فکر و نظر

سلمان خورشید کا بیان : داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی…

سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس اپنے ہی سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر کے بیان سے دامن کیوں جھاڑ رہی ہے؟کیا کانگریس سافٹ ہندتوا کی سیاست کے بعد اس وقت یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ؟

فوٹو :پی ٹی آئی

فوٹو :پی ٹی آئی

 جون ایلیا سے منسوب یہ قول بہت مشہور ہے کہ ؛پاکستان   علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی،سلمان خورشید کے حالیہ بیان میں لفظ’ مسلمان‘ بھی انہی معنوں میں میڈیا کی ’شرافت‘اور’معصومیت‘ہے۔پھریوں بھی ہے کہ جو بات علی گڑھ سے نکلتی ہے مشرف بہ اسلام ہو نہ ہو میڈیا کی اپنی زبان میں نعرہ تکبیر ضرور بلند کرتی ہے،سوسنیئرکانگریسی لیڈراورسابق مرکزی وزیرکے بیان بلکہ بیان کے ’ میڈیا کرن ‘پر ہنگامہ برپا ہے؟ تو پوچھنا چاہیےکہ کیا سلمان خورشیدنے یہ کہا تھا کہ ؛ہمارے دامن پر ’مسلمانوں ‘کے خون کے دھبے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا یہ میڈیا کی مسلمان دوستی تھی کہ جو کہا نہیں گیاوہ سنا گیا ؟

تو کیا یہ سب اس لیے ہوا کہ سوال میں مسلمانوں کا خاطر خواہ حوالہ در آیاتھا؟اگر آپ نے صرف خبریں پڑھی ہیں تو  آپ کو چاہیے کہ سلمان خورشید کے بیان والا ویڈیو بھی سنیں ۔میں یہیں صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ سابق مرکزی وزیرکے بیان کو مسلمانوں کی ’نظر ‘سے دیکھنے میں بھی  کوئی عیب نہیں کہ سوال کرنے والا مسلمان ،سوال مسلمان ،جواب دینے والا مسلمان اور جگہ بھی مسلمانوں کے مکے مدینے سے کم نہیں …،لیکن اس بیان کو صرف مسلمان بنادینا ،ہندوستان کے معزز شہریوں کی حق تلفی بھی ہے کہ اس میں سب کا حصہ ہے،اس لیے میڈیا والی خوش فہمی سے نکل جانے میں ہی بھلائی ہے۔

حالاں کہ اس خوش فہمی کو پالنے میں میڈیا کے  علاوہ بی جے پی نے ہماری بہت مدد کی ہے۔اورمان لیجیے کہ سابق مرکزی وزیر نے مسلمانوں کے لیے ہی اپنی بات کہی تو اس بات کو لے کر آپ اتنے خوش فہم کیوں ہیں ؟کیا آپ کو کانگریس کی یہ بے شرمی نظر نہیں آرہی کہ وہ اس بیان سےصاف بچ کر نکلنا چاہتی ہے؟یاد کیجیے2005میں جب سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایوان کے اندر باہر اور لندن میں بھی مطلب کئی بار سکھ دنگے (1984)کے لیے حکومت کی جانب سے معافی مانگی تھی ،تو اس وقت کانگریس نے اس بیان سے کنارہ کشی نہیں کی تھی بلکہ سونیا گاندھی نے بھی افسوس کا اظہارکیا تھا۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب راہل گاندھی نے اس سلسلے میں مبہم باتیں کہی تھیں تو ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا پھر انہوں نے بھی اسی میں عافیت سمجھی کہ اس کو مان لیا جائے ۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اورسابق مرکزی وزیرسلمان خورشید کے کہے میں صرف اتنا فرق ہے کہ منموہن سنگھ نے جہاں خصوصی طور پرسکھ دنگے کے لیےمعافی مانگی تھی وہیں سلمان خورشید نے مسلمانوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایسا کچھ نہیں کہا جو ان کے بیان کو مسلمانوں تک محدود کر دیا جائے۔سابق مرکزی وزیر نے جواب دیتے ہوئے پہلی بات یہی کہی تھی ناکہ؛

