فکر و نظر

ہمارے کھانے کا ذائقہ بڑھانے والا لہسن کسانوں کی صحت کیوں بگاڑ رہا ہے؟

راجستھان کے  ہاڑوتی ڈیویژن کے کسانوں نے گزشتہ سال لہسن کی اچھی قیمت ملنے کی وجہ سے اس بار زیادہ لہسن بویا، لیکن کم قیمت ملنے کی وجہ سے ابتک تین کسان خودکشی کر چکے ہیں جبکہ دو کی موت صدمے سے ہو گئی ہے۔

چھیپابڑود کی لہسن منڈی کا سرکاری خرید مرکز (فوٹو : اودھیش آکودیا)

چھیپابڑود کی لہسن منڈی کا سرکاری خرید مرکز فوٹو : اودھیش آکودیا

ایک مہینے پہلے تک اپنے کھیتوں میں لہلہا رہی لہسن کی فصل کو دیکھ‌کر خوش ہونے والے کشور گاڈری کی آنکھیں اب گیلی ہیں۔ راجستھان کے باراں ضلع‎ کے دیگود خالصہ گاؤں کے رہنے والے کشور کا گلا لہسن کا نام سنتے ہی رندھ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ پھوٹ پھوٹ‌کر رونے لگتے ہیں۔انہوں نے اس بار اپنی پوری 5 بیگھا زمین میں لہسن بویا تھا۔ سوچا تھا پچھلے سال کی طرح اس بار بھی اچھی قیمت ملے‌گی تو فیملی کی مالی حالت سدھر جائے‌گی۔ اسی امید میں اچھا بیج خریدا، خوب کھاد ڈالا، دو بار پیسٹی سائڈ کاچھڑکاؤ کیا، 6 بار آب پاشی کی اور پوری فیملی نے فصل کو پالا۔

لہسن نے بھی کشور اور ان کی فیملی کی محنت کا پورا مان رکھا۔ پیداواراچھی ہوئی۔ کل 48 کوئنٹل لہسن زمین پر ہوا۔ لیکن کشور جب اس کو بیچنے منڈی گئے تو قیمت سن‌کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔1 روپے 95 پیسے پر کلو کی قیمت سے ان کا لہسن محض 9360 روپے  میں بکا۔ کشور کہتے ہیں، ‘ پچھلی بار لہسن 40 روپے  فی کلو بکا تھا۔ مجھے امید تھی کہ اس بار بھی اتنی ہی قیمت رہے‌گی، لیکن دو روپے  کلو بھی قیمت نہیں ملی۔ بیج، کھاد، دوائیاں اور فصل کو پانی دینے میں ہی 72 ہزار روپے  خرچ ہو گئے۔ دو ہزار روپے  تو منڈی تک مال لے جانے میں خرچ ہو گئے۔ اس نقصان کی بھرپائی کیسے ہوگی؟ اس بار رام نہیں روٹھا تو قیمت روٹھ گئی۔ ‘

لہسن کی کم قیمت کی مار جھیلنے والے کشور اکیلے کسان نہیں ہیں، راجستھان کے ہڑوتی دیویژن (کوٹہ، بوندی، باراں اور جھالاواڑ ضلعے‎) کے ہزاروں کسانوں کا کم و بیش یہی حال ہے۔ کم قیمت ملنے کی وجہ سے ابتک تین کسان خودکشی کر چکے ہیں جبکہ دو کی موت صدمے سے ہو گئی ہے۔ وہ کسان زیادہ پریشان ہیں جنہوں نے قرض لےکر فصل بوئی تھی۔ باراں ضلع‎ کے رہلائی گاؤں کے ریوڑی لال بھی ان میں سے ہی ایک تھے۔ ان کے بیٹے بتاتے ہیں، ‘ ہم نے 90 ہزار روپے  ادھار لےکر 7 بیگھا زمین میں لہسن بویا تھا۔ اس بار پیداوار بھی اچھی ہوئی۔ 22 اپریل کو پتا جی  منڈی میں لہسن کی قیمت پتا کرنے گئے تھے۔ وہاں ان کو 1.50 روپے فی کلو کی قیمت بتائی گئی۔ اس سے وہ بہت پریشان تھے۔ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ اب قرض کیسے چکے‌گا؟ شام کو انہوں نے زہر کھاکر اپنی جان دے دی۔ ‘

بےحد کم قیمت  ملنے کے باوجود زیادہ تر کسانوں نے اپنی پیداوار بیچ دی ہے۔ باراں ضلع‎ کے بنجاری گاؤں کے جوان کسان گووند سین اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ زیادہ تر کسانوں نے قرض لےکر فصل بوئی تھی۔ جو بھی قیمت مل رہی ہے اس میں ہی لہسن بیچنا ہماری مجبوری ہے۔ کچھ تو رقم ہاتھ میں آئے‌گی۔ کچھ تو قرض اترے‌گا۔ میں نے تین روپے  فی کلو کی قیمت سے 30 کوئنٹل لہسن بیچا ہے۔ ‘کچھ کسان ایسے بھی ہیں جنہوں نے کم قیمت کی مخالفت کرتے ہوئے لہسن سڑک پر پھینک‌کر اپنی مخالفت درج کرائی۔

