حقوق انسانی

انصاف کے لیے لڑنے والے جسٹس سچر تاریخ میں امر رہیں گے

جسٹس سچر اب ا س دنیا میں نہیں رہے مگر انصاف کے لیے جنگ اور بے باکی کے لیے  دہلی میں لاہور کا دل رکھنے والا یہ شخص تاریخ میں امر رہےگا۔

Photo courtesy: Kamal Mitra Chenoy

Photo courtesy: Kamal Mitra Chenoy

داتا گنج بخش کی نگری لاہور اور حضرت نظام الدین اولیاء کے شہر دہلی میں کئی مماثلتیں ہیں۔بھلے ہی پچھلے 70 سالوں کے دوران سرحدوں نے سیاسی، سماجی اور ذہنی فاصلے کوسوں بڑھادئے ہوں، مگر موسم، مزاج، زبان اور قدم قدم پر افغان ، مغل و برطانوی دور کی یکساں نشانیاں برصغیر کے ان دو اہم شہروں کوابھی بھی مطابقت بخشتی ہیں ۔ اگر زندہ نشانیوں کی بات کریں تو دو لاہوریوں معروف کالم نگار کلدیپ نیئر اور جسٹس راجندر سچر نے برصغیر کے ان دو شہروں کے درمیان کشیدگی کی انتہا کے باوجود روابط قائم رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اس  کی ایک اہم کڑی پچھلے ہفتہ اس وقت ٹوٹ گئی جب راجندر سچر کا دہلی کے ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا۔ وہ 94 برس کے تھے۔ جسٹس سچر 1985 میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

انہوں نے 1946 میں پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لے کر اپنے کیریئر کی شروعات لاہورمیں ایک وکیل کے طور پرکی تھی۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ معروف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ،پی یو سی ایل (Peoples’ Union for Civil Liberties) سے وابستہ رہے۔ان کے والد بھیم سین سچر 1949 میں متحدہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور نانا لاہور کے نامہ گرامی فوجداری وکیل تھے۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے اور دہلی کی ایک پاش کالونی میں رہائش کے باوجود ان کا مزاج قلندرانہ تھا۔ جہاں ان کو چھیڑا تو لاہور کی گلیوں کی روداد کا ایک سیلاب امنڈ آتا تھا۔ کشمیر ان کا خاص موضوع تھا۔ حالات جس طرح وادی میں کروٹ لے رہے تھے وہ خاصے دلبرداشتہ تھے۔ اپریل 1990میں جسٹس وی ایم تارکنڈے کی قیادت میں جب پہلی بار انسانی حقوق کی تنظیموں کے ایک چھ رکنی وفد نے کشمیر کا دور ہ کیا وہ اس کے ایک کلیدی رکن تھے۔ اسی رپورٹ کی بدولت ہی گاؤ کدل، ذکورہ، سونہ وار، نادر گنج، چھانہ پورہ، بسنت باغ، چوٹہ بازار،زینہ کدل، زیرو برج مسجد، بٹہ مالو اور کھریو میں ہوئے قتل عام کے واقعات منظر عام پر آئے۔

حتیٰ کہ اس وقت تک پاکستان بھی گراؤنڈ پر انسانی حقوق کی اس حد تک ہورہی بدترین خلاف ورزیوں سے نا آشنا تھا۔کیونکہ بعد میں پاکستانی مندوب نے عالمی فورمز پر اسی رپورٹ کا حوالہ دیکر ہندوستان کو ایک طرح سے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا۔ اسی رپورٹ نے کشمیری پنڈتوں کے انخلاء کی پول بھی کھول کر رکھ دی تھی اور کئی ہندو اور کشمیری پنڈتوں کے بیانات کے حوالے سے یہ ثابت کردیا کہ اسکے پیچھے حکومتی مشینری کی ایک سازش کام کر رہی تھی، تاکہ کشمیر میں جاری جدوجہد کو ایک فرقہ وارانہ رنگ دیکر ہندوستان میں ہندوؤ ں کو خوف زدہ کیا جائے ۔ جب یہ ٹیم کشمیر پہنچی تو دیکھا کہ پچھلے تین ماہ سے سری نگر اور وادی کے بڑے شہروں میں مسلسل کرفیو نافذ تھا۔ جسٹس سچر کے بقول انہوں نے پنجاب میں 80کی دہائی میں اس سے بھی بد تر حالات دیکھے تھے، مگر مسلسل کرفیو کا نفاذ اور شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کا رجحان کشمیر کے علاوہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملا۔

اسی طرح جنوری 1993میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر یٰسین ملک کا دوران حراست دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ آپریشن کے فوراً بعد ہی انہوں نے اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہی کشمیر میں ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل،انڈیا کو کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کی جانچ کرنے کی اجازت دے۔ ان کی حالت روز بہ روز بگڑ رہی تھی۔ آخر ان کے ایک دست راست اور معروف کشمیری معالج ڈاکٹر عبد الاحد گورو کی وساطت سے جسٹس سچر اور کلدیپ نیئر نے چنندہ شخصیات پر مشتمل وفد ترتیب دیکر کشمیر جانے پر حامی بھر لی۔ سچر خود یٰسین ملک سے ملنے ہسپتال پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کی رپورٹ ایمنسٹی کی رپورٹ کی ہی طرح غیر جانبدار ا، معروضی اور معتبر ہوگی۔ مگر اسی دوران ڈاکٹر گورو کو سرینگر میں قتل کیا گیا، جو ایک الگ کہانی ہے۔ اس کی تفصیلات پھر کبھی۔ جسٹس سچر کی قیادت میں یہ وفد آخر کار مئی 1993کو کشمیر میں وارد ہوا۔

اس وفدنے کشمیر میں انٹروگیشن سینٹروں میں اذیتوں اورحراستی اموات پر ایک مفصل رپورٹ جاری کی۔ اسی وقت سرینگر میں جموں و کشمیر پولیس نے اپنے ایک ساتھی ریاض احمد، جو ایک فٹبالر بھی تھا ، کی موت کے خلاف اسٹرائیک کی تھی۔ ریاض ، جموں سے سرینگر آرہا تھا، کہ فوج نے تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران اس کو ہلاک کیا ۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کا شناختی کارڈ بھی اسکو بچا نہیں پایا۔ تقریباً1500پولیس اہلکاروں اور افسران نے اقوام متحدہ کے دفتر تک مارچ کرکے ، پولیس کنٹرول روم پر قبضہ کیا۔ گفت و شنید کے بعد با لآخر فوج نے کنٹرول روم کو اپنی تحویل میں لے کر کئی پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا۔ پولیس کے سربراہ نے جسٹس سچر کو بتایا کہ جب اہلکاروں سے ہتھیار رکھوائے جا رہے تھے اور ان کو منتشر کیا جا رہا تھا، تو بی ایس ایف نے فائرنگ کرکے تین اہلکاروں کو ہلاک کرکے معاملہ اور پیچیدہ کروایا۔دہلی ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی حثیت سے ان کا ایک فیصلہ نذیرہے۔ یہ کیس دہلی میں ایک دلت اور ایک برہمن کے درمیان زمین کے الاٹمنٹ کے حوالے سے تھا۔

دلت ایک کھاتا پیتا اور سرکاری نوکر تھا، جبکہ برہمن بے روزگار اور غریب تھا۔ برہمن نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ غریب ہونے کے ناطے وہ اس زمین کا مستحق ہے، جبکہ دلت کے پاس پہلے ہی وسائل ہیں۔ انہوں نے بھری عدالت میں برہمن سے سوال کیا کہ کیا وہ دلت کے ہاتھوں پانی پینا قبول کرے گا ، جب اس کا جواب نفی میں تھا تو انہوں نے ایک معرکتہ الآرا فیصلہ صادر کرکے کہا کہ دلت چاہے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، صدیوں سے جس طرح اس کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، جانوروں سے بھی بدتر سلوک ان کے ساتھ کیا گیا ، اس کا مداوا ان کو پورے ملک کے وسائل  دےکر بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس توضیح کے ساتھ انہوں نے زمیں دلت کے حوالے کی۔

مگر تاریخ میں ان کا نام ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی ،معاشی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لینے اور اس پر پہلی بار ایک مفصل رپورٹ تیار کر نے کی وجہ سے زندہ و جاوید رہے گا۔ کانگریس کی قیادت والی پچھلی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے 2005ء میں سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ان کی قیادت میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تقریباً ایک سال کی عرق ریزی کے بعد17نومبر 2006ء کو 403 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ مع 76سفارشات کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کی۔ رپورٹ نے ہندو قوم پرستوں کے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ سیکولر جما عتیں ملک کے وسائل کا استعمال کرکے مسلمانوں کی نا ز برداری کرتی ہیں۔ رپورٹ نے بتایا کہ مسلمانوں کو بیک وقت’ وطن دشمن‘ ہونے اور’ ناز برداری’ کا دہرا الزام سہنا پڑتا ہے۔ اس میں بھی کہا گیا کہ مسلمان احساس کمتری سے دوچار ہیں اور کئی مقامات پر سماجی بائیکاٹ کی وجہ سے ان کو ان مقامات سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا ہے جہاںوہ صدیوں سے رہ رہے تھے۔

