فکر و نظر

جھارکھنڈ میں جاری ریپ  کے واقعات سرخیوں میں کیوں نہیں ہیں؟

جموں و کشمیر کے کٹھوعہ اور اتر پردیش کے اناؤمیں گینگ ریپ کے واقعات کے درمیان جھارکھنڈ میں ریپ  کے واقعات لگاتار جاری ہیں۔

رانچی میں  انصاف کی مانگ کو لےکر مظاہرہ کرتے لوگ۔ (فائل فوٹو : نیرج سنہا)

رانچی میں  انصاف کی مانگ کو لےکر مظاہرہ کرتے لوگ۔ (فائل فوٹو : نیرج سنہا)

جھارکھنڈ میں لڑکیوں کی عزت اور جان کی حفاظت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ دراصل گاؤں اورقصبوں سے لےکر راجدھانی رانچی میں اسکول، کالج کی لڑکیوں کے ساتھ ریپ  اور قتل کے خوفناک معاملے لگاتار سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے عورتوں اور عوامی تنظیموں کا غصہ ابال پر ہے۔ جلوس اور مظاہرہ کا دور جاری ہے۔ریپ  کی شکار آٹھویں کلاس کی ایک قبائلی طالبہ پورے 13 دنوں تک ڈری اور سہمی رہی۔ دل میں ہر پل ریپ کے دوران جان سے مارنے کی دھمکیاں کوندھتی رہیں۔

اس کی بڑی بہن کو معاملےکی جب جانکاری ملی تو ہمت جٹاکر 13 اپریل کو وہ تھانہ پہنچی اور ایف آئی آر درج کرایا۔متاثر طالبہ دوپہر بعد گاؤں کے کنوئیں میں پانی بھرنے گئی تھی۔ اسی دوران دوسرے گاؤں کے تین لوگ ہتھیار کی طاقت پر اس کو اٹھاکر پاس کے جنگل میں لے گئے اورگینگ ریپ کیا۔متاثرہ جان بخش دینے کی دہائی لگاتی رہی، لیکن بدمعاشوں کا دل نہیں پسیجا۔ اس کو صبح چھوڑا گیا۔

جھارکھنڈ میں گملا ضلع کے سدور گنجئن گاؤں کا یہ معاملہ بس ایک مثال ہے۔  گاؤں اور قصبوں سے لےکر راجدھانی رانچی میں حال کے دنوں میں یرغمال بناکر یا اغوا کر کے ریپ  کے کئی خوفناک معاملے لگاتار سامنے آ رہے ہیں۔ گینگ ریپ اور قتل کے بعد لڑکیوں کو جلا دئے جانے کے بڑھتے واقعات لوگوں کے خدشات بڑھا رہے ہیں۔حالاں کہ  زیادہ تر معاملوں میں نہایت معمولی گھروں یا غریب مزدور کی بیٹیاں تشدد اور ریپ کا شکار ہو رہی ہیں۔ ظاہر ہے کئی جگہوں پر ان کی بے بسی، سسکیاں یا چیخ پکار پٹھاروں جنگلوں یا ویرانی میں دم توڑ جاتی ہیں۔

 گملا کے معاملے میں پولیس نے فوری کارروائی شروع کی ہے۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد خود گملا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ انشومان کمار نے گھاگرا تھانہ علاقے کے گنجئن گاؤں کا دورہ کیا اور تفتیش کو سمت دی۔فی الحال دو لوگ اعجاز انصاری اور آصف انصاری کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک فرار ملزم کی تلاش جاری ہے۔ پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی کی حالت اب ٹھیک ہے اور وہ اپنے کنبہ کے ساتھ ہے۔ادھر، جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے ایک کالج کی طالبہ افسانہ پروین کے قتل کے بعد جلا دئے جانے کا واقعہ سے فی الحال پردہ نہیں اٹھا ہے۔ وہ پنداگ بستی کی رہنے والی تھی۔

