خبریں

خاص رپورٹ:بہارمیں رام نومی کی یاترا کے لیے کس نے دیں تلواریں؟

گراؤنڈ رپورٹ:آن لائن ہزاروں کی تعداد میں تلواریں ایڈوانس میں ہی خریدی گئی تھیں۔یہاں ایک سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا واقعی آن لائن تلوار خریدنا اتنا آسان ہے کہ کوئی بڑی تعداد میں اس کو خرید سکتا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ہاں۔

Hindu Putra News Laundry

گزشتہ مہینے رام نومی کے موقع پر ملک کے تمام حصوں کے ساتھ ہی بہار میں بھی بڑے پیمانے پر شوبھایاترائیں نکالی گئی تھیں۔ ان شوبھایاتراؤں میں اشتعال انگیز گانے ، تلوار اور دوسرے  ہتھیاروں کی کھلےعام نمائش کی گئی۔ مسجدوں کے سامنے اور مسلم اکثریتی محلوں میں قابل اعتراض گانوں اور نعروں کے ساتھ تلواریں لہراتے گیروادھاری عام تصویر تھی۔فرقہ وارانہ تشدد کے زیادہ تر واقعات کے  پس منظر تیار کرنے میں افواہوں کا بڑارول  ہوتا ہے۔ بہار میں بھی افواہوں کا سہارا لیا گیا، جس کا نتیجہ بہار کے آدھا درجن ضلعوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے طورپر  سامنے آیا۔ دکانیں توڑی گئیں۔ ان کو آگ کے حوالے کیا گیا۔ پتھربازی ہوئی اور مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا۔ نتیجتاً تشددوالےعلاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کر کے دفعہ 144 لگانی پڑی۔

فرقہ وارانہ کشیدگی نے ریاست کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی پیشانی پر بل لا دیا اور امن و سکون کی بحالی کے لئے انہوں نے درگاہ پر چادرپوشی کا راستہ چنا۔ رام نومی کے تشدد کے بعد اب حالات آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگے ہیں۔ لیکن،ان شوبھایاتراؤں  سے جڑے کچھ اہم سوال اب بھی منھ کھولے کھڑے ہیں۔ دوسرے سوالوں کو درکنار کر بھی دیں، تو ایک اہم سوال کے جواب کی تلاش بہت ضروری ہے کہ آخر شوبھایاتراؤں  کے دوران نمائش کئے گئے ہتھیار کہاں سے آئے؟ اس سوال کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کہ کبھی بھی ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تلواروں کی سپلائی کو لےکر چھان بین میں پتا چلا ہے کہ اس کی تیاری کافی پہلے سے ہی کی جا رہی تھی۔ آن لائن ہزاروں کی تعداد میں تلواریں ایڈوانس میں ہی خریدی گئی تھیں۔یہاں ایک سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا واقعی آن لائن تلوار خریدنا اتنا آسان ہے کہ کوئی بڑی تعداد میں اس کو خرید سکتا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ہاں، آن لائن اس کو آسانی سے خریدا  جا سکتا ہے۔ گراہک اور دکاندار کے درمیان رابطہ کرانے والے آن لائن پلیٹ فارم پر جاکر اگر یہ ظاہر کر دیں کہ آپ کو تلوار خریدنی ہے، تو ویب سائٹ کی طرف سے درجنوں تلوار بیچنے والی کمپنیوں کے نمبر دستیاب کرا دئے جائیں‌گے۔ آپ جہاں چاہیں‌گے، یہ کمپنیاں وہاں تک تلواریں کوریئر سے پہنچا دیں‌گی۔

Hindu Putra News Laundry 2

بہار میں ہوئی  فرقہ وارانہ کشیدگی کو لےکر یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نام کے این جی او نے گزشتہ دنوں آزاد جانچ‌کر کے  ایک رپورٹ تیار کی تھی۔تفتیش رپورٹ تیار کرنے والے مضمون نگاروں  میں سے ایک پرشانت ٹنڈن نے انگریزی اخبار ‘ دی ٹیلی گراف ‘ کو کہا تھا کہ رام نومی سے پہلے کثیر تعداد میں تلواروں کی آن لائن خرید ہوئی تھی۔ تفتیش میں پتا چلا تھا کہ ریاست کے ہوم سکریٹری کو خفیہ ذرائعسے یہ جانکاری ملی تھی، لیکن وہ اس کو روکنے میں ناکام رہے۔

