔ جوان نے جو بتایا اس کے بعد نیت رام، راکیش کے دونوں بیٹوں راجا اور پنکج کو لےکر بدحواسی میں باہر کی طرف بھاگے۔

بھیم نگر کے اندرونی حصے میں ایک چھوٹی پہاڑی پر تنگ گلی میں بنے راکیش کا مٹی پتھر کے مکان میں اس وقت چیخ پکار مچ رہی تھی۔اسی وقت راکیش کے بڑے بھائی لاکھن سنگھ ٹموٹیا، جو ایک فارما کمپنی میں یومیہ پیکنگ کا کام کرتے ہیں، ان کا بھی فون بجا، ان سے جو کہا گیا اس کو سن‌کر وہ بھی اپنا کام چھوڑ‌کر بدحواسی میں کہیں بھاگ نکلے۔سب کی منزل ایک ہی تھی، بھیم نگر کے باہر تھاٹی پور کے مین روڈ  کا وہ چوراہا جس کو لیبر چوک‌کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں شہر بھر‌کے مزدور کام کی تلاش میں صبح سے جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

نیت رام جب راجا اور پنکج کے ساتھ لیبر چوک پہنچے تو وہاں سینکڑوں لوگوں کا ہجوم گھیرا بنائے کھڑا تھا۔ اور ہرطرف بس پولیس کا پہرا تھا۔80 سالہ نیت رام اس بھیڑ کے گھیرا کو توڑ‌کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگے لیکن ان کے لئے یہ آسان نہیں تھا۔ پر راکیش کا بڑا بیٹا 14 سالہ راجا ضرور بھیڑ میں سے جگہ بناکر وہاں تک پہنچ گیا تھا، جہاں خون میں تربتر راکیش کی لاش سڑک پر پڑی تھی۔سپریم کورٹ کے ذریعے ایس سی ایس ٹی  ایکٹ میں کئے گئے ترمیم کے خلاف دو اپریل کو بلائے ‘ بھارت بند ‘ کے دوران ہوئے تشدد میں سینے میں گولی لگنے سے راکیش کی موت ہو چکی تھی۔نیت رام بتاتے ہیں، ‘ جب میں پہنچا تو راجا اپنے کپڑوں سے راکیش کے چہرے پر لگا خون صاف کر رہا تھا۔ میں پہنچتا اس سے پہلے ہی ایک گاڑی آئی اور اس کی لاش اٹھاکر ہسپتال لے گئی۔ ‘

راکیش کا بڑا بھائی لاکھن سنگھ جاٹو بتاتے ہیں، ‘ راکیش کام کی تلاش میں ہر روز لیبر چوک ہی جاتا تھا۔ سب مزدور وہیں اکٹھا ہوتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور ان کو اپنے یہاں مزدوری کرانے لے جاتے ہیں۔ وہیں سے راکیش کو روزگار ملتا تھا۔ دو اپریل کی صبح وہ بولا کہ لگتا ہے کہ ‘ بھارت بند ‘ کی وجہ سے آج شاید کام نہیں ملے‌گا، اس لئے ٹفن نہیں لے جا رہا ہوں، بس چار پراٹھے ہری مرچ کے ساتھ پالی تھین میں لپیٹ‌کر رکھ دو۔ کام مل جائے‌گا تو چلا جاؤں‌گا، ورنہ گھر واپس آ جاؤں‌گا۔ ‘

لیکن راکیش اس دن واپس گھر نہیں پہنچے، گھر پہنچی تو ان کی موت کی خبر۔اس تشدد کے دوران گوالیار میں اپنی جان گنوانے والا راکیش اکیلا نہیں تھا۔ ایک جان اور گئی تھی، 22 سالہ دیپک جاٹو کی۔ موہن جاٹو کے تین لڑکوں میں سب سے چھوٹا دیپک آٹو چلایا کرتا تھا۔ ان کے بڑے بھائی راجیندر جاٹو کے مطابق آٹو چلانے کے ساتھ ساتھ وہ خالی وقت میں ان کی چائے کے ٹھیلے پر بھی ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔

دیپک کی جس دن گولی لگنے سے موت ہوئی، اس دن وہ تھاٹی پور علاقہ کے کمہارپورا کے غلہ گودام واقع اپنے گھر پر ہی تھا، ان کا گھر تھاٹی پور کے مین روڈ  سے قریب 200-300 میٹر اندر گلی میں ہے۔ دیپک جاٹو کو جب گولی لگی تو وہ گھر پر ہی موجود تھا۔بقول سچن، ‘ بھارت بند ‘ والے دن دیپک اور وہ گھر سے تھوڑا آگے ہی چوک میں بنے ایک چبوترہ پر کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تبھی ان کے والد آئے اور بولے کہ فسادیوں نے ہماری چائے کا ٹھیلا پلٹ دیا ہے۔

دیپک جاٹو کی تصویر کے ساتھ والد موہن جاٹو (کالی ٹی شرٹ میں) اور دوسرے لوگ (فوٹو : دیپک گوسوامی)

دیپک جاٹو کی تصویر کے ساتھ والد موہن جاٹو (کالی ٹی شرٹ میں) اور دوسرے لوگ (فوٹو : دیپک گوسوامی)

سچن بتاتے ہیں، ‘ جب پاپا نے کہا کہ ہمارا ٹھیلا پلٹ دیا تو میں اور دیپک ان کے ساتھ وہاں گیا۔ پاپا نے کہا کہ ہڑتال کا وقت ہے کسی سے کچھ مت کہنا۔ ‘سچن آگے بتاتے ہیں کہ فسادی ان کی بستی میں حملہ کرنے آئے تھے۔ سبھی لاٹھی ڈنڈے اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اسی افرا تفری میں پاپا ادھر ادھر ہو گئے، دیپک وہیں کھڑا رہا۔ وہ پتھر پھینک رہاتھا، سب پر حملہ کر رہاتھا۔ میں گلی کے اندر کی طرف بھاگا۔ پھر سڑک کی طرف سے فائرنگ کرتے ہوئے کچھ لوگ آئے۔ ‘آگے وہ جو بتاتے ہیں اگر اس پر یقین کیا جائے تو وہ چونکانے والا ہی نہیں، بلکہ مقامی پولیس اور انتظامیہ کے طریقہ کار پر سنگین سوال بھی کھڑا کرتا ہے۔

سچن کہتے ہیں، ‘ فائرنگ کرتے ہوئے جب وہ لوگ اندر گھسے تو اس بھیڑ کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ جب فسادی فائرنگ کر رہے تھے تب پولیس سامنے ہی کھڑی تھی۔ پولیس نے اس دوران آنسو گیس کے تین گولے بھی پھینکے، جس سے ہماری آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ کچھ بھی دکھنا ناممکن ہو گیا۔ اس کا فائدہ اٹھاکر وہ لوگوں پر لاٹھی اور ڈنڈوں کےعلاوہ دیگر ہتھیاروں سے حملہ کرنے لگے، جس سے لوگ تتربتر ہو گئے۔ اسی دوران ہم تو گلی میں اندر بھاگ گئے، دیپک کہیں بچھڑ گیا۔ ‘

لیکن، تب نہ تو سچن کو پتا تھا اور نہ ہی ان کے والد موہن اور دیگر کسی کو کہ افراتفری میں بچھڑا دیپک گولی باری کا شکار بن‌کر ہمیشہ کے لئے ان سے بچھڑ چکا ہے۔خود کو معاملے کا چشم دید بتانے والے رمیش کنوجیا بھی کچھ ایسا ہی کہتے ہیں، ‘ گولی چلانے والوں پر تو پولیس کوئی کارروائی کر نہیں رہی تھی، الٹا آنسو گیس کے گولے ہماری طرف پھینکے جا رہے تھے۔ اب ہمارے ہی بچوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج رہے ہیں۔ نابالغ بچوں کو بھی نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ ‘غور طلب ہے کہ کمہارپورا بستی دلت اکثریتی علاقہ مانا جاتا ہے۔ چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ گولی چلانے والے اشرافیہ تھے جن کو دلتوں کے ذریعے بلائے گئے ‘ بھارت بند ‘ سے اعتراض تھا۔

