فکر و نظر

اے ایم یو تنازعہ : جناح کے بہانے یونیورسٹی پر نشانہ

 بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحو ل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوؤں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

فوٹو : شرجیل عثمانی /فیس بک

فوٹو : شرجیل عثمانی /فیس بک

1857 کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (موجودہ  اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروں کی بنیاد رکھی۔ گو کہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کیلئے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اسکے نظام اور طریقہ کار پر ان میں اختلاف تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما  کے قتل عام سے پریشان مولانا قاسم نانوتوی نے 1866 میں سہارنپور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر ایک انار کے پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن ،بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں ام المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔

مولانا نانوتوی مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب و اقدار کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نظریاتی فوج تیار کرنے کے فراق میں تھے۔ اس کے 10 سال بعد مولوی مملوک کے دوسرے شاگرد سر سید احمد خان نے دہلی کے جنوب میں 250کلومیٹر دور 1877 میں برطانوی حکومت کی مدد سے آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی جس پر انہیں کفر کے فتوے سے بھی نوازا گیا۔ اسی کالج کو بعد میں 1920میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ سرسیدمذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرکے ان کو موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان کو مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کے قابل بنانا چاہتے تھے۔

 اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنچ   کا مقابلہ  کرنے کیلئے دونوں کا لائحہ عمل متضاد رہا ہے۔ مغربی علوم پر دسترس رکھنے والےعلی گڈھ کے اسکالرز نے 20ویں صدی کے اوائل ہی میں اقتدار میں شراکت داری کا مطالبہ شروع کرکے بعد میں مسلم لیگ کی سیاست اور تحریک پاکستان کیلئے راہ ہموار کردی۔ وہیں دیوبند سے  فارغ اکثر اسکالرز نے پاور اسٹرکچر  میں مرکزی کردار ڈھونڈنے کے بجائے کانگریس کے سیکولرازم پر اعتماد  کرکے اسکا حاشیہ بردار بننے پر ترجیح دی۔ دیوبندی علما  کی تنظیم جمیعتہ علما ہند تو 1992میں بابری مسجد کی شہادت تک ایک طرح سے کانگریس کی ذیلی تنظیم کی طرح کام کرتی رہی ہے۔ان کے اکابرین کو اس کے عوض راجیہ سبھا کی نشستیں نصیب تو ہوئی، مگر ان عہدوں کا کتنا فائدہ عام مسلمان کو ہوا ، اس کی پول 2006میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے کھول دی۔

مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر 1000 ایکڑ پر محیط علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں فی الوقت 30ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ 11ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف 350مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڈھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے۔ جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔

ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اسکی رینکنگ ساتویں نمبر پر ہے، اس کا میڈیکل کالج 9ویں  مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارہ کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ملک کی  سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ادارہ کے رابط عامہ کے سابق افسر راحت ابرار کے کمرہ میں صبح سویرے ہند ی اخبارات اور چینل کے نمائندے آدھمکتے تھے۔ چائے بسکٹ نوش کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ان کے آفس سے دباؤ ہے کہ یونیورسٹی سے کوئی تڑکتی پھڑکتی خبر لانی ہے، جس کونمک مرچ لگا کر مشتہر کرنا ہے۔ حال کا قضیہ بھی کچھ اسی کی کڑی ہے۔

 1938میں اسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر اچانک قابل اعتراض ہوگئی۔ فرقہ پرست تنظیموں نے مقامی ممبر پارلیا منٹ کی شہ پر تشدد اور ہنگامے کئے ، حتیٰ کہ یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ کو نشانہ بنایا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہ گئی۔ چند سال قبل میں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میں مدعو تھا۔ وائسرائے ہاوس میں بنائے گئے اس ادارہ کے ایک ہال میں بھی قائد اعظم کی ایسی ہی ایک تصویر ٹنگی ہے۔ پارلیامنٹ اور دہلی کے تین مورتی ہاؤس میں بھی جنگ آزادی کی  سرخیوں کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر آویزاں ہے۔ علی گڈھ کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ نریندر مودی کی دوسری اننگ کیلئے فضا تیار کی جائے۔

 بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحو ل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوؤں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر اور اسی قبیل کے کئی دیگر افراد یونیورسٹی کے ذمہ داران کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ از خود حالات کی بہتری اور ادارہ کے مفاد کی خاطر اس تصویر کو ہٹائیں۔ صحافی شمس تبریز قاسمی سوال کرتے ہیں’’ کہ کیا تصویر ہٹادینے سے تنازع ختم ہوجائے گا؟ کیا فرقہ پرستوں کی جانب سے مستقبل میں کسی اور معاملے کو لیکرادارہ پر حملہ نہیں کیاجائے گا ؟ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ بی جے پی کو تکلیف جناح کی تصویر سے ہے یا اے ایم یو کے وجودسے ؟وہاں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ سے؟مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی سے؟‘‘ان کا اگلا اعتراض یونیورسٹی کے نام میں شامل لفظ مسلم پر ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتاجس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔کبھی ان کا اعتراض کیمپس میں موجود مساجد کو لیکر ہوگا۔

