خبریں

کالیجئم  کی سفارش لوٹانے کا حکومت کا  فیصلہ بے مثال : جسٹس کرین جوزف

جسٹس کرین جوزف  نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ہے جب کالیجئم  کی سفارش والے ناموں کو مرکز کے ذریعے واپس بھیجا گیا ہو۔ اس لئے معاملے پر اور زیادہ بات چیت کئے جانے کی ضرورت ہے۔

جسٹس کرین جوزف  (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر / @ashokmkini)

جسٹس کرین جوزف  (فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر / @ashokmkini)

نئی دہلی : اتراکھنڈ ہائی کورٹ  کے چیف جسٹس کے ایم جوزف  کو سپریم کورٹ  میں جج کے طور پر  پروموشن دینے کی عدالت عظمی کالیجئم کی سفارش کو واپس بھیجنے کا مرکزی حکومت کا فیصلہ بے مثال ہے اور اس پر وسیع گفتگو کئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کالیجئم  ممبر جسٹس کرین جوزف  نے کہی۔ سپریم کورٹ  کے جج نے یہاں ایک پروگرام سے الگ نامہ نگاروں سے کہا، ‘ چیزیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں، وہ ہوئیں یہ عام نظریہ ہے۔ ‘

وہ مرکز کے ذریعے کالیجئم  کی سفارش لوٹائے جانے اور اس سے سپریم کورٹ  میں جسٹس کے ایم جوزف  کے پروموشن پر نظرثانی کے لئے کہے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا، ‘ ایسی کوئی مثال نہیں ہے جب کالیجئم  کی سفارش والے ناموں کو (مرکز کے ذریعے) واپس بھیجا گیا ہو۔ اس لئے (معاملے پر) اور زیادہ بات  کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ‘

واضح  ہو کہ مرکز کی مودی حکومت نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایم جوزف  کو پروموشن دےکر سپریم کورٹ جج سے متعلق عدالت عظمی کے کالیجئم  کی سفارش گزشتہ  26 اپریل کو لوٹا دی تھی۔ اسی دن سینئر  وکیل اندو ملہوترا کو سپریم کورٹ  کا جج مقرر کیا  گیا تھا۔ کالیجئم نے 10 جنوری کو ایک تجویز میں جسٹس جوزف  اور اندو ملہوترا کو سپریم کورٹ  میں جج مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔

جسٹس جوسیف کا نام اس وقت سرخیوں میں آیا جب ان کی صدارت والی اتراکھنڈ ہائی کورٹ  کی بنچ نے اپریل 2016 کے فیصلے میں ریاست میں صدر حکومت نافذ کرنے کے نوٹیفیکشن  کو رد کرنے کے ساتھ ہی ہریش راوت حکومت کو بحال کر دیا تھا۔ پانچ رکنی کالیجئم  میں چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس جے چیلمیشور، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کرین جوزف شامل ہیں۔ حکومت کے اس قدم پر کانگریس نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اتراکھنڈ میں صدر حکومت کے خلاف فیصلے کی وجہ سے ان کے نام کو منظوری نہیں دی گئی۔