اس واقعہ کی مخالفت میں جلوس اورمظاہرہ کا دور جاری ہے۔ افسانہ پروین پچھلے 6 اپریل کو گھر سے کالج کے لئے فارم بھرنے نکلی تھی۔ گھر نہیں لوٹنے پر مقامی تھانے میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔دو دنوں بعد رانچی سے تقریباً 75 کلومیٹر دور لوہردگا ضلع کے کیرو تھانہ علاقہ میں لڑکی کی جلی لاش بر آمد کی گئی تھی۔ فی الحال دونوں ضلعوں کی پولیس نے اس معاملے میں تفتیش کے لئے ایس آئی ٹی بٹھائی ہے۔افسانہ کے چچا زاد بھائی زاہد انور بتاتے ہیں کہ اس واقعہ نے پوری فیملی کو متزلزل کر دیا ہے۔ کئی دنوں تک گھر کا چولہا نہیں جلا۔ بستی کی لڑکیوں میں الگ ہی خوف سمایا ہے۔ وہ لوگ اسکول کالج جانے سے کترانے لگی ہیں۔ دراصل بستی نے اس قسم کا خوفناک واقعہ پہلی دفعہ دیکھااورسنا۔

اس واقعہ کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے کے سوال پر زاہد انور کہتے ہیں کہ اس کو سکون ہے کہ بستی میں ہر مذہب اور مذہب کے لوگ یکجا ہوکر باہر نکلے اور انصاف کی آواز لگائی۔وہ کہتے ہیں کہ دراصل سبھی لوگ چاہتے ہیں کہ اس واقعہ سے پردہ ہٹے۔ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے۔ افسانہ کی شادی کی بات بھی چل رہی تھی۔زاہد بتاتے ہیں کہ انجمن صدر کے لوگوں نے لوہردگا جاکر وہاں کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سے باتیں کی ہے۔

ادھر، گزشتہ 10 اپریل کو بوکارو ضلع میں تیلو ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک نابالغ کے ساتھ گینگ ریپ کے بعد اس کے ہاتھ پیر باندھ‌کر ریلوے پٹری پر پھینک دیا گیا۔غنیمت تھی کہ ریلوے ملازمین‎ کی اس پر نظر پڑ گئی۔ اس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے اس معاملے میں چار نامعلوم لوگوں کے خلاف ریپ اور جان سے مارنے کی کوشش کا معاملہ درج کیا ہے اور ملزمین کی تلاش کی جا رہی ہے۔

حال کے کچھ واقعات جو سرخیوں میں ہیں

14 اپریل :گملا کے جاری میں لڑکی سمیت گھر کی دوسری عورتوں کے ساتھ ریپ

14 اپریل: منوہرپور میں اسکول جا رہی طالبہ سے سنسان گھر میں ریپ

14 مارچ : پاکڑ میں چاقو کی نوک پر نابالغ سے ریپ، ایک گرفتار

10 اپریل: پاکڑ میں کالج طالبہ کے قتل کے بعد لاش جلا دی گئی

08 اپریل:  رانچی کے ایک قصبہ راتومیں طالبہ کا قتل

04 مارچ: رانچی کے جگن ناتھ پور میں لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ، سات گرفتار

03 مارچ: رانچی کے تپودانا میں نشہ کھلاکرنابالغ سے گینگ ریپ

24 فروری: چترا میں نابالغ کے ساتھ گینگ ریپ، پھر مٹی کاتیل ڈال کر جلا ڈالا

پچھلے تین مہینے میں 328 ریپ کے معاملے درج

پچھلے جمعہ یعنی 13 اپریل کو جھارکھنڈ کے گورنر دروپدی مرمو نے پولیس محکمہ کے اعلیٰ افسروں کو طلب کیا تھا۔ انہوں نے لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر خدشہ  ظاہر کیا۔ اس کے علاوہ ریاستی لا اینڈ آرڈر جانکاری حاصل کی اور پولیس سے ٹھوس قدم اٹھانے کو کہا۔اس کے اگلے دن کرائم کی جانچ کرنے والے محکمے نے خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کا تجزیہ کیا۔جھارکھنڈ پولیس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال کی جنوری سے مارچ تک تین مہینے میں ریپ کے 328 معاملے درج کئے گئے ہیں۔ جبکہ سال 2016 میں ریپ کے 1146 اور سال 2017 میں 1357 معاملے درج کئے گئے تھے۔