صرف دیپک ہی نہیں، راکیش کی موت بھی ‘ بھارت بند ‘ سے اعتراض رکھنے والی کمیونٹی کی گولی سے ہوئی ۔بتایا جا رہا ہےکہ  اس تعلق میں گوالیار پولیس نے کئی گرفتاریاں بھی کی ہیں، جن میں گولی چلانے والے تمام ملزم اعلی ذاتی کمیونٹی سے آتے ہیں۔گوالیار شہر کے ‘ بھارت بند ‘ کے جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں ان میں بھی گولی چلانے والے لوگ ‘ بھارت بند ‘ حامی نہیں، بلکہ ‘ بھارت بند ‘ مخالف ہیں۔ جن کی پہچان بھی ہو گئی ہے اور پولیس نے ان پر معاملے بھی درج کر لئے ہیں۔

اس معاملےمیں کئی لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ قبول بھی کیا ہے کہ انہوں نے گولیاں چلائیں۔لیکن، سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ایسی نوبت آئی کہ ایس سی / ایس ٹی کمیونٹی کا اپنے حق کی مانگ کے لئے بلایا گیا ‘ بھارت بند ‘ کمیونٹی جدو جہد میں تبدیل ہو گیا؟

رمیش کنوجیا، جو کمہارپورا کے غلہ گودام میں ہی رہتے ہیں، کہتے ہیں، ‘ حقیقت میں ایسا اس لئے ہوا کہ ہمارے سامنے ٹھاکر سماج سے تعلق رکھنے والے اشرافیہ  رہتے ہیں۔ اس دن ان کا اپنے گھر کے باہر ہجوم تھا۔ تبھی دو بائیک سوار جوان آئے، انہوں نے وہاں آکر ‘ جئے بھیم ‘ کے نعرے لگائے۔ یہ بات اشرافیہ کو راس نہیں آئی۔ انہوں نے جوانوں کو روک‌کر پیٹنا شروع کر دیا اور بائیک میں آگ لگا دی۔ جوان چونکہ ہماری ہی گلی میں بھاگ‌کر آئے، اس لئے ان کے پیچھے بندوقیں لےکر وہ بھی آ گئے۔ ‘

راکیش ٹموٹیا کے ماں باپ، بیوی اور بچے (فوٹو : سوربھ ارورا)

راکیش ٹموٹیا کے ماں باپ، بیوی اور بچے (فوٹو : سوربھ ارورا)

دیپک کے چاچا رام اوتار جاٹو بتاتے ہیں، ‘ میں بھی گھر کے پاس ہی تھا۔ سڑک سے کافی لوگ ‘ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے محلے میں گھس آئے۔ کم سے کم وہ 100-200 لوگوں کی بھیڑ رہی ہوگی۔ ہم لوگ سمجھ بھی نہیں پائے کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیوں کہ وہ ادھر آ رہے ہیں؟ پھر انہوں نے پتھر برسائے اور گولیاں چلائیں۔ افراتفری مچ گئی۔ ایک گولی پاس ہی بندھے بیل کے پیٹ میں لگی۔ دوسری گولی آکر ہمارے محلے کے ایک لڑکے کی جانگھ میں لگی۔ ‘

دیپک کے والد موہن جاٹو کہتے ہیں، ‘ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دیپک ‘ بھارت بند ‘ حامیوں کی فسادی بھیڑ میں شامل تھا۔ ہمارا لڑکا کسی دنگا فساد میں شامل نہیں تھا، وہ تو اپنے گھر پر تھا، میرے ساتھ، اپنی ماں کے ساتھ۔ پھر بھیڑ کی بھیڑ آئی، نہیں پتا کہ کتنے آدمی تھے، اس وقت بس ہمیں تو اپنی جان بچانے کی پڑی تھی۔ ‘

حالانکہ دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ گولہ باری انہوں نے ‘ بھارت بند ‘ حامیوں کے ذریعے ان کے گھروں پر کئے جا رہے پتھراو اور ان کے گھر میں گھسنے کی کوششوں کو ناکام کرنے کے لئے خودکی دفاع میں کی۔ لیکن جب ‘ دی وائر ‘ نے دوسرے فریق سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔بہر حال، متاثر ین کے لئے انتظامیہ کی طرف سے معاوضے کا تو اعلان کیا گیا ہے لیکن وہ کب ملے‌گا، یہ طے نہ ہونے سے میت کے رشتہ داروں میں غصہ ہے۔

رام اوتار جاٹو کہتے ہیں، ‘ معاوضے کی بات کریں تو پوسٹ مارٹم ہاؤس پر پولیس اور انتظامیہ کے بڑے افسروں نے یقین دہانی دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کو چار لاکھ روپے کی مالی مدد فراہم کی جائے گی اور قصورواروں کے خلاف ایف آئی آر بھی کریں‌گے۔ لیکن، ابتک کچھ نہیں ہوا۔ ہاں، دوسرے دن کلکٹریٹ سے ضرور ایک آدمی ہمارا بینک کھاتا مانگنے آیا تھا۔ اس کو کھاتا نمبر، آدھار نمبر سب دے دیا، لیکن اب تک کھاتے میں ایک چونی تک نہیں آئی ہے۔ ‘

رام اوتار کا یہاں تک کہنا ہے کہ اس دوران گولی سے زخمی ہوئے محلے کے دو دیگر جوانوں کو بھی معاوضے کی بات کہی گئی تھی۔ یہاں تک کہ گولی باری میں موہن جاٹو کا جو بیل زخمی ہوا، انتظامیہ نے اس کے لئے بھی مالی مدد کی یقین دہانی دی تھی۔کچھ ایسا ہی راکیش کے رشتہ داروں کا کہنا ہے۔ لاکھن کہتے ہیں، ‘ معاوضے کو لےکر ان کی طرف سے کیا ہے، کیا نہیں، اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ہم نے جو مانگ کی تھی، ان کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ کیونکہ سب کچھ لیپاپوتی چل رہی ہے۔ ‘

رشتہ داروں میں پورے معاملے کو لےکر پولیس کی حالیہ کارروائی پر بھی ناراضگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس گولی چلانے والوں پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔لاکھن کہتے ہیں، ‘ حکومت اورانتظامیہ کہہ رہا ہے کہ آپ اپنا گواہ لےکر آؤ تو ہم نامزد ایف آئی آر درج کر لیتے ہیں، ورنہ ویسے ہی ایف آئی آر کاٹ دیں‌گے۔ لیکن، جو ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں، ان کے آدمی کھل‌کر بول رہے ہیں، جن میں سب کی پہچان ہو رہی ہے کہ کون آدمی ہے، کس کا آدمی ہے جس نے گولی چلائی ہے، سب کے نام تک سامنے آئے ہیں۔ وہ فراری میں ہے، کیا ہے، پولیس ڈھیل دے رہی ہے، کیا کر رہی ہے؟ کچھ نہیں پتا۔ ‘

رام اوتار کہتے ہیں، ‘ پولیس الٹا ہمیں پھنسا رہی ہے کہ آپ لوگوں نے ان کے گھروں پر ہڑدنگ مچایا۔ وہ ہمیں ہڑدنگ کرتے ہوئے کیسی بھی فوٹیج دکھا دیں۔ ہم تو اپنے محلے میں اپنے گھر پر بیٹھے تھے۔ پولیس جو معاملے درج کر رہی ہے، اس میں ان کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، الٹا ہمارے ہی چار پانچ لوگوں کے نام لکھ دئے گئے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس ان کے سارے فوٹیج ہیں۔ ہماری فوٹیج ان کے پاس ایک نہیں ہوگی۔ ہم لوگ گھر سے نکلے ہی نہیں تو حملہ کہاں سے کریں‌گے۔ اس طرح سے پولیس انتظامیہ ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ ‘

گوالیار کے تھاٹی پور کے کمہارپورا واقع دیپک جاٹو کا گھر۔ (فوٹو : دیپک گوسوامی)

گوالیار کے تھاٹی پور کے کمہارپورا واقع دیپک جاٹو کا گھر۔ (فوٹو : دیپک گوسوامی)

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ وہ لوگ ہمارے گھروں پر فساد کرنے آئے تھے، انہوں نے گولی چلائی تھی ہم پر، ہم نے نہیں۔ جبکہ پولیس انتظامیہ سے چھتری مہاسبھا کے ٹھاکر لوگ کہہ رہے ہیں کہ الٹا ہمیں گرفتار کیا جائے۔ ‘دیپک کے بھائی راجیندر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ دیپک کو گولی مارنے والوں کے نام تک جانتے ہیں، ان کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ فوٹیج کھنگالئے، میرے بھائی کے قاتل مل جائیں‌گے۔وہیں، ضلع انتظامیہ سے رشتہ داروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ راکیش اور دیپک کی موت کے بعد ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہی انتظامیہ نے نہ تو ان کو لاشوں کی سپردگی طریقے سے کی اور نہ ہی طریقے سے آخری سنسکار کرنے کا موقع دیا۔

