خبریں

بہار سے گراؤنڈ رپورٹ : کیا رام نومی کے بعد ہوئے تشدد کے لئے باہری لوگ ذمہ دار تھے؟

نالندہ کا سیلاؤ  تھانہ۔ اس تھانے کی چہاردیواری پر بھگواجھنڈے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ تھانے سے کچھ ہی دوری پر حیدرگنج کراہ ہے، جہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

نالندہ کا سیلاؤ  تھانہ۔ اس تھانے کی چہاردیواری پر بھگواجھنڈے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ تھانے سے کچھ ہی دوری پر حیدرگنج کراہ ہے، جہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

 1989 کے بھاگل پور فسادات کو چھوڑ دیں، تو فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں بہار کی تصویر بدنما نہیں رہی ہے۔ لیکن، پچھلے مہینے یعنی مارچ کے آخری ہفتے میں صوبے کے تقریباً آدھا درجن ضلعوں میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نے اس تصویر کو بدل دیا ہے۔فرقہ وارانہ تشدد کا واقعہ جس طریقے سے شروع ہوا اور پھر ایک کے بعد ایک کئی ضلعوں میں اس کا اعادہ ہوا، وہ تشویش کی بات ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا اب ایک مہینہ گزر چکا ہے۔

متاثرہ علاقوں میں معمولات زندگی بحال ہو گئی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں دونوں کمیونٹی کے درمیان کسی طرح کی عداوت یا ایک دوسرے کے متعلق کسی طرح کی بدنیتی نہیں ہے۔صوبے کے سی ایم نتیش کے گھر ضلع نالندہ کا سیلاؤ، کھاجا مٹھائی کے لئے بہت مشہور ہے۔ بہار کے دیگر ضلعوں میں کھاجا مٹھائی ‘ سیلاؤ کا کھاجا ‘ نام سے ہی بیچی جاتی ہے۔گزشتہ 28 مارچ کو سیلاؤ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے سرخیوں میں آ گیا تھا۔ سیلاؤ بازار سے بائیں طرف جانے والی سڑک پر کچھ دور چلنے کے بعد حیدرگنج کراہ محلہ آتا ہے۔ سیلاؤ میں ویسے تو ہندو اکثریتی علاقہ ہے، لیکن حیدرگنج کراہ   محلے میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ رام نومی کا جلوس مسلم محلے سے لے جانے کو لےکر تنازعہ شروع ہوا تھا۔ محلے سے سیلاؤ تھانے کی دوری بہت زیادہ نہیں ہے۔ محض پانچ منٹ میں وہاں پہنچا جا سکتا ہے، اس لئے  پولیس بھی فوراً موقع واردات پر پہنچ گئی اور فساد برپا کرنے پر بضد بھیڑ کو منتشر کر دیا۔سیلاؤ بازار کافی بڑا ہے اور یہاں ضرورت کا ہر سامان ملتا ہے۔ دن بھر بازار میں گہماگہمی رہتی ہے۔ بازار میں مٹھی بھر دکانیں مسلمانوں کی بھی ہیں۔ لیکن، ان کے چہرے پر کوئی خوف نہیں دکھا۔ سیلاؤ کے لوگ فرقہ وارانہ تشدد کو اب بھول جانا چاہتے ہیں۔سیلاؤ بازار میں رہنے والے 74 سالہ رام بالک سنگھ کہتے ہیں، ‘ جو ہونا تھا، ہو گیا، اب کسی کے دل میں کسی طرح کی رنجش نہیں ہے۔ ‘

کشیدگی کی وجہ سے ایک ہفتے تک بازار پوری طرح بند تھا۔ رام بالک سنگھ نے بتایا، ‘ جیسا جلوس اس بار دیکھنے کو ملا، ویسا جلوس میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ روڈ پر تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ ‘ادھیڑعمر کے علاءالدین سیلاؤ تھانے کے سامنے فٹ پاتھ پر چپل کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ حیدرگنج کراہ میں رہتے ہیں۔چپلیں ترتیب سے رکھ‌کر وہ سیلاؤ تھانے کی چہاردیواری پر لہرا رہے بھگوا جھنڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مختصر جملہ اچھالتے ہیں، ‘ آپ تو دیکھئیے رہے ہیں۔ ‘ دوسرے ہی پل وہ یہ بھی جوڑتے ہیں، ‘ جو ہوا، وہ فوری حادثہ تھا۔ اب تو سب کچھ پہلے جیسا ہی ہو گیا ہے۔ ہم سب مل جل کر رہ رہے ہیں۔ کسی کے دل میں رتی بھر بھی نفرت نہیں ہے۔ ‘

یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نام کے این جی او کی جانچ رپورٹ کے مطابق، سیلاؤ میں رام نومی کے جلوس میں شامل ہونے کے لئے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا تھا کہ جلوس سے پہلے دونوں کمیونٹی کے خاص لوگوں کی میٹنگ ہوگی۔ لیکن، کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ میٹنگ کیوں نہیں ہوئی، یہ اب بھی ایک راز ہے۔بتایا جاتا ہے کہ جب شوبھایاترا شروع ہوئی، تو محلے میں داخلے کو لےکر دونوں فریقوں میں کہاسنی ہو گئی جس کے بعد پتھراؤ ہوا اور کچھ گھروں میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ، یہاں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں :بہارمیں رام نومی کی یاترا کے لیے کس نے دیں تلواریں؟

نالندہ سے ہی سٹے نوادہ ضلع کے نوادہ شہر واقع بائی پاس میں گونداپور چوک پر 30 مارچ کو تشدد پھیلا تھا۔بائی پاس سے  بائیں طرف کنکریٹ کی ایک سڑک جاتی ہے۔ اسی جگہ جرجر مکان کے ڈھانچے کے پاس پرتی زمین پڑی زمین پر کنکریٹ کا چبوترہ بنا ہوا ہے جس پر بجرنگ بلی کی چھوٹی سی مورتی نصب تھی۔اس  مورتی کو نقصان پہنچا یا گیا تھا، جس کے بعد یہاں تشدد پھیلا تھا۔  مورتی برباد ہونے کے بعد وہاں دوسری  مورتی نصب کر دی گئی ہے۔ نئی  مورتی پہلی  مورتی سی بڑی ہے۔ مورتی توڑنے کا الزام مسلم کمیونٹی پر لگا تھا کیونکہ بائی پاس کی دوسری طرف (جس طرف  مورتی ہے اس کی دوسری طرف) کچھ دوری پر ایک بلڈنگ ہے جو شادی وغیرہ کے لئے کرایے پر دی جاتی ہے۔

نوادہ بائی پاس کے پاس  نصب بجرنگ بلی  کی مورتی۔ یہاں پہلے چھوٹی  مورتی لگی تھی، جس کو پارہ پارہ  کئے جانے کی وجہ سے یہاں کشیدگی پھیل گئی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

نوادہ بائی پاس کے پاس  نصب بجرنگ بلی  کی مورتی۔ یہاں پہلے چھوٹی  مورتی لگی تھی، جس کو پارہ پارہ  کئے جانے کی وجہ سے یہاں کشیدگی پھیل گئی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ  بلڈنگ میں مسلم کمیونٹی کی بارات ٹھہری ہوئی تھی، تو ممکن ہے کہ انہی لوگوں نے  مورتی توڑپھوڑ کی ہو۔ حالانکہ، اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔ گونداپور چوک پر چائے کی دکان چلانے والے ایک نوجوان سے جب بات ہوئی، تو اس کا سوال تھا، ‘ ان کی (مسلمانوں) بارات وہاں ٹھہری تھی، تو  مورتی کون توڑے‌گا؟ ‘ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اب لوگ اس واقعہ کو بھول چکے ہیں۔چوک‌کے ہی ایک چبوترہ پر کچھ لوگ تاش کھیلتے ہوئے بھی دکھے۔ ایک بزرگ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرائے جیسے کہ 30 مارچ کو کچھ ہوا ہی نہ ہو اور کہا، ‘ دیکھ لیجئے، وہاں تاش کھیل رہے لوگوں میں دو مسلمان بھی ہیں۔ اب کسی بھی کمیونٹی کے دل میں کوئی گانٹھ نہیں ہے۔ ‘چوک پر ہی سیمنٹ کی دکان چلانے والے پروفیسر صاحب کہتے ہیں، ‘ میری دکان میں مسلمان بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم لوگ پہلے بھی مل جل کر رہتے تھے اور اب بھی رہ رہے ہیں۔

نوادہ میں گزشتہ سال بھی رام نومی کے جلوس کو لےکر کئی دنوں تک ماحول کشیدہ  رہا تھا۔ پولیس کو حالت بحال کرنے کے لئے کڑی مشقت کرنی پڑی تھی۔ اس بار کی کشیدگی کے بعد یہاں احتیاط کے طور پر چار پولیس ملازمین‎ کی تعیناتی کی گئی ہے، جو بجرنگ بلی کی  مورتی کے پاس بنے پنچایت دفتر میں دن بھر اونگھتے رہتے ہیں۔سمستی پور ضلع میں بوڑھی گنڈک کے کنارے بسے روسڑا میں فرقہ وارانہ تشدد سے یہاں کے لوگ حیران ہیں کیونکہ یہاں پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا۔

نالندہ کا سیلاؤ  تھانہ۔ اس تھانے کی چہاردیواری پر بھگواجھنڈے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ تھانے سے کچھ ہی دوری پر حیدرگنج کراہ ہے، جہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

نالندہ کا سیلاؤ  تھانہ۔ اس تھانے کی چہاردیواری پر بھگواجھنڈے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ تھانے سے کچھ ہی دوری پر حیدرگنج کراہ ہے، جہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

روسڑا شہر کے بیچوں بیچ واقع گدڑی بازار (جہاں تشدد ہوا تھا) میں گھنی آبادی ہے۔ یہاں پرچون سے لےکر پان تک کی دکانیں آباد ہیں، لیکن سب سے زیادہ دکانیں جویلری کی ہیں۔بازار کے پچھلے حصے میں دو تین مسلم گھر  ہیں اور باقی ہندو، مسلمان پشتوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور ہندو بھی۔پرانا بازار میں واقع ضیا العلوم مدرسہ میں نماز پڑھنے آئے 85 سالہ عبدالقدوس بانکیرام، سیتارام اور نہ جانے کتنے ہی نام گنا دیتے ہیں، جن کے ساتھ ان کا بچپن گزرا تھا۔وہ کہتے ہیں، ‘ روسڑا میں کبھی اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا۔ ہندوؤں کے ساتھ ہمارا دعوت نامہ چلتا ہے۔ اب بھی ہمارے درمیان کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے۔ ‘

قابل ذکر ہے کہ 26 مارچ کی رات ہنومان چوک‌کے قریب واقع درگا مندر سے چیتی درگا کی  مورتی وسرجن کے لئے نکلی تھی، جس میں کافی تعداد میں لوگ شامل تھے۔ریلی گدڑی بازار سے ہوکر جا رہی تھی۔ گدڑی بازار میں ہی جامع مسجد ہے۔ مسجد سے منسلک ایک چھجہ ہے اور نیچے جویلری کی کئی دکانیں ہیں۔بتاتے ہیں کہ چھجہ سے کچھ لوگ وسرجن کے لئے نکل رہی جھانکی دیکھ رہے تھے کہ تبھی کہیں سے چپل آ گری۔ جھانکی میں شامل لوگوں کا الزام تھا کہ چھت سے ایک مسلم نوجوان شاہد نے چپل پھینکی تھی۔اس واقعہ کو لےکر جلوس میں شامل لوگوں نے زوردار ہنگامہ کیا۔ اس وقت پولیس نے کسی طرح حالت کو قابو میں کر لیا تھا۔

روسڑا کے گدڑی بازار کی جامع مسجد سے منسلک چھجہ سے  مورتی کے وسرجن کے جلوس میں مبینہ طور پر چپل پھینکی گئی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

روسڑا کے گدڑی بازار کی جامع مسجد سے منسلک چھجہ سے  مورتی کے وسرجن کے جلوس میں مبینہ طور پر چپل پھینکی گئی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسی رات بجرنگ دل کے کچھ رہنماؤں اور  مورتی وسرجن کرنے والوں کے درمیان  میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میں صبح مسجد کے سامنے جاکر نعرے بازی کرنے کی اسکیم تیار کی گئی تھی۔اگلی صبح وہی ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ مسجد کے سامنے جٹ گئی اور ان لوگوں نے ملزم کو گرفتار کر کےان کے حوالے کر دینے کی مانگ کی۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے نعرے بازی بھی کی۔ الزام ہے کہ مشتعل بھیڑ نے جامع مسجد میں پرچم بھی لگا دئے تھے۔گدڑی بازار سے پانچ منٹ پیدل چلنے پر پرانا بازار آتا ہے۔ یہاں چلنے والے ضیا العلوم نام کے مدرسہ میں 50 سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔ مدرسہ کے سامنے کپڑے سلنے کی دو تین دکانیں ہیں۔ ان کو مسلم چلاتے ہیں۔ مدرسہ سے سٹا ہوا ایک ہومیوپیتھی کلینک ہے۔

چپل اچھالے جانے کے واقعہ سے ناراض بھیڑ نے اس مدرسہ میں توڑپھوڑ کی تھی۔  مدرسہ کے استاد محمد شمس الدین نے کہا، ‘ 27 کی دوپہر 12 بجے میرے پاس فون آیا کہ جامع مسجد کے پاس ہنگامہ ہو رہا ہے۔ میں نے فوراً بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ ‘دوسری طرف،  پولیس پر لاپروائی برتنے کا الزام لگاکر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ اس میں کچھ  پولیس ملازم زخمی ہوئے تھے۔ چپل پھینکنے کے معاملے میں ایک مسلم نوجوان اور ہنگامہ کرنے کے الزام میں ہندو کمیونٹی کے 10 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ہندوؤں کو چھوڑنے کی مانگ پر مقامی لوگوں نے ایک ہفتے تک بازار کی دکانیں بند رکھیں تھیں۔ ضلع انتظامیہ کی پہل پر دوبارہ دکانیں کھولی گئیں۔

مسجد کے قریب 20 سال سے پرچون کی دکان چلانے والے سنیل کمار کہتے ہیں، ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں دونوں کمیونٹی میں جتنا بھائی چارہ ہے، اتنا آپ کو کہیں نہیں ملے‌گا۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ اس واقعہ کے بعد بھی ہمارے درمیان بھائی چارہ برقرار ہے۔ مسلم بھائی ہمارے یہاں سے اب بھی سامان لے جاتے ہیں۔ ‘جامع مسجد کے قریب سنجیت کمار کی آلو پیاز کی پشتینی دکان ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ واقعہ کے بعد بھی سب لوگ پہلے کی طرح امن و چین سے ہیں۔ وہ کشیدگی کے لئے باہری لوگوں کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ باہری لوگوں نے یہاں آکر ماحول کو خراب کیا ہے، ورنہ ہمارے درمیان کبھی بھی کسی بات کو لےکر جھگڑا نہیں ہوا۔ ‘

ان سب کے درمیان ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چپل گرنے کا واقعہ کو لےکر ملزم کی فیملی کے لوگوں نے غلطی قبول کر لی تھی۔ اس کی تصدیق سنیل کمار بھی کرتے ہیں۔سنیل کمار نے کہا، ‘ ملزم نو جوان کی فیملی کے لوگوں نے کہا کہ لڑکے سے غلطی ہوئی ہے اور ہم اس کے لئے معافی مانگتے ہیں۔ ‘ پورے معاملے میں اب ملزم نوجوان کا ‘ کشمیر اینگل ‘ نکال لیا گیا ہے۔سنیل کمار نے بات چیت کے سلسلے میں کئی بار یہ کہا کہ ملزم نو جوان کشمیر میں رہتا ہے اور دو دن پہلے ہی یہاں آیا تھا۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ کوئی الگ منشالےکر ہی یہاں آیا ہوگا، تبھی اس نے ایسا کیا۔انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا، ‘ مسلمانوں کی کوئی غلطی نہیں ہے، بلکہ اس نوجوان کی غلطی ہے جس نے چپل پھینکی۔ چپل پھینکے جانے کے بعد دوسری جگہ سے لوگ یہاں آئے اور ہنگامہ کیا۔ مقامی لوگ اس میں شامل نہیں تھے۔ ‘

روسڑا کا پرانا بازار واقع ضیا العلوم مدرسہ۔ اسی  مدرسہ میں شرپسندوں نے توڑپھوڑ کی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

روسڑا کا پرانا بازار واقع ضیا العلوم مدرسہ۔ اسی  مدرسہ میں شرپسندوں نے توڑپھوڑ کی تھی۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

دوسری طرف، مسلم کمیونٹی اور  پولیس نے ملزم نوجوان کے کشمیر سے کسی طرح کا تعلق ہونے کی بات کو پوری طرح خارج کر دیا۔روسڑا کے ایس ڈی پی او اجیت کمار نے کہا کہ یہ پوری طرح بکواس ہے اور  ملزم کے کشمیر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے بھی یہی بات کہی۔ایس ڈی پی او نے کہا، ‘ مقامی لوگوں کی شکایت پر ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور دوسرے کی گرفتاری کے لئے چھاپاماری چل رہی ہے۔  پولیس پر پتھراؤ اور ہنگامہ کرنے کے معاملے میں 10 نوجوانوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔ ‘

