خبریں

نیشنل ازم کا نیا تصور آزادی کی لڑائی کے وقت کے  تصور سے میل نہیں کھاتا : پروفیسر مردولا مکھرجی

مؤرخ پروفیسر مردولا مکھرجی نے کہا کہ وہ نیشنل ازم   سب کو شامل کرنے والی اور ہمہ جہت تھی، جس میں ہر علاقہ، مذہب، فرقہ، ہر زبان کے بولنے والے اور تمام قبائلی گروہ کے لوگ شامل تھے۔

(علامتی فوٹو : پی ٹی آئی)

(علامتی فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی  : مؤرخوں کا ماننا ہے ہندوستان میں ماڈرن نیشن  اور نیشنل ازم   کا جو تصور آج تشکیل دیا جا رہا ہے، وہ  نیشنل ازم  کے اس تصور سے میل نہیں کھاتا، جو آزادی کی لڑائی کے دوران ہمارے رہنماؤں اور مفکروں نے بنایا تھا۔ مشہور مؤرخ پروفیسر مردولا مکھرجی نے کہا کہ وہ نیشنل ازم  سب کو شامل کرنے والی  اور ہمہ جہت تھی، جس میں ہر علاقہ، ہر مذہب، ہر فرقہ، ہر زبان کے بولنے والے اور تمام قبائلی گروہ کے لوگ شامل تھے۔ شری اروند اور مہاتما گاندھی جیسے مفکر اس  فکر کے نمائندہ تھے اور آزادی سے پہلے اور بعدکے سالوں میں پنڈت جواہرلال نہرو نے سب کو ساتھ لے کر چلنے والی نیشنل ازم کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ آج غور و فکر کامسئلہ ہے کہ کیا عظیم سلطنت یا اسی طرح کی ثقافتی پس منظر والا کوئی عظیم جغرافیائی علاقہ جدید ملک کے تصور کے مترادف ہو سکتا ہے۔ پروفیسر مکھرجی کا ماننا ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کیونکہ جدید ملک اور نیشنل ازم  کا مفروضہ 16ویں-17ویں صدی کے یورپی تصور  کی دین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کے صفحات پلٹیں تو پاتے ہیں کہ ہندوستانی سماج کو ماضی میں یہ دونوں ہی پروقار عنصر حاصل رہے ہیں۔ موریہ، گپت اور مغل کے وقت میں ہندوستانی خطے میں عظیم سلطنتوں کا قیام ہوا تھا، جن میں طرز زندگی اور ثقافتی یکسانیت کا تسلسل دکھائی دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں عناصر کی موجودگی  کو ہم ‘نیشن  ‘ کا مترادف اور قدیم علامت مان لیتے ہیں۔

پروفیسر مکھرجی نے کہا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کیونکہ اگر یہ دونوں عنصر نیشن  کی علامت ہوتے تو قدیم عظیم رومن سلطنت بھی ایک نیشن ہوتا اور آج کا یورپ بھی، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان دونوں کے خطے کئی نیشن میں منقسم ہیں۔ انہوں نے یہاں ‘ وشالاچھی اسمارک ویاکھیان مالا ‘ کے  چوتھے خطبے میں ‘نیشنل ازم  : ماضی اور حال ‘ موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ کے بھی مختلف علاقوں میں نیشن   کا تصور یکجہتی کے الگ الگ ذرائع کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے. جلسہ کی صدارت کر رہے دہلی  واقع امبیڈکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سلیل مشرا نے بھی اپنے تبصرےمیں پروفیسر مکھرجی کے تجزیہ کی حمایت کی اور کہا کہ کسی نیشن  اور اس کے نیشنل ازم   کا تصور صرف ایک دن میں تشکیل  نہیں دیا جا سکتا، اس کے لئے کافی وقت، حالات اور غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گاندھی کا نیشنل ازم  شدت پسند  نیشنل ازم  نہیں تھا اور وہ خود کہتے تھے کہ وہ کسی آدمی، نسل، مذہب یا اہلکار کے خلاف نہیں بلکہ استعماری نظام کے خلاف ہیں۔ پروفیسر مکھرجی نے بتایا کہ ہندوستان میں نیشن اور نیشنل ازم  کا تصور برٹش نوآبادیات کے وقت بننا  شروع ہوا، جب ہم نے ایک غیر ملکی طاقت کے خلاف خود کو یکجا کرنا شروع کیا اور آزادی کی لڑائی میں اترے۔ برٹن کی کالونیوں کے رہنے کے دوران 1870 میں اپنے  صنعتی کاروبار پر آنے والے بحران کو لےکر اور دوسرے  اقتصادی مدعوں پر لوگوں نے یکجا ہونا شروع کیا اور 1887 تک آتے آتے برٹش حکومت کے ظلموں کے خلاف سیاسی طور پر یکجا ہونے لگے اور اس طرح ہمارے نیشن  اور نیشنل ازم  کا تصور تشکیل ہونا شروع ہوا ۔

ہم نے اس وقت پہلی بار اس بارے میں تصور  کرنا شروع کیا کہ نیشن  کیا ہے اور اس کے اہم عنصر کیا ہے۔ علاقہ، مذہب یا زبان اور کیا یہ عنصر ایک نیشن  کی یکجہتی کے عوامل بن سکتے ہیں؟ فرانس میں جہاں مساوات، آزادی اور بھائی چارہ نیشن  اور نیشنل ازم  کی ترقی کی بنیاد بنا ، وہیں برٹن  میں اس کے ساتھ ساتھ شاہی سلطنت بھی قائم رہی۔ یہ وہ دن تھے جب برٹن  میں صنعت کاری کی شروعات ہو چکی تھی اور اس کو اپنی صنعتوں کے لئے کچّے مال اور اپنے مصنوعات کے لئے ایک بڑے بازار کی ضرورت تھی۔ اگر وہ مساوات، آزادی اور بھائی چارہ کے ہی اصول کو لےکر چلتا تو پوری دنیا میں اپنی کالونیاں قائم نہیں کر پاتا اور اپنے لئے کچے  مال اور بازار کا انتظام نہیں کر پاتا۔

انہوں نے کہا کہ برٹن کی نیشنل ازم  جہاں شہنشاہیت اور نوآ بادیات  ک ملی جلی صورت  تھی وہیں فرانس میں انقلاب ہونے کے باوجود کیتھولسزم اس کی ساخت مرتب  کرنے کا ایک اہم عوامل بنا رہا۔ دوسری طرف جرمنی کی نیشنل ازم  ان سے بالکل الگ اپنی ذاتی برتری کو بنیاد بناکر فروغ پائی ۔ ان کو اپنے فوک کلچر پر فخر تھا اور وہی ان کے ملک کو متحد کرنے کا ذریعہ بنا۔ اسی طرح سوویت روس میں مارکسزم کی تشکیل بھی ایک طرح سے نیشنل ازم  کے فروغ  کا ہی اظہار تھا۔