محکمہ پولیس  یہ بھی دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اوسط کے حساب سے ریپ کے  واقعات میں کمی آئی ہے۔ کیونکہ سال 2017 میں فی مہینہ اوسط 113.08 جبکہ اس سال کے تین مہینے میں اوسط 109.08 معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔پولیس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ تین مہینے میں رانچی میں ریپ کے 38 معاملوں میں 37 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے تازہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں 205 نابالغ لڑکیاں جبکہ 18 سے 30 سال کی 657 لڑکیوں اورخواتین ریپ کی شکار بنیں۔ وہیں گینگ ریپ کے 77 واقعات سامنے آئے۔

معروف اور جن وادی مہیلا سمیتی کی نمائندہ رینو پرکاش کہتی ہیں کہ جھارکھنڈ میں حالات اچھے نہیں ہیں۔ ریپ کے معاملوں میں ایف آئی آر اور گرفتاریاں ہونا ناکافی ہے۔ زیادہ ضروری ہے کہ پولیس ان معاملوں میں تیزی کے ساتھ ریسرچ کرے اور ثبوتوں کو جٹاکر ملزمین کو سزا دلانے میں مستعدی دکھائے۔ جبکہ یہ کم ہوتا ہے۔لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت کو لےکر جھارکھنڈ میں حکومت کا اقبال قطعی نہیں دکھتا۔ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر معاملوں میں متاثرہ اکیلی پڑ جاتی ہے۔ وقت پر ان کو معاوضے تک نہیں ملتے۔

بقول رینو پرکاش سماجی قدروں کو اہمیت کم ہورہی ہے۔ لوگوں کی خود آگہی کم ہوتی جا رہی ہے۔ تبھی تو اسکولی اور معصوم بچیاں درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔ انتظامیہ، تمام کمیشن، قانون اپنی جگہ ہیں، لیکن سماج کاری جب تک درست نہیں ہوگی، یہ واقعات بڑھتے رہیں‌گے۔رینو پرکاش کے سوال بھی ہیں، آخر خواتین قدم قدم پر غیر محفوظ کیوں محسوس کرتی ہیں۔ ان کو یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کہ لگاتار خوفناک واقعات کے برعکس خاتون اور عوامی تنظیم، حکومتوں کے خلاف بڑے دائرے کی صف بندی  نہیں دکھا پاتے۔ جبکہ حکومت اور سسٹم کو جڑ سے ہلانے کی ضرورت ہے۔

جھارکھنڈ ریاستی خواتین کمیشن کی صدر کلیانی شرن کا کہنا ہے کہ واقعی خوفناک حالات ہیں۔ جھارکھنڈ کی موجودہ حالات پر انہوں نے پولیس محکمے کو خط لکھا ہے۔این سی آر بی کے تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2016 میں جھارکھنڈ میں ریپ کے 1072 معاملوں کو انجام دینے والے متاثرہ کے آشنا ہی نکلے تھے، جبکہ 334 معاملوں میں شادی کے وعدے پر ریپ کے واقعات ہوتے رہے۔