’یہ سیاسی سوال ہے‘ ،اس کے بعد انہوں نے جواب دیا …۔

کسی سوال کو سیاسی خانے  میں رکھ کر جواب دینے کا کیا مطلب ہے ؟ اس پر غور کرنا چاہیے،اور ان کے کہے ایک ایک لفظ پر دھیان دینا چاہیے پھر اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ بیان کوئی سیاسی ہتھکنڈہ تھا؟اوریہ بھی کہ آئند ہ لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر کانگریس کے نظریے سے اس بیان کو کس طرح سے دیکھا جاناچاہیےجبکہ گزشتہ دنوں کانگریس پر سافٹ ہندتوا کی سیاست کے بھی الزام لگےہیں؟اس طرح کے کئی سوال اس لیے بھی فوری طور پر توجہ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو کانگریس کی سابق سربراہ سونیا گاندھی کے اس بیان کی روشنی میں بھی دیکھنا چاہیے کہ ؛ بی جے پی نے عوام کو باور کرایا ہے کہ کانگریس مسلم پارٹی ہے۔انہوں نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ؛ ان کی پارٹی میں ہندو اکثریت ہے اس لیے ہماری پارٹی کو مسلم پارٹی کے طور پر برانڈ کرنے کا کیا مطلب ہے۔گویا کانگریس ان دنوں سب کی پارٹی والی سوچ میں ہندتوا کو بھی اہمیت دے رہی ہے اور مسلمانوں کی قربت کو بہت زیادہ نمایاں بھی نہیں کرنا چاہتی۔

ویڈیو:زیربحث پروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے سلمان خورشید

چلیے ایک بار اس بیان کو پھرپڑھ لیتے ہیں جوسابق مرکزی وزیرنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سالا نہ تقریب میں ایک اسٹوڈنٹ کے سوال کے جوا ب میں ریکارڈ کروا دیا کہ ؛

ہمارے دامن پہ خون کے دھبے ہیں…

  اور جب درمیان میں لوگوں نے ان کو درست کرنے کی کوشش کی کہ نہیں نہیں ،آپ نہیں ،کانگریس …تو انہوں نے برجستہ کہا کہ؛

 میں بھی کانگریس کا حصہ  ہوں تو مجھے ماننے دیجیے۔

دراصل عامرمنٹوئی  نے کانگریس کے زمانے میں ہونے والے فسادات،بابری مسجد،ہاشم پورہ اورمظفر نگروغیرہ کاحوالہ دیتے ہوئےپوچھا تھا کہ کانگریس کے دامن پرمسلمانوں کے خون کے جو دھبے ہیں ان کو آپ کن لفظوں میں دھوئیں گے؟اس پر سابق مرکزی وزیر نے جہاں اس سوال کو سیاسی کہہ کر ایک طرح سے Ghettoizationوالی نفسیات پر انگلی رکھی وہیں سوال پوچھنے والے کی منشا پر بھی سوال قائم کر دیا ،بہر کیف انہوں نے اپنے جواب میں کہا؛

ہمارے دامن پہ خون کے دھبے ہیں،اسی وجہ سے آپ ہم سےکہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی آپ پر وار کرے تو ہمیں بڑھ کر اس کو روکنا نہیں چاہیے ۔ہم یہ دھبے دکھائیں گے کہ تم سمجھو کہ یہ دھبے جوہم پر لگے ہیں تم پر نہ لگیں۔ہماری تاریخ سے آپ کچھ سیکھیں،سمجھیں،آپ اپنا حشر ایسا نہ کریں کہ آج سے دس سال بعد کوئی اے ایم یو آئے تو آپ جیسا سوال پوچھنے والا بھی نہ ملے۔

جی ، اس بیان میں ’صرف مسلمان‘ کہیں نہیں ہیں ،لیکن میڈیا کی طرح بی جے پی نے بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا اور اضافی طور پر کہاکہ کانگریس کے دامن پر صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ سکھوں کا بھی خون ہے،اتنے سے جی نہیں بھرا تو اور وضاحت سے اپنی بات کہی کہ ؛ کانگریس کے دامن پر کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا خون ہے۔پھر سوال وہی ہے کہ  جو کہا نہیں گیاوہ سنا کیوں گیا ؟اور سابق مرکزی وزیر کے بیان کا سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر بی جے پی نے بھی خیر مقدم کیا۔

