خبریں

’ لوگ یہاں مقدمہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ‘:کٹھوعہ گینگ ریپ معاملہ میں متاثرہ کی وکیل

انٹرویو : کٹھوعہ معاملے میں متاثرہ کا مقدمہ لڑ رہی وکیل دیپیکا سنگھ راجاوت سے بات چیت۔

’اچھا ہے کہ وہ بولے تو سہی۔ لیکن ان کو تھوڑی اور ذمہ داری لینی چاہیے۔ ان کو ان دو بی جے پی ایم ایل اے کی ذمہ داری لینی چاہیے جو کٹھوعہ گئے اور جنہوں نے لوگوں کو قانون توڑنے کے لئے اکسایا۔ان کو اناؤ معاملے کی بھی ذمہ داری لینی چاہیے کیونکہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں، وہ بی جے پی کے رہنما ہیں۔‘

سوموار کو نئی دہلی میں میڈیا سے مخاطب دیپکا سنگھ راجاوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

سوموار کو نئی دہلی میں میڈیا سے مخاطب دیپکا سنگھ راجاوت (فوٹو : پی ٹی آئی)

جہاں ایک طرف کٹھوعہ میں آٹھ سال کی معصوم بچی کے گینگ ریپ اور قتل معاملے میں جموں کے کئی وکیل ملزمین کے خلاف پولیس کی چارج شیٹ کی مخالفت میں اترے، وہیں ایک مقامی وکیل نے دوسری راہ منتخب کی اور متاثر بچی کی فیملی کی طرف سے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔38 سال کی دیپیکا سنگھ راجاوت ایک کشمیری پنڈت ہیں، جن کی فیملی 1986 میں کشمیر سے منتقل ہو کر جموں آئی تھی، ساتھ ہی وہ ایک سنگل مدر بھی ہیں۔ اپنے معاونین کے اس مقدمہ کو لینے سے منع کرنے کے باوجود دیپیکا نے اس کی ذمہ داری لی۔ ان کو اس کے بعد دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ دنوں ملک بھر سے ان کو ملی حمایت، جموں بار ایسوسی ایشن کے کردار اور جموں و کشمیر پولیس کے اس معاملے کی تفتیش کرنے کے بارے میں بات کی۔دیپیکا اس بات سے خوش ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آخرکار اس معاملے پر اپنی چپیتوڑی لیکن وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ وزیر اعظم اور ذمہ دار بنیں اور اپنی پارٹی کے ممبروں کے تئیں کڑا رخ اپنائیں۔

وزیر اعظم مودی نے آخرکار کٹھوعہ اور اناؤ ریپ معاملے پر اپنی خاموشی توڑی ہے اور کہا کہ ملزمین کو نہیں بخشا جائے‌گا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ کافی ہے؟ 

اچھا ہے کہ وہ بولے تو سہی۔ لیکن ان کو تھوڑی اور ذمہ داری لینی چاہیے۔ ان کو ان دو بی جے پی ایم ایل اے کی ذمہ داری لینی چاہیے جو کٹھوعہ گئے اور جنہوں نے لوگوں کو قانون توڑنے کے لئے اکسایا۔ان کو اناؤ معاملے کی بھی ذمہ داری لینی چاہیے کیونکہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں، وہ بی جے پی کے رہنما ہیں۔ ان کو پتا ہونا چاہیے کہ پارٹی کے لوگوں کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔ اگر ان کی پارٹی کے کسی آدمی کے ذریعے کوئی غلطی ہو جاتی ہے، تو ان کو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

اس معصوم بچی کے ساتھ جو ہوا اس کی ملک بھر میں مخالفت ہو رہی ہے۔ ہر طرح کے لوگ ساتھ آکر فیملی کے لئے انصاف مانگ رہے ہیں۔ متاثرہ کی وکیل ہونے کے ناطے آپ اس لڑائی میں سب سے آگے ہیں۔ اس لڑائی کو کیسے دیکھتی ہیں؟