رپورٹ میں چیف سکریٹری (ہوم) عامر سبحانی کے حوالے سے لکھا گیا تھا کہ رام نومی کے موقع پر ایک آن لائن پورٹل کے ذریعے تقریباً 2 لاکھ تلواریں خریدی گئی تھیں۔یہ تلواریں کسی ادارہ نے نہیں بلکہ مختلف جگہوں کے5-4الگ الگ افراد نے خریدا تھا جن میں پٹنہ کا ایک کاروباری بھی شامل ہے۔ ذرائع سے پتا چلا ہے کہ حکومت کو ان لوگوں کے بارے میں پوری جانکاری ہے، لیکن حکومت ان کے نام ظاہر نہیں کرنا چاہ رہی ہے۔

دوسری طرف، یہ بھی پتا چلا ہے کہ ریاست کے ضلعوں میں ایسی کئی تنظیم فعال ہیں، جو اس طرح کے پروگراموں کے لئے آسانی سے تلواریں دستیاب کراتی ہیں۔ایسی  ہی ایک تنظیم کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ اس کا نام ہے ہندو پتر(Hindu Putra)۔ اس نام کا ایک فیس بک پیج بھی  چلتا ہے۔  حاجی پور، سمستی پور اور پٹنہ میں یہ فعال ہے۔ اس کا قیام گزشتہ سال اپریل میں ہوا تھا۔ راجیو براہما رشی اس تنظیم کے سر پرست ہیں۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ مبینہ طور پر ہندوؤں کے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔

ہندو پتر  کی طرف سے  حاجی پور علاقے میں اکثر تلواروں کے ساتھ بائیک ریلیاں نکالی جاتی ہیں جن میں لازمی طور پر ‘ جئے شری رام ‘ کے نعروں کے ساتھ تلواروں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔یہ تنظیم اپنے قیام کے وقت سے ہی  حاجی پور کا نام بدل‌کے ہری پور کرنے کی مانگ‌کر رہی ہے۔اصل میں  حاجی پور کا نام بنگال کے گورنر حاجی الیاس شاہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ہندو پتر تنظیم کا ماننا ہے کہ حاجی الیاس شاہ جہادی اور ہندو مخالف تھا۔  حاجی پور کا نام بدلنے کی مانگ کو لےکر تنظیم کی طرف سے ابتک کئی دفعہ ریلیاں بھی نکالی جا چکی ہیں۔

Hindu Putra News Laundry 3

شوبھایاترا کے لئے تلواروں کی ضرورت کی بابت جب تنظیم کے اہلکاروں سے بات کی گئی تو پتا چلا کہ تنظیم کے پاس کافی تلواریں موجود ہیں اور ضرورت کے مطابق ان کو کہیں بھی پہنچایا  جا سکتا  ہے۔ ہندو پتر  سے جڑے پون براہما رشی نام کے شخص سے جب اس نامہ نگار نے اپنی پہچان چھپاکر ایک مبینہ شوبھایاترا کے لئے تلوار مہیا کرانے کی اپیل کی تو وہ اس کے لئے فوراً تیار ہو گیا۔نامہ نگار نے پون براہما رشی سے کہا کہ سمستی پور کے دیہی علاقے میں ایک شوبھایاترا نکالنی ہے۔ اس کے لئے تلوار کی ضرورت ہے۔ اس پر براہما رشی نے کہا، ” آپ کو کتنی تلواریں چاہئے؟ ہزار کہیں‌گے، تو ہزار پہنچا دیں‌گے۔ بس، آپ کو پروگرام سے 4 گھنٹے پہلے ہمیں اطلاع کر دینی ہوگی۔ ہم اپنی گاڑی میں تلوار لےکر پہنچ جائیں‌گے۔ “

اسی چھان بین کے سلسلے میں سمستی پور میں ہندو پتر  کے لئے کام کرنے والے اویناش کمار بادل کا بھی موبائل نمبر ملا۔ اویناش نے بھی تلوار مہیا کرانے کے لئے حامی بھری۔نامہ نگار نے اپنی اصلی پہچان چھپاکر اویناش کمار بادل سے فون پر بات کی۔ بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ سمستی پور میں منعقد شوبھایاتراؤں میں ان کی تنظیم نے تلواریں مہیا کروائی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر آگے بھی تلواریں مہیا کرائی جا سکتی ہیں۔ایک شوبھایاترا کے لئے  تلواریں مہیا کرانے کی گزارش کرنے پر  اویناش نے کہا، ” ہماری تنظیم کے پاس سمستی پور میں 100 سے 150  تلواریں تھیں۔ خود میرے پاس تین  تلواریں اور دو کلہاڑی ہے۔ رام نومی کی شوبھایاترا میں شامل لوگوں کو ہم نے  تلواریں دیں، لیکن کسی نے بھی واپس نہیں کی۔ “

Hindu Putra News Laundry 4

 اویناش نے یہ بھی بتایا کہ اگر ضرورت پڑے‌گی تو وہ  تلواریں خرید‌کر بھی دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ” آپ کو کتنی تلواروں کی ضرورت ہوگی، یہ بتا دیجیے۔ ہم خرید‌کر آپ کو دے دیں‌گے۔ ” لگےہاتھ انہوں نے جوڑا، “…لیکن آپ کو یہ یقینی طور پر  بتا نا ہوگا کہ شوبھایاترا کے بعد  تلواریں واپس مل جائیں۔” ہندو پتر کے فیس بک پیج پر رام نومی سے پہلے ڈالی  گئی کچھ پوسٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ تنظیم کے پاس کافی تعداد میں  تلواریں ہیں۔ تنظیم کے فیس بک پیج پر 12 مارچ کو ایک تصویر ڈالی گئی تھی۔ تصویر میں دفتر کے ٹیبل پر بڑی تعداد میں  تلواریں سجاکر رکھی گئی ہیں اور تنظیم کا ایک اہلکار اس کی نمائش کر رہا ہے۔

اس سے پہلے 5 مارچ کو تنظیم کے فیس بک پیج پر ایک پوسٹر ڈالا گیا تھا جس میں 25 مارچ کو چیتنا مہایاترا نکالنے کا اعلان کیا گیا تھا اور یاترا میں 1000 تلواروں کی نمائش کا ذکر تھا۔دیکھا جائے، تو ہندو پتر کی  طرز پر ہی مقامی سطح پر کئی تنظیم فعال ہیں، جو نہ صرف فرقہ وارانہ کارڈ کھیل‌کر پولرائزیشن کے لئے کام کر رہے ہیں، بلکہ مذہبی جلوسوں کے لئے لاجسٹک بھی مہیا کراتے ہیں۔مختلف لوگوں سے بات چیت میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ علاقوں میں آر جے ڈی، جے ڈی یو  اور دوسری  سیاسی پارٹیوں کے کارکنان نے بھی تلوار لےکر شوبھایاترا نکالی تھی۔

Hindu Putra News Laundry 5

اورنگ آباد میں رہنے والے ایک جوان نے بتایا کہ یہاں الگ الگ پارٹیوں کی طرف سے تین رام نومی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، جنہوں نے مل‌کر شوبھایاترا نکالی تھی۔ اس شوبھایاترا میں تلواروں اور دوسرے ہتھیاروں کی نمائش کی گئی تھی۔تلوار لےکر شوبھایاترا نکالنے اور ان کی حمایت کرنے والوں کے پاس اس کو جائز ٹھہرانے کے لئے اپنی دلیل ہے۔ لیکن جس منظم طریقے سے ان کی تشہیرو توسیع ہو رہی ہے اس میں آن لائن ذرائع، تشدد پسند  نوجوان اور سرکاری اہلکار آپس میں مل‌کر ایک گٹھ جوڑ تیار کر رہے ہیں۔ اس کے خطرے بہت بڑے ہیں۔

(بہ شکریہ نیوزلانڈری)