خبریں

اونا کے متاثرہ  دلتوں پر پھر حملہ، گھروالوں  نے اپنایا بودھ مذہب 

2016 میں مبینہ طور پر مردہ گائے کی کھال نکالنے کے معاملے میں دلت فیملی کے چار ممبروں کی باندھ‌کر سرعام کی گئی تھی پٹائی۔ دو سال بعد معاملے کے ملزمین میں سے ایک نے مقدمہ واپس لینے کی دھمکی دیتے ہوئے کیا حملہ۔

(فوٹوبشکریہ : ٹوئٹر / وجے پرمار)

(فوٹوبشکریہ : ٹوئٹر / وجے پرمار)

نئی دہلی : گجرات کے گر سوم ناتھ ضلع کی اونا تحصیل میں گئورکشکوں کے ذریعے 2016 میں جس دلت فیملی کے چار ممبروں کو مبینہ طور پر پیٹا گیا تھا، اس فیملی نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ اتوار کو بودھ مذہب اپنا لیا ہے۔گر سوم ناتھ ضلع کے موٹا سمڈھیالا گاؤں میں ہی فیملی نے تبدیلی مذہب کے رسم میں حصہ لیا۔ یہ وہی گاؤں ہے جہاں دو سال پہلے ان لوگوں کو پیٹا گیا تھا۔اس تبدیلی مذہب کے پروگرام سے پہلے گزشتہ 25 اپریل کی شام کو رمیش سرویا اور اشوک سرویا پر دوبارہ حملہ ہوا۔ حملہ کرنے والا انہی ملزمین میں سے ایک ہے، جنہوں نے 2016 میں فیملی کے چار ممبروں کی سرعام پٹائی کی تھی۔ ملزم ابھی ضمانت پر باہر ہے۔

بالوبھائی سرویا اپنی فیملی کے ساتھ اونا سے اپنے گاؤں موٹا سمڈھیالا لوٹ رہے تھے، تبھی کرن سنگھ دربار نے رمیش اور اشوک پر حملہ کیا اور دھمکایا گیا۔تبدیلی  مذہب  کے لئے ضروری مذہبی عمل کے سامان خریدنے کے لئے فیملی اونا شہر گئی تھی۔ جن میں بالو بھائی، اشوک بھائی، رمیش بھائی، وشرام اور فیملی کے دیگر ممبر شامل تھے۔رمیش اور واسرام کے چچا زاد بھائی جیتوبھائی سرویا نے بتایا کہ فیملی ایک گاڑی میں گاؤں لوٹ رہی تھی اور اشوک اور رمیش بائیک پر آگے چل رہے تھے، تبھی کرن سنگھ دربار نے دیکھ لیا اور دونوں پر حملہ کر دیا۔

اونا  پولیس  اسٹیشن کے انسپکٹر وی ایم کُھمان نے بتایا، ‘ رمیش اور اشوک کو  کرن سنگھ نے بائیک چلاتے ہوئے دیکھا۔ کرن بھی بائیک سے جا رہا تھا۔  کرن  نے اپنے دوستوں کو دونوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ دونوں وہی ہیں جن کی پٹائی کی گئی تھی۔ رمیش کو سمٹیر گاؤں کے پاس رامیشور پاٹیا کے ذریعے روکا گیا اور مقدمہ واپس لینے کی دھمکی دی گئی۔ رمیش کے منع کرنے پر  کرن  اور اس کے دوست نے ڈنڈے سے رمیش اور اشوک پر حملہ کر دیا۔ لیکن رمیش نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھیڑ اکٹھا ہونے کی وجہ سے  کرن  اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ گیا۔ ‘

کھمان نے آگے بتایا کہ  کرن  اور اس کا دوست فرار ہے۔ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور معاملے کی تفتیش ڈی ایس پی جے ایم چاوڑا کریں‌گے، جو ایس سی / ایس ٹی سیل کے صدر ہیں۔اونا معاملے کے بعد چار ہوم گارڈ کو سرویا فیملی کی حفاظت میں لگایا گیا تھا، لیکن اونا جاتے وقت ان کے ساتھ کوئی بھی گارڈ موجود نہیں تھا۔متاثر ہ فیملی کے ممبر پیوش سرویا نے بتایا، ‘ ہم نے 20 اپریل کو ضلع کلکٹر کو مطلع کیا تھا کہ ہم 29 اپریل کو بودھ مذہب اپنائیں‌گے اور ہم نے پروگرام کے لئے اپنی کمیونٹی اور دیگر لوگوں سے حمایت مانگی تھی۔ ‘

 تبدیلی مذہب کے پروگرام کے منتظم نے دعویٰ کیا کہ اس میں 450 دلتوں نے بودھ مذہب اپنا لیا۔ سو راشٹر علاقے میں منعقد اس پروگرام میں 1000 سے زیادہ دلتوں نے حصہ لیا۔اس معاملے کے متاثرین  بالو  بھائی سرویا اور ان کے بیٹوں رمیش اور وشرام کے علاوہ ان کی بیوی کنور سرویا نے بودھ مذہب قبول کر لیا۔ بالو  بھائی کے بھتیجے اشوک سرویا اور ان کے ایک دیگر رشتہ دار بیچر سرویا نے بودھ پورنیما کے دن ہندو مذہب چھوڑ دیا تھا۔ یہ دونوں بھی ان سات لوگوں میں شامل تھے، جن کی خود کو گئورکشک بتانے والوں نے مبینہ طور پر پٹائی کی تھی۔

