خبریں

جج لویا معاملے سے متعلق کارٹون شیئر کرنے پر بستر کے صحافی پر وطن سے غداری کا مقدمہ درج

 کمل شکلا بستر میں فرضی انکاؤنٹر ، صحافیوں کی حفاظت، انسانی حقوق اور آدیواسیوں کے کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

صحافی  کمل شکلا (فوٹو : فیس بک /  کمل شکلا)

صحافی  کمل شکلا (فوٹو : فیس بک /  کمل شکلا)

نئی دہلی : چھتیس گڑھ میں بستر کے صحافی  کمل شکلا کے خلاف گزشتہ اتوار کو وطن سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ مبینہ طور پر ملک کی عدلیہ اور حکومت کے خلاف قابل اعتراض کارٹون پوسٹ کرنے سے جڑا ہے۔

ہندوستان ٹائمس کے مطابق صحافی  کمل شکلا کے خلاف کانکیر کے کتوالی پولیس تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اخبار سے بات چیت میں کانکیر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے ایل  دھروو  نے بتایا کہ ہم نے راجستھان کے رہنے والے ایک شخص کی شکایت پر شکلا کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124-اے (غداری) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ رائے پور کے سائبر سیل نے یہ مقدمہ ہمارے حوالے کیا ہے۔ جانچ چل رہی ہے اور جلدہی  کارروائی کی جائے‌گی۔

 کمل شکلا بھومکال اخبار کے مدیر ہیں۔ وہ مقامی سطح پر چھتیس گڑھ میں ہونے والے فرضی انکاؤنٹرکے خلاف آواز اٹھانے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ شکلا کئی مقامی اور قومی اخبار کے لئے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بستر میں صحافیوں کی حفاظت کو لے کرقانون کی مانگ‌کر رہے ادارہ ‘ پترکار سرکشا قانون سنیکت سنگھرش سمیتی ‘ کے چیف بھی ہیں۔

اس ادارہ کے تحت  کمل شکلا نے دہلی کے جنتر منتر سے لےکر چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں صحافیوں کے لئے مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ادارہ فرضی معاملوں میں پھنساکر جیل میں بند کئے گئے صحافیوں کی رہائی، صحافی تحفظ قانون نافذ کرنے، پولیس کے ذریعے دھمکی دینے کا سلسلہ بند کرانے سے متعلق تمام مانگوں کو لےکر فعال رہا ہے۔ہندوستان ٹائمس کے مطابق بستر میں پچھلے کچھ سالوں میں 10 سے زیادہ صحافیوں کے خلاف وطن سے غداری سمیت تعزیرات ہندکی مختلف دفعات میں مقدمہ درج کئے جا چکے ہیں۔

 ویڈیو : ظالم ہوتی جمہوریت اور محدود ہوتی پریس کی آزادی

مقدمہ درج ہونے کے بعد کمل شکلا نے فیس بک وال پر پوسٹ اپلوڈ کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کارٹون جج بی ایچ لویا کی موت پر بنایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ رائٹ ونگ کارکن ان کو ٹارگیٹ کر رہے ہیں تاکہ وہ حکومت کو ایکسپوز نہ کر پائیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ پھر بھی جمہوریت کی حفاظت کے لئے لکھتے رہیں‌گے۔

غور طلب ہے کہ جج بی ایچ لویا، سہراب الدین شیخ کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے۔ ‘ دی کارواں ‘ میں چھپی رپورٹ کی بنیاد پر جج لویا کی موت کو مشتبہ بتایا گیا تھا۔ جس کی آزاد انہ جانچ کی مانگ کو لےکر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی۔ جس کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔

kamal-shukla

 کمل شکلا نے اس پورے معاملے کو لےکر فیس بک پر لکھا ہے،

‘ غداری 124 (اے)  دفعہ مجھ پر لگائی گئی ہے۔ ملک میں جمہوری‎ اداروں کو کمزور کئے جانے کی سازش پر اکیلے میں نےتشویش ظاہر نہیں کی ہے بلکہ تمام حزب اختلاف جماعتوں سمیت صحت مند جمہوریت پر اعتماد رکھنے والے تمام صحافی، مضمون نگار دانشور اس موضوع پر رپورٹ، مضمون، کارٹون وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔

جج لویا کے موضوع پر چیف جسٹس کے کردار پر انگلی خود سپریم کورٹ کے چار سینئر مجسٹریٹ اٹھا چکے ہیں۔ کانگریس اور کئی دیگر جماعتوں نے Impeachment بھی لایا، جس کو بنا جانچے پرکھے خارج کرکے جمہوریت کو اور کرارا جھٹکا دیا جا چکا ہے۔ جب چیف جسٹس نے جج لویا کی مشکوک موت کے معاملے پر تفتیش کی مانگ خارج کر کے ملک بھر‌کے عوام کے شک کو مضبوط کر دیا کہ ملک کی سپریم کورٹ دباؤ میں ہے تو وہ کارٹون (جو اب میرے وال سے غالباً فیس بک نے ہٹا لیا ہے) کیسے غلط اور وطن سے غداری  ہو سکتا ہے۔

انصاف کی دیوی کے طور پر آنکھوں پر پٹی باندھے اور ترازو رکھے خاتون کو اس کارٹون میں نیچے گرا دکھایا گیا ہے، جس کے ہاتھوں کو موجودہ نظام کے ذمہ دار سیاستداں کے ذریعے پکڑ‌کر رکھا گیا ہے، ان کے سامنے ملک بانٹنے والا نظریہ کے چیف کھڑے ہوئے ہیں۔ تو سچ تو یہی ہے، اس میں غلط کیا ہے۔ اس کارٹون میں عدلیہ کی حالت پر فکر ظاہر کی گئی ہے جو وطن سے غداری ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر کسی کے فیس بک پوسٹ پر یہ دفعہ تو لگائی ہی نہیں جا سکتی۔

اگر سچ کہنا ہی ملک سے غداری ہے تو پھر سے سن لو، کارپوریٹ کے غلام مودی، شاہ کی لونڈی بنی بی جے پی کی حکومت نے ملک کے جمہوری‎ اداروں کو تہس نہس کر ڈالا ہے۔ عدلیہ میں اپنے چہیتوں کو بٹھا دیا گیا ہے اور بی جے پی کی حامیوں کے سنگین جرم معاف کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کو اپنے خرچ سے قائم کرنے والے سیٹھ امبانی نے ان کے حق میں ملک کا آدھا سے زیادہ میڈیا گھرانوں کو خرید‌کر جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ہے۔ یہی سچ ہے، میں بار بار کہوں‌گا۔

ساتھ یہ بھی جان لیں کہ اس طرح کی غنڈہ گردی سے میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔ میرا موبائیل چالو ہے، میرا انٹر نیٹ چالو ہے، لوکیشن کے ساتھ میرا فیس بک بھی چالو ہے۔ میری آواز بند نہیں ہوگی، نہ ہی قلم رکے‌گا۔ جب تک سانس باقی ہے۔ ‘