خبریں

نوٹ بندی کے بعد بینکوں کو ملے جعلی نوٹ، مشکوک لین دین کے معاملات میں اضافہ: رپورٹ

ایف آئی یو کی رپورٹ کے مطابق، جعلی کرنسی رپورٹ (سی سی آر) کی تعداد 2015-16 کے 4.10 لاکھ سے بڑھ‌کر 2016-17 میں 7.33 لاکھ پر پہنچ گئی۔ مشکوک لین دین میں بھی 480 فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ۔

)فوٹو : رائٹرس(

فوٹو : رائٹرس

نئی دہلی : نوٹ بندی کے بعد ملک کے بینکوں کو سب سے زیادہ مقدار میں جعلی نوٹ ملے، وہیں اس دوران مشکوک لین دین میں  480 فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا۔ 2016 میں نوٹ بندی کے بعد مشکوک جمع  پر آئی پہلی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پبلک  اورپرائیویٹ سیکٹر  کے علاوہ معاون بینکوں اور دیگر مالی اداروں میں مجموعی طور پر 400 فیصد زیادہ مشکوک لین دین رپورٹ (ایس ٹی آر) کئے گئے۔ اس لحاظ سے 2016-17 میں کل ملاکر 4.73 لاکھ سے بھی زیادہ مشکوک لین دین کی اطلاعات ارسال کی گئیں۔

Financial Intelligence Unit  (ایف آئی یو) کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق، بینکنگ اور دیگر اقتصادی چینلوں میں 2016-17 میں جعلی کرنسی لین دین کے معاملوں میں  گزشتہ سال کے مقابلے میں 3.22 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی / بھاشا کے پاس رپورٹ کی کاپی دستیاب ہے۔ایف آئی یو مرکزی وزارت خزانہ کا حصہ ہوتی ہے، جو مالیاتی نظام کو منی لانڈرنگ، دہشت گردی کے مالی امداد اور دیگر اقتصادی جرائم کے خلاف حفاظت کے لئے معیاری معلومات فراہم کرتی ہے۔

بہر حال، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے 8 نومبر، 2016 کو 500 اور 1000 کے نوٹوں کو بند کرنے کےاعلان سے جڑا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ جعلی کرنسی رپورٹ (سی سی آر) کی تعداد 2015-16 کے 4.10 لاکھ سے بڑھ‌کر 2016-17 میں 7.33 لاکھ پر پہنچ گئی۔ یہ سی سی آر کا سب سے اونچا اعداد و شمار ہے۔ پہلی بار سی سی آر 2008-09 میں نکالا گیا تھا۔سی سی آر ‘ لین دین پر مبنی رپورٹ ‘ ہوتی ہے اور یہ تبھی سامنے آتی ہے جبکہ جعلی نوٹ کا پتا چلتا ہے۔

ایف آئی یو کے منی لانڈرنگ اصولوں کے مطابق، بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو ان تمام نقد لین دین کی اطلاع دینی ہوتی ہے، جن میں جعلی کرنسی نوٹوں کا استعمال اصلی نوٹ کے طور میں کیا گیا ہو یا پھر قابل قدر ضمانت یا دستاویز کے ساتھ دھوکہ دھڑی کی گئی ہو۔ حالانکہ، رپورٹ میں ایسی جعلی کرنسی کی قیمت نہیں بتائی گئی ہے۔مشکوک لین دین رپورٹ تب نکالی جاتی ہے جبکہ لین دین کسی غیرمعمولی حالت میں ہوتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی اقتصادی دلیل یا منشا نہیں ہوتی۔ اس مدت میں ایسے معاملوں کی تعداد میں 400 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔

مالی سال 2016-17 میں 473000 ایس ٹی آر حاصل ہوئیں، جو 2015-16 کی مقابلے میں چارگنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے پیچھے اہم وجہ نوٹ بندی ہی ہے۔ایس ٹی آر نکالنے کے معاملے سب سے زیادہ بینکوں کے زمرےمیں سامنے آئے۔ ان میں 2015-16 کے مقابلے میں 489 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مالی اکائیوں کے معاملے میں یہ اضافہ 270 کا رہا۔تمام بینکوں اور مالی اداروں کے لئے ایس ٹی آر نکالنا ضروری ہوتا ہے جس کو منی لانڈرنگ روک تھام قانون کے تحت ایف آئی یو کو بھیجا جاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد سامنے آئے کچھ ایس ٹی آر کا ممکنہ تعلق دہشت گردی کے مالی امداد سے ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)