 سرکاری نوکریوں میں مسلمان محض 5فیصد ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد جیلوں اور بھکاریوں میں ان کی آبادی کی شرح کے حساب سے زیادہ دیکھی گئی، جبکہ بقیہ تمام معاشی اور تعلیمی اشاریوں میں ان کی حالت ہندو کے انتہائی پسماندہ طبقوں سے بھی بد تر پائی گئی۔مجھے یاد ہے کہ رپورٹ پیش کرنے کی تقریب وزیر اعظم ہاوٰس میں منعقد ہورہی تھی۔ وزیر اعظم کے دفتر کے سبھی افسر اور قومی سلامتی کے مشیر موجود تھے، البتہ کابینہ کے سیکرٹری بی کے چتر ویدی کی غیر حاضری سبھی کو کھٹک رہی تھی۔ بعد میں اکثر افسروں نے دبے لفظوں میں بتایا کہ بیوروکریسی کے سرتاج چتر ویدی اس رپورٹ کے مندرجات سے ناخوش ہیں۔ اس کا برملا اظہار انہوں نے اگلے روزکمیٹی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی سید ظفر محمود کو بلا کر کیا۔

محمود صاحب جب انہیں پریزنٹیشن دے رہے تھے، تو وہ ہر نقطے پر کوئی اعتراض کر کے اسے رد کر دیتے اور آخر میں کہنے لگے ایک سیکولر ملک میں سرکاری وسائل کسی ایک فرقہ پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔2006ء میں ہی ہندوستان میں پہلی بار وزارت اقلیتی امور قائم ہوئی۔ وزارت کے پہلے سیکرٹری ایم این پرساد کا واسط کابینہ کے دو سیکرٹریوں بی کے چتر ویدی اور کے ایم چندر شیکھر سے پڑا۔ دونوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس رپورٹ کو نافذ کروانے کے لیے اپنا خون خشک نہ کریں چونکہ 2002کے گجرات فسادات سے خوف زدہ مسلمان یکجا ہوکر 2004میں کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لائے تھے، اس لئے دل بہلانے کے لئے ان کوکوئی کھلونا دینا ضروری تھا۔ سیکرٹری صاحب کو بتایا گیا کہ سچر کمیٹی، اس کی سفارشات اور ان کے نفاذ کا خوب ڈھول بجنا چاہیے، مگر چھوٹی موٹی اسکیموں کے سوا عملی نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔

محمود صاحب کے بقول افسر شاہی نے من موہن سنگھ کی نیک نیتی اور مسلمانوں کی زندگی کو بہتر بنانے سے متعلق ان کی لگن کو ناکام بنادیا۔ خود کئی بار جسٹس سچر کہتے تھے کہ غیر ضروری پبلسٹی نے زمینی سطح پر حالات دگرگوں کر دیے ہیں۔ اس کا ادراک 2014 کے عام انتخابات اور بعد میں ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں ہوا۔گزشتہ حکومت کی طرف سے اقلیتوں کی ترقی کی کاغذی سکیموں اور سچر کمیٹی کی سفارشات کی بے انتہا پبلسٹی نے ایک طرف ہندو اکثریتی طبقے میں یہ احساس پیدا کیا کہ مسلمانوں نے ان کے اور حکومتی وسائل پر قبصہ کر لیا ہے اور دوسری جانب مسلم بستیوں کی حالت زار اور کسمپرسی عیاں تھی۔

کانگریس یا دیگر ریاستی حکومتوں نے زبانی جمع خرچ اور مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے نظروں میں مزید معتوب بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔ بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار اے ٹی ایم ہیں۔ یہ علاقہ زردوزی کے لئے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں مگر ان میں کوئی بینک ہے نہ پوسٹ آفس۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹ قائم ہیں مسلمانوں کی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما بتاتے تھے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لئے ان کو اقلیت کی کوئی پروا نہیں، اس کے لیڈران مسلم ووٹ کو تقسیم اور ہندو ووٹ یکجاکرنے کے فراق میں تھے۔

ادھر سیکولر پارٹیوں کو معلوم تھا کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لئے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ سچر کہتے تھے کہ مسلمانوں کی حالت صرف تعلیم پر توجہ دینے سے ہی بدل سکتی ہے، ان کا ماننا تھا کہ یہ واحد مذہب ہے جس کے صحیفوں میں علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مگر ابھی پچھلے ماہ اسپتال میں بھرتی ہونے سے قبل جب ان سے فون پر بات ہوئی تووہ مسلمانوں میں رو ز بروز بڑھتے عدم تحفظ کے احساس سے خائف تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک علامت ہے، جس کا حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ سچر اب ا س دنیا میں نہیں رہے مگر انصاف کے لیے جنگ اور بے باکی کے لیے  دہلی میں لاہور کا دل رکھنے والا یہ شخص تاریخ میں امر رہےگا۔