بہر کیف اس معاملے کے بعد صحافیوں سے بات کر تے ہوئے بھی آخرسابق مرکزی وزیر نے کیوں کہا کہ ؛جو انہوں نے کہا وہ اس پر قائم ہیں اور آگےبھی کہتے رہیں گے ،ہاں پارٹی نے جب خود کو اس بیان سے الگ کیا تو سلمان خورشیدنے یہ ضرور کہا کہ انہوں نے انسان ہونے کے ناطے اُس سوال کے جواب میں یہ بات کہی جس میں ان کو اور ان کی پارٹی کو مورد الزام ٹھہرا یاگیا تھا ،جی ؛یہاں پروہ  ذرا سا یوٹرن لیتےنظر آئے کہ انہوں نے  علی گڑھ میں بہت واضح طور پر کہا تھا کہ وہ بھی کانگریس کا حصہ ہیں ۔شاید اس لیے کانگریس کو صفائی دینے کے لیے سامنے آنا پڑا۔اس صفائی میں جس طرح سے مذہبی اقلیت اور دوسری کمیونٹی کا نام لے کر بیان کی تردید کی گئی وہ اپنے آپ میں چور کی ڈاڑھی میں تنکے والی کہاوت کی یاد ہی تازہ نہیں کرتی بلکہ کانگریس کی بے شرمی کو بھی سامنے لاتی ہے۔

مسلمانوں کے اندر ایک طبقہ ہمیشہ سے مانتاہے کہ کانگریس نے ہی ان کا استحصال سب سے زیادہ کیا ہے۔لیکن یہاں سوال ہر پھر کر وہی ہے کہ ایک بڑے بیان کو مشرف بہ اسلام کیوں کر دیا گیا۔اوربعد میں سابق مرکزی وزیر یہ کیوں کہتے نظر آئے  کہ انہوں نے جو کہا وہی کہا اور وہ آگے بھی کہتے رہیں گے۔پھر آپ کو کیوں نہیں لگتا کہ سلمان خورشید جوکہہ رہے تھے وہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں ہے،اور اس میں پارٹی کے لیے بھی ایک میسج ہے۔

عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے ایک دانشور طبقہ نے اس کو کنفیشن کے طور پر دیکھا اور نیوز چینل پر کہتے نظر آئے کہ یہ ایک اچھی شروعات ہے دوسری پارٹیوں کو بھی آگےآنا چاہیے ۔مان لیتے ہیں کہ یہ کنفیشن تھا تو پھر وہ کانگریس کے تمام سیاسی گناہوں کا اعتراف کر رہے تھے اور یہ بھی یاد دلا رہے تھے کہ کیا اس بنیاد پر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اب اگر کوئی حملہ کرے تو ہم اس کے لیے آگے نہ آئیں۔

لیکن ان کے جواب کو میڈیا نے پان کی طرح چبا کر پہلے لال لال کیا پھر گلگلاتے ہوئے تھوک دیا کہ کانگریس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں ۔ کیا صرف اس لیے کہ سوال کرنے والوں نے مسلمانوں کی طرف سے سوال پوچھ لیا یا پھر یہ کہ وہ یونیورسٹی بی ایچ یو نہیں تھی ۔ان خوش ہونے والے مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ کیا اس بیان کے بعد سلمان خورشیدبھی مشرف بہ اسلام ہوگئے ،کیوں کہ یہ وہی  سابق مرکزی وزیر ہیں ہیں جن پر دارالعلوم دیوبند نے  کبھی فتویٰ دیا تھا ؟