 2015 میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اپنا نظریاتی رنگ دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ اسکولوں میں داخل ہونے والے 100بچوں میں سے صرف 11 اعلیٰ تعلیم تک پہنچ  پاتے ہیں جبکہ ہندوؤں میں یہ تعداد 20 فیصد اور عیسائیوں میں31 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت علی گڈھ اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 50 فیصد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں۔مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے سیکولرزم کی دہائی دی جارہی ہے۔ چنانچہ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ  میں کہا: ”ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے‘‘۔ گویا جو سیکولرزم بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی ‘قابل نفرت‘ اصطلاح کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

AMUVCAppeal

 چند برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر صبغت اللہ فاروقی نے مجھے بتایا تھا کہ گزشتہ کانگریس حکومت نے بھی اس ادارے کو کافی نقصان پہنچایا ۔ ان کے مطابق 535کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ میں سے 95 فیصد صرف تنخواہ وغیرہ پرجاتی ہے اور ایک قلیل رقم ریسرچ اور دوسرے کاموں کے لیے بچتی ہے۔ اور تو اور گزشتہ حکومت نے کیرالا، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے کیمپس بنانے کا اعلان کیا جن کے اخراجات اسی گرانٹ سے پورے کرنے ہیں۔ ان علاقوں میں معیاری سکول اور کالج بنانے سے پہلے یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے مسلم طلبہ کہاں سے آئیں گے؟ اس لیے اکثر ذی شعور افراد اسے بھی یونیورسٹی کی شناخت پر خاموش حملہ قرار دے رہے ہیں۔

حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ مسلمانوں نے قائم نہیں کیے، بلکہ پارلیامنٹ کے ایکٹ سے معرض وجود میں آئے۔ ایک کالج کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کرنے کا آخر اورکون سا طریقہ ہے؟ پارلیامنٹ کے ایکٹ سے ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ بہرحال، علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔60کی دہائی میں اس وقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے کیمپس کے ایک معمولی واقعہ کو بہانہ بنا کر پارلیامنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا، جس کو 1967میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جد وجہد کے بعد 1981 میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ اسی پارلیامانی ایکٹ میں خامی نکالتے ہوئے 20 اکتوبر 2005 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونیورسٹی اور اس وقت کی منموہن سنگھ حکومت نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ کیس زیر سماعت ہے۔

اس تنازعہ میں مسلمانوں کیلئے خیر کا ایک پہلو بھی چھپا ہے۔ گزشتہ  70سالوں سے مسلم طبقہ کو ایک طرح سے تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرا کر دائمی احساس جرم میں مبتلا کرکے رکھا گیا ہے۔ اس معاملہ میں سیکولر کانگریس اور راشٹریہ سیوم سنگھ (آر ایس ایس) کا موقف یکسا ں ہے۔ جہاں تقسیم اور اس کے محرکات پر کہیں بحث چھڑ گئی ، دونوں تنظیمیں اکھٹا ہوکر اس کو دبانے میں لگ جاتی ہیں۔بی جے پی کے اعتدال پسند لیڈر جسونت سنگھ نے جب Jinnah India-Partition Independence کتا ب لکھ کر محرکات پر سے پردہ اٹھایا تو آر ایس ایس اور کانگریس دونوں نے یکجاہوکر ان کو سیاست سے ہی کنارہ کروادیا۔ بی جے پی کے سابق صدر لال کرشن  اڈوانی کا حال بھی سامنے ہے۔

ویڈیو : اے ایم یو میں جناح تنازعہ اور میڈیا

 وقت آگیا ہے کہ مسلمان اور ان کے لیڈران تاریخ کے دریچے کھول کر تقسیم او ر لیڈروں کے کردار پر کھل کر بحث کریں اور ان سبھی لیڈروں کو بے نقاب کریں جنہوں نے مسلمانوں کو بے وقعت کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی اور جن کی ہٹ دھرمی نے تقسیم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے ، جو انہوں نے بدھ مت، جین مت، سکھوں ، بھکتی تحریک وغیرہ کے ساتھ کیا ہے۔ اس ذہنیت نے ہر اس انقلابی ،مذہبی یا روحانی تحریک کو نگلا ہے، جس نے بھی اس کو چیلنج  کرنے کی ہمت کی ہو۔ ان کی نیت صرف یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر سے وہ جوہر کھینچ کیا جائے جو انہیں زندہ اور بے باک رکھتا ہے۔بس یہی ایک چیز ہے جس سے ہندو فرقہ پرست عفریت پیچ و تاب کھا رہا ہے اور شکار پھانسنے کے نئے نئے منصوبے بناتا رہا ہے۔مسلمانوں کو معتوب بنانے کیلئے اس کو دائمی احساس جرم میں مبتلا رکھا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرسکے۔ سیکولر کانگریس کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بحث چھڑ گئی تو نہ صرف اس کا سیکولر جامہ اتر جائے گا، بلکہ اس کے لیڈران کی پول بھی کھل جائے گی۔