واضح  ہو کہ جون، 2016 میں مردہ گائے کی مبینہ طور پر کھال اتارنے کے معاملے میں سرویا فیملی کے چار ممبروں سمیت سات دلتوں کی پریڈ نکالی گئی تھی اور کار سے باندھ‌کر جم کر پٹائی کی گئی تھی۔ واقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک میں غصہ پیدا ہو گیا تھا۔اس کے بعد گجرات میں ریاستی سطح پر دلتوں نے احتجاج کیا تھا۔ ستمبر میں گجرات سی آئی ڈی نے 43 لوگوں کو اس معاملے میں گرفتار کیا تھا، جس میں دو نابالغ اور چار  پولیس  والے بھی شامل تھے۔ چار میں سے ایک  پولیس  والے کی ستمبر، 2017 میں پیلیا کی وجہ سے موت ہو گئی۔

 بالو  بھائی نے بتایا کہ ظلم وستم کے ایک دیگر متاثر دیوجی بھائی بابریا طبیعت ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکے۔ وہ پڑوسی بیدیا گاؤں کے رہنے والے ہیں۔رمیش نے کہا کہ ہندوؤں کے ذریعے ان کی ذات کو لےکر کئے گئے جانبداری کی وجہ سے انہوں نے بودھ مذہب قبول کر کیا۔انہوں نے کہا، ‘ ہندو گئورکشکوں نے ہمیں مسلم کہا تھا۔ ہندوؤں کی جانبداری سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس وجہ سے ہم نے مذہب بدلنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ریاستی حکومت نے بھی ہمارے خلاف جانبداری کی کیونکہ ظلم وستم کے واقعہ کے بعد جو وعدے ہم سے کئے گئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔ ‘

رمیش نے کہا، ‘ ہمیں مندروں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ ہندو ہمارے خلاف جانبداری برتے ہیں اور ہم جہاں بھی کام کرتے ہیں، وہاں ہمیں اپنے برتن لےکر جانا پڑتا ہے۔ اونا معاملے میں ہمیں ابتک انصاف نہیں ملا ہے اور ہمارے مذہب بدلنےکے پیچھے کہیں نہ کہیں یہ بھی ایک وجہ ہے۔ ‘ سرویا  کے وکیل گووند بھائی پرمار نے بتایا کہ 43 میں سے 35 لوگوں کو ضمانت مل چکی ہے اور اہم ملزم کو بھی اس شرط پر ضمانت دے دی گئی کہ وہ اونا کی سرحد میں داخل نہیں ہوگا۔

گووند پرمار نے بتایا کہ  سرویا  فیملی نے کرن سنگھ کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں کروایا تھا۔ سی آئی ڈی نے ویڈیو کی بنیاد پر اس کی پہچان‌کرکے گرفتار کیا تھا۔ چارج شیٹ میں نام بھی درج کیا تھا، لیکن دیگر ملزمین کی طرح اس کو بھی ضمانت مل گئی تھی۔دلت سماجی کارکن منجولا پردیپ نے دی وائر سے بات چیت میں کہا، ‘ ہم واقعہ کے بعد  سرویا  فیملی کی حفاظت کو لےکر فکرمند ہیں۔ اونا میں صرف 3-4 فیصد دلت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ فیملی کے مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے نے ملزمین کو پریشان کر دیا ہے، جو خود کو ہندو مذہب کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں۔ ان کو ہندو مذہب میں کیوں رہنا چاہئے، جب ان کو اس مذہب میں سماج کے سب سے نچلے مقام پر دیکھا جاتا ہے اور کسی بھی طرح کی عزت نہیں ملتی۔ ‘

بودھسٹ سوسائٹی انڈیا کے صدر راج رتن آمبیڈکر نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ اونا کی متاثرہ فیملی نے بودھ مذہب اپنا لیا ہے۔ اب ہماری تنظیم ان کی پوری ذمہ داری اٹھائے گی اور سرکاری دستاویزوں میں ان کا مذہب ہندو سے بودھ کروائے گی۔ جس مذہب میں اتنی بے عزتی ہو اس مذہب کو چھوڑ‌ دینے میں بھلائی ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ بودھ مذہب اپنانے کی بات بھر سے ان گئورکشکوں نے ان کی فیملی پر پھر سے حملہ کر دیا تھا۔ یہ حرکت بتاتی ہے کہ وہ لوگ کتنے ڈرے ہوئے ہیں۔ میں اگلے ماہ اقوام متحدہ میں یہ مدعا اٹھاؤں‌گا۔ فیملی کے لوگوں نے بودھ  مذہب کی دیکشا لے لی ہے اور جلد ان کو بودھ مذہب کی تعلیم بھی دی جائے‌گی۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)