فوٹو :پی ٹی آئی

فوٹو :پی ٹی آئی

اس بیان میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ سلمان خورشید شایدمنموہن سنگھ کی طرح کہنا چاہ رہے تھے کہ وہ تاریخ دوبارہ نہیں لکھ سکتے لیکن وہ اس سےبھاگنانہیں  چاہتے ۔اس لیے وہ مبینہ طور پرایک سیاسی سوال کا جوا ب دیتے ہوئے تمام ہندوستانی شہریوں سے کہہ رہے تھےہاں ہم ذمہ دار ہیں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں ،لیکن اب حالات بد تر ہوتے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں شاید آپ میں سے کوئی یہ سوال بھی کرنے والا نہ ملے ؟ یہ ایک طرح کی وارننگ بھی تھی کہ آپ اپنے سیاسی شعور کا ثبوت پیش کریں ،ورنہ …

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ کیا سابق مرکزی وزیر آئندہ لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کی واپسی کی زمین تیار کر رہے تھے ،اور مسلمانوں نے جس طرح سے اس بیان کو بی جے پی کی ہی طرح اپنے حق میں دیا گیا سمجھ  لیا  تو کیا یہ بھی مان لیا جائے کہ کانگریس کا ایک پیغام مسلمانوں کے بیچ پہنچ گیا ہے۔

اچھا چلیے سوال سے مسلمان ہٹا کر سکھ کر دیتے ہیں تو کیا ان کے جواب میں ردو بدل کی کوئی ضرورت ہے اور پھر انہوں نے کہاں اعتراف کیا کہ ہاں ہم نے مسجد کا دروازہ کھلوایا ،ہمارے زمانے میں مورتی رکھی گئی ۔حقائق اپنی جگہ لیکن اس بیان کو جس طر ح سے کام کرنا چاہیے تھا شاید اس نے کر لیا ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ سابق مرکزی وزیر کے اس بیان سے کانگریس کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں ہونے والی کیوں کہ کانگریس ابھی  اپنے اندر اتنا اعتماد پیدا نہیں کر پائی کہ وہ علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کے بغیر میدان میں آنے کی سوچے۔اس لیے اگر مسلمانوں کے اندر کانگریس کو ووٹ نہیں دینے کی سمجھداری بن گئی ہے تو بھی ان کے لیے علاقائی پارٹیاں ہی ان کی قیادت کے لیے بھلی  بری جو بھی  ہیں وہی ہیں ۔اس بیان پر یہ بھی کہا گیا کہ اس میں کانگریس کے ایک مسلمان لیڈر کے اپنے اندر کا Guilt  سامنے آیا تو پھر یہ بھی کہا جانا چاہیے کہ سابق وزیر اعظم کے اندر سکھ ہونے کا احساس گامزن تھا۔

ممکن ہے کہ یہ بات درست بھی ہو لیکن اتنا تو سلمان خورشید بھی جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے قائد ہونے کا دعویٰ کر کے بھی مسلمانوں کو خوش نہیں کر سکتے۔اس بیان کے ساتھ میڈیا میں  خبرآئی  کہ حالیہ دنوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب سابق مرکزی وزیر پارٹی سے الگ لائن لیتے نظرآئے ۔دراصل انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو بر طرف کیے جانے کی تجویز پر دستخط نہیں کیا تھا ۔ایسے میں سوال ہے کہ کیا سلمان خورشید کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت یہ سب کررہے ہیں اور  پارٹی کی قیادت سے خوش نہیں ہیں؟

کل ملا کرموجودہ سیاسی ماحول میں جب عام شہریوں اورمسلمانوں کے Perceptionسے الگ عدالتوں کے فیصلے آرہے ہیں اور بی جے پی ان چار سالوں میں اور زیادہ مسلم مخالف پارٹی بن کر ابھری ہے تو اس کو دیکھ کر آپ کو لگتا ہے کہ مسلمان کانگریس کے ساتھ نہیں جائیں گے۔اس کے بعد بھی سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس اپنے ہی سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر کے بیان سے دامن کیوں جھاڑ رہی ہے؟کیا کانگریس سافٹ ہندتوا کی سیاست کے بعد اس وقت یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ؟اور ان سوالوں سے پہلے پہلی بات وہی ہے کہ ؛

داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی

کچھ گھٹا دی گئی کچھ بڑھا دی گئی