لاکھن کہتے ہیں، ‘ پوسٹ مارٹم کے بعد ہمیں خاص طورپر رات 11 بجے بلوایا گیا۔ لاش کو انہوں نے گھر بھی نہیں لانے دیا۔ اپنی پوری طاقت کے ساتھ سیدھے شمشان بھیج دیا اور آدھی رات کو آخری سنسکار کروا دیا۔ ‘رام اوتار کہتے ہیں، ‘ جلانے کے لئے لاش بھی نہیں دی۔ پورا انتظامیہ 20-25 گاڑیوں سے دونوں لاشوں کو شمشان لے جایا گیا۔ کلکٹر اور ایس پی فیملی کے محض چار لوگوں کو گاڑی میں بٹھاکر ساتھ لے گئے اور کہا کہ آخری سنسکار کر دیجئے، ہم آپ کو لاش نہیں دیں‌گے۔ آپ صبح چکاجام کریں‌گے۔ کئی طرح کی خلاف توقع حالات پیدا ہوں‌گی۔ شہر کا ماحول بگڑے‌گا۔ ان کے دباؤ میں آکر ہم نے انتم سنسکار کر دیا۔ ‘

پورے معاملے میں حکومت اور انتظامیہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ حادثہ کے بعد سے متاثر ین  سے اب تک ملنے حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی نہیں پہنچا ہے، نہ تو مقامی رکن پارلیامان، ایم ایل اے یا کوئی رہنما اور نہ ہی کوئی افسر جبکہ علاقائی رکن پارلیامان اور  افسروں کے دفتروں کی دوری متاثرین کے گھر سے محض چند کلومیٹر ہے۔نتیجتاً، پورے علاقے میں دفعہ 144 تو لگی ہے، جو کہ 20 اپریل تک نافذ رہے‌گی۔ 10 اپریل کو غیر دلت سماج کے ذریعے بلائے گئے ‘ بھارت بند ‘ کے دن کرفیو بھی لگایا گیا لیکن اس سب کے باوجود مقامی لوگوں کے دل میں دہشت اب تک بسی ہے۔

رام اوتار کہتے ہیں، ‘ فی الحال ہمارے لوگ پریشان ہیں، گھبرائے ہوئے ہیں، سہمے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی اپنے گھر سے نکلتا نہیں کہ کہیں دوبارہ حملہ نہ ہو جائے۔ کیونکہ وہ پیسے والے لوگ ہیں، ان کے پاس ہتھیار ہے، حکومت بھی ان کی ہے، ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘ان برعکس حالات میں راکیش کی فیملی کے لئے سوال اپنے مستقبل کے چیلنج سے جدوجہد بھی ہے۔

راکیش کی بیوی رام وتی کہتی ہیں، ‘ اسی سال 24 مئی کو بیٹی کی شادی طے تھی۔ 10 اپریل کو اجتماعی شادی کانفرنس میں شادی کا پرچہ بھرنے جانا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا۔ ‘اس کے علاوہ چیلنج ان کے بیٹے راجا اور پنکج کی تعلیم کا بھی ہے، پوری فیملی کی پرورش کا بھی ہے۔لاکھن کہتے ہیں، ‘ میں راکیش کا بڑا بھائی ہوں۔ میری خود کی تین لڑکیاں ہیں۔ ابھی ایک کی شادی کی ہے، دو شادی کے لئے باقی ہیں۔ اب راکیش تو نہیں رہا، اس کی بھی ایک لڑکی کی ذمہ داری میرے اوپر آ گئی۔ پوری فیملی کا خرچ اب میرے ذمہ ہے۔ میں ایک مزدوری کرنے والا کیسے پرورش کروں‌گا سب کی؟ ‘

وہ آخر میں کہتے ہیں، ‘ ہم تو کوشش کر رہے ہیں گناہ گاروں پر کارروائی ہو، لیکن کون سنتا ہے ہماری۔ میڈیا بھی آتا ہے تو کہتاہے ہم آواز اٹھائیں‌گے۔ رہنما لوگ بھی آکر کہتے ہیں کہ ہم آواز اٹھائیں‌گے۔ لیکن یہاں پر سب بات کر جاتے ہیں، اصل میں وہ کچھ کر بھی رہے ہیں، اس کا پتہ نہیں۔ ‘