خبریں

عدالت نے حکومت سے پوچھا : ریپ  سے متعلق آرڈیننس لانے سے پہلے کیا کوئی مطالعہ کیا گیا؟

دہلی ہائی کورٹ  نے پوچھا کہ کیا اس نتیجہ کے بارے میں غور کیا گیا جو متاثرہ کو بھگتنا پڑ سکتا ہے؟ ریپ  اور قتل کی سزا ایک جیسی ہو جانے پر کتنے مجرم متاثرین کو زندہ چھوڑیں‌گے؟

Protest against Kathua Rape PTI

علامتی تصویر/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ  نے سوموار کو مرکزی حکومت  سے پوچھا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے ریپ کے جرم میں مجرم  کوسزائے موت کا اہتمام کرنے والا آرڈیننس لانے سے پہلے کیا اس نے کوئی ریسرچ یا سائنسی جانچ پرکھ کی تھی؟ وہیں، ایک دوسرے  معاملے کی سماعت کرتے ہوئے بامبے  ہائی کورٹ  نے کہا کہ ریاستی حکومت کو قانون میں تبدیلیوں سے اپنی پولیس کوواقف  کرانے کی ضرورت ہے۔دہلی ہائی کورٹ  نے ایک پرانی پی آئی ایل  پر سماعت کرتے ہوئے یہ سوال کیا۔ پی آئی ایل میں 2013 کےCriminal Law (Amendment) Actقانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون میں ریپ  کے مجرم  کو کم از کم سات سال جیل کی سزا اور اس سے کم سزا دینے کے عدالت کے اختیار کے اہتمام ختم کر دئے گئے تھے۔

 کیئر ٹیکر چیف جسٹس اور جسٹس سی ہری شنکر کی بنچ  نے حکومت سے پوچھا، ‘ کیا آپ نے اس پر کوئی مطالعہ یا کوئی سائنسی جانچ پرکھ کی کہ موت کی سزا ریپ  کے واقعات کو روکنے میں اثردار ثابت ہوتی ہے؟ کیا آپ نے اس نتیجہ کے بارے میں سوچا ہے جو متاثرہ کو بھگتنا پڑ سکتا ہے؟ ریپ  اور قتل کی سزا ایک جیسی ہو جانے پر کتنے مجرم متاثرین کو زندہ چھوڑیں‌گے؟ ‘ مرکزی کابینہ  نے دو دن پہلےکرمینل لاء (ترمیم) آرڈیننس 2018 کو منظوری دی ہے جس میں 12 سال سے کم عمر کی بچیوں  سےریپ  کے مجرموں کو کم سے کم 20 سال جیل سے لےکر عمر قید یا موت کی سزا تک دینے کے سخت اہتمام کئے گئے ہیں۔

اگر متاثرہ کی عمر 16 سے کم اور 12 سال سے زیادہ ہوگی تو آرڈیننس کے مطابق، مجرم  کو دی جانے والی کم از کم 10 سال جیل کی سزا کو بڑھاکر 20 سال کر دیا گیا  ہے اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ، گجرات کے سورت اور اتر پردیش کے اناؤ  میں نابالغوں  سے ہوئے ریپ  کے واقعات سے ملک بھر میں پیدا ہوئے غصے کے بعد مرکز نے آرڈیننس کو منظوری دی ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومت اصل وجہوں پر غور بھی نہیں کر رہی اور نہ ہی لوگوں کو تعلیم یافتہ کر رہی ہے۔ بنچ  نے کہا کہ مجرموں کی عمر اکثر 18 سال سے کم  ہوتی ہے اور زیادہ تر معاملوں میں مجرم  فیملی یا جان پہچان والوں  میں سے ہی کوئی ہوتا ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ آرڈیننس لانے سے پہلے کسی متاثرہ سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ یہ تبصرہ اس وقت کیا گیا  جب بنچ  کو پی آئی ایل  پر سماعت کے دوران حال میں لائے گئے آرڈیننس کے بارے میں بتایا گیا۔ عرضی میں مانگ کی گئی ہے کہ ملک کی راجدھانی میں 16 دسمبر 2012 کو 23 سال کی ایک لڑکی سے ہوئے گینگ ریپ اور پھر اس کے  قتل کے بعد ریپ  کے قانون میں کئی گئی ترمیم خارج کر دی جائے۔ماہر تعلیم مدھو پورنیما کشور نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ جنسی جرائم سے جڑے قانون میں کی گئی  ترمیم کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ نئے آرڈیننس کے تحت، خواتین سے ریپ  کے جرم میں کم از کم سزا کی مدت سات سال کی قید با مشقت  سے بڑھاکر 10 سال کر  دی گئی ہے جس کو بڑھاکر عمر قید تک کی جا سکتی ہے۔

صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے آئی پی سی، انڈین ایویڈینس ایکٹ ، سی آرپی سی اور پاکسوقانون میں تبدیلی کے لئے آرڈیننس کو منظوری دی ہے۔وہیں،بمبئی  ہائی کورٹ  نے سوموار کو کہا کہ ریاستی حکومت کو قانون میں تبدیلیوں سے اپنی پولیس کوواقف  کرانے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہا کہ پولیس کو ہمیشہ ہی متاثرین، خاص طور پر بچوں یاعورتوں  کے معاملوں میں فلاح و بہبود کی سمت میں کام کرنا چاہئے۔جسٹس این ایچ پاٹل اور جسٹس جی ایس کلکرنی کی رکنیت والی ایک بنچ  نےریپ  کی متاثرہ ایک نابالغ لڑکی کو اس مہینے کی شروعات میں اپنے 24 ہفتہ کے حمل کو گرانے کی اجازت دیتے ہوئے مہاراشٹر حکومت سے یہ جاننا چاہا تھا کہ ایسے معاملوں سے نپٹنے کے لئے کیا پولیس کو کوئی ہدایت یا سرکلر جاری کیا گیا ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ اس طرح کے معاملوں سے نپٹنے کو لےکر حساس ہونا چاہئے اور متاثرہ، اس کے ماں باپ یا فیملی کو حمل گرانے کے اختیارات کے بارے میں اطلاع دینی چاہئے۔سرکاری وکیل ابھینندن واگیانی نے عدالت سے کہا کہ حالانکہ کچھ انضباطی ہدایات ہیں لیکن یہ عدالت کے ذریعے اٹھائے گئے پہلو سے وابستہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت مسئلے  پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم  کرنے کی خواہش مند ہے اور اگر عدالت نے ہدایت دی تو ترمیم شدہ ہدایات کے ساتھ آئے‌گی۔اس کے بعدبنچ  نے کہا کہ حکومت کو یہ ضروردیکھنا چاہئے کہ پولیس نظام ہر قانون سے اور اس میں کئے جانے والی تبدیلیوں سے واقف  رہے۔