مارکس وادی رابطہ کمیٹی سے جڑے اور سماجی کارکن سشانتو سین گپتا کہتے ہیں کہ لوگوں میں دہشت ہے اور بےچینی بھی۔ کٹھوعہ اور اناؤکے واقعات ملک بھر میں سرخیوں میں ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کئی جگہوں پرریپ اور قتل کے سنگین واقعات ہو رہے ہیں۔ اس میں جھارکھنڈ آگے ہے۔ لیکن یہاں حکومت ان معاملوں کو روکنے میں حساس نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ ریاست میں خواتین کی حفاظت اور بیداری کو لےکر 26 خواتین دوستانہ پولیس اسٹیشنوں، 24 خواتین تھانے قائم کئے گئے ہیں۔ راجدھانی رانچی میں 40 خاتون کمانڈوز کی تعیناتی خواتین کےکالجوں میں کی گئی ہے۔ حفاظت کے مدنظر شکتی ایپ شروع کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ آپریشن نربھیک، ہم تم مہیلا ہیلپ لائن چلائے جا رہے ہیں۔

کارکن آلوکا کہتی ہیں کہ پولیس کے تمام دعووں اور سسٹم پر حالیہ واقعات کہیں زیادہ بھاری پڑتے جا رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ خواتین تشدد اور جنسی استحصال کو لےکر جو قانون ہیں ان پر تعمیل کرانے میں سسٹم ناکام ہے۔ جھارکھنڈ میں آنر کلنگ، ڈائن قتل، ریپ کے  واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے رہیں۔ ایسے میں حکومت کے کردار پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ جھارکھنڈ میں خواتین پولیس اسٹیشن  کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں۔ وہ ایف آئی آر تک درج نہیں کر سکتے۔ البتہ ریاست میں بال متر تھانے قائم کئے گئے ہیں، لیکن بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھے ہیں۔ جبکہ ان معاملوں میں سخت ایکشن ہونے پر ہی ڈر پیدا ہو سکتا ہے، جو ہوتا نہیں۔

ادھر، ریپ اور قتل کے بڑھتے واقعات کو لےکر ریاست میں سیاست بھی تیز ہے۔ اپوزیشن نے سیدھے طور پر بی جے پی حکومت کو نشانے پر لے لیا ہے۔اپوزیشن کے رہنما اور ریاست کے سابق وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کہتے ہیں کہ گورنر لا اینڈ آرڈر کی حالت پر فکر ظاہر کر رہے ہیں، لیکن حکومت اس معاملے میں بےفکر ہے۔ اس لئے چو طرفہ غصہ ہے اور دہشت بھی۔

سابق وزیر اناپورنا دیوی کے مطابق ریاست کی بی جے پی حکومت کے لئے یہ کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ اس کو صرف حکومت چاہئے۔ وہ کہتی ہیں، غور کیجئے کہ حکومت اور انتظامیہ اس بات پر اطمینان محسوس کرے کہ گزشتہ سال ریپ کے 1300 معاملے درج کئے گئے اور اس سال 1280 معاملے درج ہوئے، ایسے میں جان اور عزت کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے۔کانگریس کے ریاستی ترجمان آلوک کمار دوبے کہتے ہیں کہ راجدھانی رانچی میں جب یہ حالات ہیں، تو دوردراز کے علاقے میں مشکلوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لڑکیاں سرراہ اغوا کر لی جا رہی ہیں۔ ان کو یرغمال بناکر جنسی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اناؤاورکٹھوعہ کے واقعات نے ویسے ہی لوگوں کے اعتماد کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ تمام تصویریں ریاست  اورملک کے سامنے ہے۔

اس بیچ سماجی کارکن عاصمہ نیر نے کٹھوعہ  اور اناؤکے ساتھ جھارکھنڈ کے حالیہ واقعات کے خلاف راج بھون کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔حالانکہ جھارکھنڈ ریاست کی بی جے پی نے حال ہی میں میڈیا سے بات چیت میں دعویٰ کیا ہے کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈرٹھیک ہے اور لڑکیوں اور خواتین کو تحفظ دینا حکومت کی ترجیح رہی ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔)