خبریں

’لوگ مظاہرہ کرنے سیاسی رہنماؤں کے دفتروں کے پاس کیوں نہیں آ سکتے؟‘

وسط دہلی  میں مظاہرہ پر پابندی لگانے والے  مرکزی حکومت کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے کہا ، جب انتخاب کے دوران رہنما ووٹ مانگنے کے لئے عوام کے درمیان جا سکتے ہیں تو انتخاب کے بعد مظاہرہ کرنے کے لئے لوگ ان کے دفتروں کے پاس کیوں نہیں آ سکتے؟

علامتی فوٹو : رائٹرس

علامتی فوٹو : رائٹرس

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ اگر رہنما ووٹ مانگنے کے لئے عوام سے رابطہ کر سکتے ہیں تو انتخاب کے بعد مظاہرہ کرنے کے لئے عوام ان کے دفتر کے قریب کیوں نہیں آ سکتی ہے۔ کورٹ  کا تبصرہ وسط دہلی  میں مظاہرہ پر پابندی لگانے کے لئے مستقل طور پر کرفیو  لگانے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کے دوران آیا۔ جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے کہا کہ لوگوں کے مظاہرہ کے حق کو منظوری دینے والے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی فیصلے ہیں۔

بنچ نے کہا، ‘ جب انتخاب کے دوران رہنما ووٹ مانگنے کے لئے عوام کے درمیان جا سکتے ہیں تو انتخاب کے بعد مظاہرہ کرنے کے لئے لوگ ان کے دفتروں کے پاس کیوں نہیں آ سکتے؟ ‘ وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ مرکز نے وسط دہلی  میں مظاہرہ یا لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی ہے اور آمدورفت میں رکاوٹ کو روکنے کی آڑ میں مستقل طور پر سی آر پی سی کی دفعہ 144 لگا دی ہے۔

بھوشن نے کہا کہ انہوں نے مظاہرین سے رام لیلا میدان جانے کو کہا ہے جبکہ لوگوں کے مظاہرہ کے حق کو منظوری دینے والے کئی فیصلے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ مظاہرہ اقتدار کے مرکز کے پاس ہونا چاہیے  تاکہ لوگوں کی آواز سنی جا سکے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ دہلی  ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جو کارخانہ کے گیٹ کے پاس لوگوں کے مظاہرہ کے حق کو منظوری دیتا ہے، بشرطیکہ اس سے آمدورفت متاثر نہ  ہو۔

بھوشن نے کہا کہ دہلی  پولیس کے پاس آمدورفت کی رکاوٹوں سے نمٹنے کی پوری طاقت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے مظاہرہ کے حق میں کٹوتی کی جائے۔ جمعرات کو سماعت ادھوری رہی۔ آگے کی سماعت اب 9 مئی کو ہوگی۔ غور طلب ہے کہ پچھلی سماعت میں مرکزی حکومت نے اپنی بات  رکھتے ہوئے عدالت کو کہا تھا کہ یہ پیشہ ور مظاہرین کا زمانہ ہے، جو پارلیامنٹ  یا صدر ہاؤس یا وزیر اعظم رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ ان کی آوازیں سنی جا سکیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)