فکر و نظر

رویش کا بلاگ :حکومت کو حضور نہیں جی حضور جج چاہیے…

یہ حکومت اس لئے نہیں ہے کہ کانگریس کے گناہوں کو دوہراتی رہے۔ کیا ججوں کی تقرری کے معاملے میں مودی حکومت نے کوئی الگ اخلاقی پیمانہ قائم کیا ہے؟

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

حکومت کو حضور نہیں جی حضور جج چاہئے، سپریم کورٹ کے واقعات کو غور سے دیکھئے۔کیا آپ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے، اس کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں؟ جو بھی خبریں چھپ رہی ہیں، عدلیہ کی آزادی پر وار کرنے والی ہیں۔ کانگریس حکومت‌کے وقت عدلیہ میں مداخلت کی دہائی دےکر موجودہ حکومت اپنی مداخلت پر پردہ ڈال رہی ہے۔ یہ حکومت اس لئے نہیں ہے کہ کانگریس کے گناہوں کو دوہراتی رہے۔ کیا ججوں کی تقرری کے معاملے میں مودی حکومت نے کوئی الگ اخلاقی پیمانہ قائم کیا ہے؟ سپریم کورٹ کے چار اہم ججوں اور چار سابق ججوں نے ججوں کی تقرری کے معاملے میں حکومت کی مداخلت کو لےکر فکر ظاہر کی ہے۔ یہ تمام جج کانگریس کے Impeachment کی تجویز کو خارج بھی کر چکے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ چیف جسٹس مشرا نے کالیجئم  کی تجویز کو ٹھکرانے کی اجازت حکومت کو کیسے دے دی ہے؟

سابق چیف جسٹس آر ایم لوڈھا نے کہا ہے کہ حکومت نے کالیجئم  کے ذریعے بھیجے گئے ناموں میں پسند کی بنیاد پر چن‌کر اجازت دےکر عدلیہ کی آزادی پر حملہ کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ جسٹس کے ایم جوزف  کا نام الگ کر دیا، ان کے نام پر ابھی تک منظوری نہیں دی ہے اور کالیجئم کے بھیجے دوسرے نام اندو ملہوترا پر اتفاق کیا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا کرکے حکومت نے مستقبل میں کچھ ججوں کے چیف جسٹس بننے کے امکان کو ٹھکرا دیا ہے۔کالیجئم  کے ذریعے بھیجی گئی فائل پر ہفتوں بیٹھے رہنا اور اس کے بعد ایک نام کو چھوڑ کر ایک پر اتفاق کرنا کوئی نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

جسٹس آر ایم لوڈھا نے کہا ہے کہ ایسی حالت میں چیف جسٹس مشرا کو فوراً کالیجئم  کی بیٹھک  بلاکر  حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ جسٹس لوڈھا نے کہا کہ چیف جسٹس بھی فائل پر غیرمعینہ مدت کے لئے بیٹھے نہیں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت۔ چیف جسٹس کو ابھی اور فوراً اپنی دعوےداری کرنی چاہئے۔ روایت یہی ہے کہ حکومت کالیجئم  کے بھیجے گئے ناموں میں سے پسند کی بنیاد پر نہیں چھانٹ سکتی ہے۔ مگر جسٹس لوڈھا  کے دور  میں بھی حکومت نے ایک نام کو الگ کیا تھا۔ ایکسپریس کی سیما چشتی نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے۔ جسٹس لوڈھا  نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ باہر تھے تب حکومت نے بنا ان کی جانکاری کے گوپال سبرمنیم  کو الگ کر دیا تھا۔ ان کے جج بنائے جانے کو منظوری نہیں دی تھی۔

جسٹس لوڈ ھا نے کہا کہ یہ بہت غلط تھا، میں نے فوراً وزیر قانون کو خط لکھا کہ پھر سے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ کسی چیف جسٹس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس لوڈھا  نے کہا کہ ہم اس کو انجام تک لے جاتے مگر گوپال سبرامنیم نے ہی اپنا نام واپس لے لیا تھا۔سابق جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے بھی جسٹس کے ایم جوزف  کا پرموشن روکنے کوبدقسمتی سے تعبیر کیا  ہے۔ اس کے علاوہ دو اور سابق چیف جسٹس اور چار سابق ججوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایکسپریس کی سیما چشتی سے کہا ہے کہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ چیف جسٹس مشرا کو فوراً حکومت سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔ تین مہینے ہو گئے ہیں اور ابھی تک چیف جسٹس نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے، اس کو لےکر وہ فکرمند ہیں۔ دہلی  ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے کہا ہے کہ آہستہ آہستہ کالیجئم  پر حملہ بڑھتا جا رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ چیف جسٹس نے بھری عدالت میں کہا کہ جسٹس کے ایم جوزف  کی فائل لوٹا دینے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ جسٹس کے ایم جوزف  نے اتراکھنڈ میں غیر آئینی طریقے سے صدارتی حکومت لگائے جانے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔ اروناچل پردیش میں بھی اسی طرح 26 جنوری کی آدھی رات کو صدر راج لگایا گیا تھا، وہ بھی تو عدالت میں نہیں ٹک سکی۔ مودی لہر میں عوام ان واقعات پر توجہ  نہیں دے رہی تھی، اس کو ابھی بھی لگ رہا ہے کہ آئین کی دھجیاں تو کانگریس کی حکومت میں اڑتی تھیں، اب نہیں۔ وہ نہیں دیکھ پا رہے ہیں کہ اس کی آنکھوں کے سامنے کیا ہو رہا ہے۔ اب سب کی نظر اس بات پر ہے کہ کیا چیف جسٹس مشرا کے بعد جسٹس رنجن گگوئی کو چیف جسٹس کی کرسی ملے‌گی؟ سینئر ہونے کی بنیاد پر انہی کا نمبر ہے۔ اس دن طے ہو جائے‌گا کہ حکومت صرف ارادہ ہی نہیں رکھتی ہے، ارادے میں کامیاب بھی ہو چکی ہے۔ آپ جب پوچھیں‌گے تو یہی کہے‌گی کہ کانگریس ہمیں لکچر نہ دے ۔ عدلیہ کی آزادی کا اپنا ریکارڈ دیکھے۔ آپ کی گردن دوسری سمت میں مڑ جائے‌گی اور اس طرح آپ جو ہو رہا ہے وہ نہیں دیکھیں‌گے۔ تکلیف دہ ہے۔

Screen-Shot-2018-04-26-at-4.48.29-PM

10 ستمبر 2017 کو مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ایک ٹوئٹ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق موبائل نمبر کو آدھار سے لنک کرانا ہوگا۔ کئی میڈیا ہاؤس نے ایسی خبریں دکھائی ہیں کہ موبائل سم کو آدھار سے لنک کرنا ضروری ہے اور یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے۔ مگر بدھ کو سپریم کورٹ میں حکومت کے اس جھوٹ کی پول کھل گئی۔ آدھار کی سماعت کر رہی بنچ‌کے ججوں میں سے ایک جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے UIDAI کے وکیل راکیش دویدی سے پوچھا کہ سپریم کورٹ نے کب حکم دیا ہے تب وکیل صاحب سکپکا گئے۔ پہلے سپریم کورٹ کے اس آرڈر  کا حوالہ دیا کہ کورٹ نے ہی کہا ہے کہ سم کارڈ کو ویریفائی کرانا ہے مگر آدھار سے لنک کرنے کا حکم تو اس میں تھا نہیں۔ آخر میں ان کو یہ قبول‌کر لینا پڑا کہ یہ صحیح نہیں ہے اور حکومت مسگائڈ کر رہی تھی یعنی لوگوں کو بھٹکا رہی تھی۔

سپریم کورٹ کے آرڈر  کا نام لےکر ملک سے جھوٹ بولنے پر روی شنکر پرساد کے ساتھ کیا کیا جانا چاہئے؟ کیا ان کو اخلاقیات کی بنیاد پر استعفیٰ نہیں دینا چاہئے؟ آئین کا حلف لینے والا وزیر اگر اس طرح سے جھوٹ بولے تو اس کی اخلاقی طور پر جوابدہی کیا یہ ہے کہ کانگریس کی حکومت میں بھی وزیر اس طرح کی حرکت کرتے تھے۔ روی شنکر پرساد کے ہر بیان کو دیکھئے، لگتا ہے کہ اپنی فائل کم پڑھتے ہیں، کانگریس کی فائل دن رات رٹتے رہتے ہیں۔ ہندی کے اخباروں میں ایسی خبریں چھپتی بھی نہیں ہیں۔ عوام کو پتا بھی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ وزیر اور حکومت کی یہ حرکت اخلاقی اور آئینی ہے؟