یہاں یہ بھی بتا دیں کہ روسڑا میں بی جے پی کا اچھا داخل ہے کیونکہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا یہاں خاصا اثر ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، یہاں آر ایس ایس کی کوشش سے سرسوتی ششو ودیا مندر بھی چل رہا ہے۔سال 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں یہاں کل 10500 ووٹ پڑے تھے جن میں سے 9 ہزار ووٹ بی جے پی کو ملے تھے۔ سال 2015 کے اسمبلی انتخاب میں بھی بی جے پی کو اچھے ووٹ ملے تھے۔مقامی سطح پر ایک  پَندرہ روزہ اخبار نکالنے والے صحافی سنجیو کمار سنگھ نے کہا، ‘ پورے معاملے میں انتظامیہ کی لاپروائی اجاگر ہوتی ہے۔ اگر انتظامیہ نے مستعدی دکھائی ہوتی، تو تنازعہ اتنا نہیں بڑھتا۔ ‘ انہوں نے کہا کہ فی الحال حالات معمول پر ہیں اور دونوں کمیونٹی میں پہلے کی طرح ہی میل جول ہے۔

صوبے کے جن آدھا درجن ضلعوں میں تشدد پھیلا تھا، ان میں سب سے زیادہ نقصان اورنگ آباد میں ہوا تھا۔ اورنگ آباد کے نواڈیہہ میں 25 مارچ کو مسلم محلے سے رام نومی کی شوبھایاترا نکالنے کو لےکر دنگا فساد ہوا تھا۔اس کے بعد فسادیوں نے پرانی جیٹی روڈ، جیٹی روڈ اور ایم جی روڈ کی 40 (دونوں کمیونٹی کی دکانیں شامل) سے زیادہ دکانیں جلا دی تھیں۔ انتظامیہ کو احتیاط کے طور پر علاقے میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دینی پڑی تھی۔اب یہاں بھی امن و چین کا ماحول لوٹ آیا ہے۔ ہاں، واقعہ کی اثر پذیری کے مدنظر بڑی مسجد اور دوسرے حساس علاقوں میں  پولیس کے جوانوں کی گشتی برقرار ہے۔

دکانیں حسب معمول کھل رہے ہیں۔ دونوں کمیونٹی کے لوگ پہلے کی طرح ہی ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں۔ جن لوگوں کی دکانیں برباد ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ کو معاوضہ ملا ہے اور وہ دکانیں لگا رہے ہیں۔اپنی کتاب کی دکان کھو دینے والے رام جی کمار سنگھ کے مطابق، ‘ رام نومی کی شوبھایاترا تو ہرسال نکلا کرتی ہے، لیکن کبھی بھی اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا۔ ‘نواڈیہہ میں امروز خان کے جوتے کی دکان تھی، جس کو باغیوں نے آگ کے حوالے کر دیا تھا۔ آگ میں دکان کا سارا سامان راکھ ہو گیا۔امروز خان کہتے ہیں، ‘ میری دکان بڑی تھی اور ایک سال کا اسٹاک رکھا ہوا تھا۔ آگ زنی میں قریب 60 لاکھ روپے کا نقصان ہو گیا۔ ‘وہ کہتے ہیں، ‘ یہاں دونوں کمیونٹی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ رام نومی کی شوبھایاترا کے وقت جو کچھ بھی ہوا، وہ دو کمیونٹی کے درمیان کا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ اصل میں وہ سب سوچی سمجھی سیاست کے تحت کیا گیا تھا۔ ‘

اورنگ آباد کے نواڈیہہ میں امروز خان کے جوتے چپل کی دکان کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا تھا۔ (فوٹو : امروز خان)

اورنگ آباد کے نواڈیہہ میں امروز خان کے جوتے چپل کی دکان کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا تھا۔ (فوٹو : امروز خان)

امروز نے کہا، ‘ مسلمانوں کی دکانیں جلائی جا رہی تھیں، تو ہندو بھائی اور ہماری ہندو بہنیں آگے آئی تھیں۔ ہندو بہنیں دکانوں کے سامنے کھڑی ہو گئی تھیں اور شرپسندوں سے کہا کہ ہمیں جلا دو، پر ان کی دکان نہ جلاؤ۔ ہمارے درمیان ایسا بھائی چارہ ہے۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ یہ سب ہمارے ہندو بھائیوں نے کیا ہے؟ ‘روسڑا، نوادہ، اورنگ آباد، نالندہ کی طرح ہی دوسرے کشیدہ آمیز علاقوں میں بھی حالات عام ہو چکے ہیں۔ کڑواہٹ بھول‌کر دونوں کمیونٹی کے لوگوں نے ایک دوسرے سے ملناجلنا برقرار رکھا ہے۔سماج کو بانٹ‌کر اپنی سیاست چمکانے والے لوگوں کے گال پر یہ میل جول زوردار طمانچہ ہے!

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)