پورا ملک اب ہمارے ساتھ ہے۔ سب جاگ چکے ہیں۔ مجھے مضبوطی کا احساس ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب سب میرے ساتھ ہیں تو اب وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔یہ معاملہ جنوری میں ہوا تھا۔ فروری میں اس فیملی سے ملنے کے بعد میں اس مقدمہ سے جڑی۔ ایک ایکٹیوسٹ ہونے کے ناطے مجھے لگا کہ ان کو مناسب قانونی صلاح کی ضرورت ہے۔اس وقت بہت ہی کم لوگ مدد کے لئے آگے آئے تھے۔ میں نے جب سے یہ مقدمہ لیا میں تب سے سوشل میڈیا پر اس بارے میں پوسٹ کرتی تھی۔ لیکن قومی میڈیا کا دھیان اب اس پر گیا ہے۔ ان دو مہینوں میں صرف ہم تین لوگ تھے جو یہ لڑائی لڑ رہے تھے۔لیکن میں کسی کو قصور نہیں دوں‌گی۔ جو نقصان ہوا تھا، گزشتہ کچھ دنوں میں اس کی بھرپائی ہو گئی۔ اب ہمیں ساتھ آکر آگے بڑھنے دے دیجئے۔ یہ یقینی بنانےدیجئے کہ اس بچی اور اس کی فیملی کو انصاف ملے۔

جموں بار ایسوسی ایشن کے وکیل آپ کے اس مقدمہ لینے کے خلاف کیوں تھے؟ 

یہ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آیا۔ میں تو قانون بنائے رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ایک وکیل کے طور پر یہی میرا فرض ہے اور مجھے لگ رہا ہے کہ اسی کے لئے مجھے ایسے نشانہ بنایا جا رہا ہے جیسے میں نے کوئی غلط کام کر دیا ہو۔وکیل کا کام کورٹ کے اندر اور باہر ہوتا ہے۔ اور یہ وکیل سماعت میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سوچیے انہوں نے چارج شیٹ داخل کرنے جا رہی پولیس کو روکنے کی کوشش کی! میں حیران ہوں!کیا وہ ملزمین کے خلاف چارج شیٹ روک دیں‌گے؟ کیا وکیلوں کا یہ کام ہے؟ یہ بہت شرمناک ہے۔ میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میں بھی اسی برادری سے آتی ہوں۔انہوں نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی۔ وکیل عوام کو ڈرانے کے لئے نہیں ہوتے۔ ہم یہاں ڈرانے کے لئے نہیں ہیں کہ ہم ہاتھ میں اے کے-47 لےکر کھڑے ہو جائیں‌گے۔ وکیل ایسا کرتے اچھے نہیں لگتے۔ وکیل ایک مناسب منچ سے انصاف کے لئے لڑتے اچھے لگتے ہیں۔

یہ مقدمہ لینے کے کچھ دن بعد آپ نے عرضی داخل کی۔  جانچ عدالت کی نگرانی میں ہو۔ اس کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ تفتیش کرنے والے اپنا کام صحیح سے نہ کریں؟ 

مجھے لگا تھا کہ تفتیش بند کروا دی جائے‌گی۔ جس طرح بی جے پی کے لوگ سامنے آئے، نعرے لگائے گئے، لوگوں کو قانون توڑنے کے لئے اکسایا گیا، ان سب سے ہمیں لگا کہ جانچ کی نگرانی کے لئے ہائی کورٹ سے اپیل کرنی چاہیے۔جہاں تک جانچ کرنے والوں کی بات ہے، تو ایسا نہیں تھا کہ ان کی صلاحیت یا بھروسہ پر کوئی سوال تھا۔ ہمیں لگا تھا کہ وہ دباؤ میں آ جائیں‌گے۔ جس طرح سے وہ دو ایم ایل اے، جو طاقت ور وزیر بھی تھے، دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ یہ طے کریں‌گے کہ جس کو بھی گرفتار کیا جائے وہ واپس لوٹے، تو لگ رہا تھا کہ تفتیش کرنے والے دباؤ میں نہ آ جائیں۔لیکن اب چارج شیٹ دائر ہو چکی ہے۔ پولیس نے اپنی ذمہ داری بہت اچھے سے نبھائی ہے۔ ہمیں ان کی محنت کی تعریف کرنی چاہیے۔ بس اب سماعت شروع ہونے کا انتظار ہے۔

آپ نے شنوائی کٹھوعہ سے شفٹ کرنے کی مانگ کی ہے۔ کیوں؟ 

ایک عدم تحفظ کا احساس ہے۔ لوگ یہاں مقدمہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ تو سب نے دیکھا کہ کیسے کرائم برانچ کو چارج شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو سوچیے ہمارے ساتھ کیاکیا ہو سکتا ہے۔اور ابھی تو قومی میڈیا اس مقدمہ کے بارے میں بات کر رہا ہے، لیکن کب تک؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟

آپ نے یہ بھی بتایا کہ جموں بار ایسوسی ایشن کے صدر بی ایس سلاتھیا نے آپ کو دھمکایا تھا۔ 

انہوں نے مجھ سے کہا ‘ یہاں گندگی مت پھیلاؤ۔ کام مت کرو کیونکہ ہم ہڑتال پر ہیں۔ خبردار جو ہڑتال کے وقت کام کیا۔ میرے پاس تم کو روکنے کے طریقے ہیں۔ ‘ انہوں نے مجھ سے یہ سب کورٹ میں کہا۔ اس کے بعد کینٹین کے لوگوں کو مجھے کھانا دینے سے منع کر دیا گیا۔پھر جیسے کسی بھی وکیل کو قانونی طریقہ اپنانا چاہیے، میں نے وہی کیا۔ میں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو شکایت لکھی، جنہوں نے اس کی جانکاری لی۔

دہلی کے سنسد مارگ پر کٹھوعہ ریپ مقدمہ کے خلاف ہوا مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

دہلی کے سنسد مارگ پر کٹھوعہ ریپ مقدمہ کے خلاف ہوا مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

متاثر فیملی کی کیا حالت ہے؟ 

وہ بےحد غریب لوگ ہیں۔ ان کو نہیں پتا کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔ بکروال لوگ خانہ بدوش ہوتے ہیں، ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہیں۔ وہ ان سنی سی زندگی جیتے ہیں اور ان سنے ہی مر جاتے ہیں۔ وہ بے بس محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کو اپنی بیٹی کے لئے انصاف چاہیے۔ جب میں ان سے ملی تب وہ یہ جان‌کر خوش ہوئے کہ کوئی ان کی بچی کے لئے انصاف کی لڑائی لڑنا چاہتا ہے۔اب وہ جانتے ہیں کہ پورا ملک ان کی بیٹی کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ لیکن وہ کورٹ،کچہری، پولیس، انصاف ان سب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ وہ بہت ہی غریب فیملی سے آتے ہیں۔ میں نے اس مقدمہ کے لئے ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ہے۔

اس معاملے میں مذہبی پولرائزیشن کو کیسے دیکھتی ہیں؟ اناؤ معاملے کی طرح اس معاملے کی بھی سی بی آئی تفتیش کی مانگ کی جا رہی ہے۔ 

لوگوں نے اس مقدمہ کو تقسیم کر دیا ہے۔ انہوں نے اس کو فرقہ وارانہ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ہندوؤں کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔ لیکن ان کے پاس اس کی کوئی دلیل یا بنیاد نہیں ہے۔وہ سی بی آئی تفتیش کی مانگ‌کر رہے ہیں۔ سی بی آئی کا ٹریک  رکارڈ کیا جا رہا ہے؟ آروشی معاملہ بگڑا، 1984 سکھ فساد معاملہ بگڑا، بوفورس… ایسے کئی معاملے ہیں۔ اب 3 مہینے بعد سی بی آئی کیا کرے‌گی؟جہاں تک اناؤمعاملے کی بات ہے تو وہاں تفتیش اب تک شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہاں چارج شیٹ بھی فائل ہو چکی ہے، غیر جانبدارانہ تفتیش ہوئی ہے۔ یہ دونوں الگ معاملے ہیں۔

محبوبہ مفتی نے نابالغ سے ریپ کے لئے سزائے موت کی بات کی ہے۔ 

کیا آپ کو لگتا ہے کہ ریپ کے مسئلہ کا یہ حل ہے؟ ہاں، یہ بچاؤ کا طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ کتنا کارگر ہوگا، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔نربھیا کیس کے وقت اتنی ناراضگی دیکھی گئی۔ قانون سخت کئے گئے لیکن کیا ریپ  ہونا بند ہوگیا؟آج یہاں (کٹھوعہ میں) ایک بچی کے ساتھ ایسا ہوا۔ یہ معاملہ ایک چیلنج ہے۔ لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ میڈیا کا دھیان آہستہ آہستہ ہٹ رہا ہے۔ ابھی کی بات کریں تو میں محفوظ محسوس‌کر رہی ہوں لیکن ایسا نہیں رہے‌گا، اس لئے فکر تو ہے ہی۔ لیکن جیسے ہی اچھی خبر ملے‌گی یہ بھی ٹھیک ہو جائے‌گا اور یہ اچھی خبر ہوگی گناہ گاروں کو سزا۔