وہیں، کئی کسان تنظیموں  نے بھی کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ اس سے حکومت کے کانوں پر جوں تو رینگی، لیکن اس نے جو فیصلہ لیا وہ کسانوں کے زخموں پر نمک ثابت ہو رہا ہے۔دراصل، حکومت نے کسانوں کو راحت دینے کے نام پر Market Intervention Scheme(ایم آئی ایس ) کے تحت 32.57 روپے فی کلو کی در سے لہسن کی خرید کرنے کا اعلان تو کر دیا، لیکن اس کی شرطیں اتنی کڑی کر دیں کہ چند کسان ہی ان کو پورا کر پا رہے ہیں۔ خرید کی پہلی شرط یہ ہے کہ لہسن کی گانٹھ کم از کم 25 میلی میٹر ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ وہ گیلی، ڈھیلی اور پچکی ہوئی نہیں ہونی چاہئے۔ ان شرطوں کو کتنے کسان پورا کر پا رہے ہیں ، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھیپابڑود (باراں) واقع راجستھان کی اکلوتی لہسن منڈی کے سرکاری خریداری  مرکز پر شروع کے8 دنوں میں محض دو کسان ہی اپنی پیداوار بیچ پائے ہیں۔

پیداوار سے جڑی شرطوں کے علاوہ سرکاری مرکز پر پیداوار بیچنے کے لئے آن لائن نامزدگی سے متعلق ایک اصول بھی کسانوں کے لئے سر درد ثابت ہو رہا ہے۔ دراصل، وہ کسان ہی سرکاری قیمت پر لہسن بیچنے کے اہل ہیں جنہوں نے اس سیزن میں کوئی دوسری  فصل Minimum Support Price پر نہ بیچی ہو۔ اس اصول کی وجہ سے ایسے ہزاروں کسان سرکاری مرکز پر لہسن نہیں بیچ پا رہے ہیں جنہوں نے پہلے ہی گیہوں، چنا یا سرسوں سرکاری قیمت پر بیچا ہے۔ اس اصول سے ایسے کسان زیادہ پریشان ہیں جن کے لہسن کی پیداوار زیادہ ہوئی، لیکن کچھ دوسری پیداوار اچھی قیمت ملتی دیکھ‌کر سرکاری مرکز پر پہلے بیچ دیں۔

کسان مہاپنچایت کے ریاستی کنوینر ستیہ نارائن سنگھ کہتے ہیں، ‘ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کی منشا ہی لہسن خریدنے کی نہیں ہے۔ یہ سب کو پتا ہے کہ راجستھان میں زیادہ تر کسان دیسی لہسن بوتے ہیں، جس کی اوسط ساخت 15 سے 22 میلی میٹر ہوتی ہے۔ ایسے میں خرید کے لئے کم از کم 25 میلی میٹر ساخت کی شرط رکھنا سمجھ سے پرے ہے۔ ‘ وہ مزید بتاتے ہیں، ‘ اسی حکومت نے گزشتہ  سال لہسن کے لئے 20 میلی میٹر کم از کم ساخت کی شرط رکھی تھی۔ فی الحال سرکاری مراکز پر لہسن کی خرید نہ کے برابر ہو رہی ہے۔ زیادہ تر کسان اونے پونے داموں پر اپنی پیداوار بیچ رہے ہیں۔ ‘

صرف کسان اور ان سے جڑی تنظیم ہی حکومت کی پالیسی پر سوال کھڑے نہیں کر رہی  ہے، حکمراں بی جے پی کے مقامی ایم ایل اے بھی اس پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ چھیپابڑود کی لہسن منڈی جس چھبڑا اسمبلی  حلقہ میں آتی ہے، وہاں کے ایم ایل اے پرتاپ سنگھ سنگھوی عوامی طور سے حکومت کی منشاپر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ سنگھوی کہتے ہیں، ‘ حکومت نے لہسن خریدنے ‌کےجو اصول بنائے ہیں وہ نہ تو عملی ہیں اور نہ ہی منطقی۔ ان کی وجہ سے زیادہ تر لہسن پیدا کار کسان سرکاری خرید کے عمل سے باہر ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر کو بہت کم دام پر اپنی پیداوار بیچنی پڑ رہی ہے۔ اس سے ان کی لاگت بھی نہیں نکل رہی۔ میں نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ‌کر اصولوں کو عملی بنانے کی مانگ کی ہے۔ ‘

حالانکہ، ریاست کے وزیر زراعت پربھولال سینی یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ سرکاری خرید مراکز پر کسانوں کو کوئی مسئلہ آ رہا ہے۔ سینی کا کہنا ہے، ‘ سرکاری مراکز پر خرید‌کے اصول بنے ہوئے ہیں۔ ان پر عمل کرتے ہوئے لہسن اور دوسری فصلوں کو خریدا جاتا ہے۔ خراب پیداوار کی خرید کرکے حکومت کیا کرے‌گی؟ حکومت کسانوں کا پورا دھیان رکھ رہی ہے۔ بمپر پیداوار کی وجہ سے لہسن کی قیمت گری ہے جس کی بھرپائی کے لئے حکومت نے 32.57 روپے  فی کلو کی در سے لہسن خریدنا شروع کیا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ آ رہا ہے تو حکومت اس کا بھی حل کرے‌گی۔ ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جے پور میں رہتے ہیں۔)