حقوق انسانی

’دہشت گردوں کی مدد‘: ترکی میں 14 صحافیوں کو سزا

ترکی میں اپوزیشن کے مرکزی اخبار ’جمہوریت‘ کے چودہ صحافیوں کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ترکی میں آزادی صحافت کی ابتر صورت حال پر شدید تنقید کی ہے۔

ترک صحافی ’جمہوریت‘ کے کارکنوں پر مقدمات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے

ترک صحافی ’جمہوریت‘ کے کارکنوں پر مقدمات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے

ترکی میں ’جمہوریت‘ اپوزیشن کا وہ مرکزی اخبار ہے، جس کی طرف سے ملکی صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاست پر تنقید کی جاتی ہے۔ جن چودہ صحافیوں کو ایک ترک عدالت نے بدھ پچیس اپریل کو دہشت گردوں کی تائید و حمایت کے الزام میں سزائے قید سنائی، ان سب کا تعلق اسی ترک جریدے سے ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور کئی دیگر ادارون نے ایک درجن سے زائد ترک صحافیوں کو سنائی گئی قید کی ان سزاؤں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ خدشات شدید تر ہو گئے ہیں کہ ترکی میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے خلاف ایک باقاعدہ کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے۔

اس مقدمے میں استغاثہ کی طرف سے ’جمہوریت‘ کے کل 17 کارکنوں کے خلاف ایسی تنظیموں اور گروپوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن کو انقرہ حکومت نے ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے۔ ان میں سے تین ملزمان کو عدالت نے بری کر دیا جبکہ 14 کو سزائیں سنا دی گئیں۔

استغاثہ کے متعلقہ عدالت کی طرف سے تسلیم کر لیے گئے موقف کے مطابق ان صحافیوں نے جن ’دہشت گرد‘ گروپوں اور تنظیموں کی حمایت کی تھی، ان میں کردوں کی ممنوعہ کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے، انتہائی بائیں بازو کی پیپلز لبریشن پارٹی فرنٹ اور امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک شامل تھیں۔

انقرہ حکومت کا الزام ہے کہ جولائی 2016ء میں ترکی میں کی جانے والی فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے گولن تحریک ہی کا ہاتھ تھا۔ گولن اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق روزنامہ ’جمہوریت‘ کے چیئرمین آکین اتالائے کو آٹھ سال اور ڈیڑھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ اس مقدمے کے ایسے واحد ملزم تھے، جو عدالتی فیصلے کے وقت جیل میں تھے۔ سزا پانے والے صحافیوں کی طرف سے اپیل کیے جانے کے باعث عدالت نے کہا ہے کہ جب تک اس اپیل پر کوئی عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آتا، ملزمان کو جیل نہ بھیجا جائے۔

’جمہوریت‘ کے چیف ایڈیٹر مراد سابونچو اور تحقیقاتی صحافت کرنے والے اسی اخبار کے معروف صحافی احمد سیک دونوں کو ساڑھے سات سات سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ باقی ماندہ 11 صحافیوں کو مختلف مدت کی سزائے قید کے حکم سنائے گئے ہیں۔

اسی اخبار کے ایک سابق چیف ایڈیٹر جان دُوندار کے خلاف جاری اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی علیحدہ سے سماعت ابھی جاری ہے۔ دُوندار اس وقت جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

’جمہوریت‘ کے چیف ایڈیٹر سابونچو نے اس فیصلے کے بعد ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سزائیں ہمیں اپنے پیشے میں ایمانداری سے کام کرتے رہنے سے نہیں روک سکیں گی۔ یہ فیصلہ ترکی اور ترک نظام انصاف کے لیے شرم کی بات ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس فیصلے کو بعد میں ایک اپیل کورٹ منسوخ کر دے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ترکی میں ہر صحافی اور ہر شہری کو ہمت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