ادبستان

نہیں رہے نوجوان داستان گو انکت چڈھا 

وہ پونے اپنی ایک پیش کش کے لیے گئے تھے، یہاں سے 62 کلومیٹر دور کامشیٹ کے پاس اُکسان جھیل گھومنے کے دوران ان کا پیر پھسل گیا اور جھیل میں ڈوبنے سے ان کی موت ہو گئی۔

فوٹوبشکریہ:ڈبلیوڈبلیوانکت چڈھاڈاٹ ان

فوٹوبشکریہ:ڈبلیوڈبلیوانکت چڈھاڈاٹ ان

نئی دہلی : اُردو میں ’ داستان گوئی ‘کو پھر سے زندگی دینے میں مصروف نوجوان داستان گو انکت چڈھا کی 30 سال کی عمر میں موت ہو گئی۔ دہلی کے لودھی روڈ واقع شمشان میں 11 مئی کو  آخری رسوم ادا کر دی گئی۔وہ پونے اپنی ایک پیش کش کے لیے گئے تھے، یہاں سے 62 کلومیٹر دور کامشیٹ کے پاس اُکسان جھیل گھومنے کے دوران ان کا پیر پھسل گیا اور جھیل میں ڈوبنے سے ان کی موت ہو گئی۔ وہ ایک دوست کے ساتھ گھومنے کے لئے جھیل گئے ہوئے تھے۔

واقعہ پرسوں یعنی 9 مئی کی شام کا ہے۔ ڈوبنے کے کئی گھنٹے بعد ان کی لاش کو باہر نکالا جا سکا۔انکت پونے کی کلیانی نگرمیں 12 مئی کو اپنا فن پیش کرنے  والے تھے۔ ان کی فیملی میں ان کے ماں باپ اور بڑے بھائی ہیں۔انکت پچھلے کئی سالوں سے داستان گوئی کر رہے تھے۔ خاص طور پر وہ کبیر کی بات کو اُردو کی داستان میں پروکر سنانے کے لئے جانے جاتے تھے۔ وہ جشنِ ریختہ، کبیر اُتسو جیسے اہم منچ پر اپنی موجودگی درج کرانے کے ساتھ ساتھ ملک اور بیرونِ  ملک میں بھی اپنا فن پیش  کر چکے تھے۔

13ویں صدی کی مشہور فنِ داستان گوئی کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے جانے جانے والے محمود فاروقی کے ہونہار شاگردوں میں سے ایک انکت چڈھا نے کئی نئی اور ایک دم انوکھی داستانیں لکھیں جن کو خوب سراہا گیا۔ان داستانوں میں امیر خسرو کی داستان، کبیر کی داستان، موبائل فون کی داستان، کارپوریٹ دنیا کی داستان اور اردو شاعر مجاز لکھنوی کی داستان اہم ہیں۔

تقریباً تین سال پہلے تہلکہ میگزین میں شائع اپنے ایک مضمون میں انکت نے کہا تھا، ‘ میرا ماننا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو لگتا ہے کہ وہ کہانی سنانے کی ہماری صدیوں پرانی اس روایت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتا ہے،وہ شخص ایک بیج ہے۔ یہ بیج سنانے والے یعنی ‘ داستان گو ‘ بھی ہو سکتے ہیں، اور سننے والے یعنی ‘ سامعین ‘ بھی۔ ‘انکت کی ویب سائٹ کے مطابق، وہ کبیر، رحیم، داراشکوہ، مجاز اور امیر خسرو پر مبنی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ وہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کیا کرتے تھے تاکہ جدید کہانیوں کو داستان گوئی کے ذریعے لوگوں تک پہنچا سکیں۔

اسکرال ڈاٹ ان کی رپورٹ کے مطابق، انکت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے نوجوان داستان گو تھے۔ داستان گوئی کو لےکر انکت ہاورڈ اور ایل یونیورسٹیوں سمیت کئی عالمی منچوں پر پروگرام کر چکے ہیں۔انکت دہلی یونیورسٹی کے ہندو کالج سے تاریخ میں گریجویٹ تھے۔ محمود فاروقی کے ساتھ داستان گوئی سے پہلے وہ اپنے اسٹریٹ تھیٹر تنظیم ابتدا کے صدر بھی تھے۔

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں محمود فاروقی کہتے ہیں، ‘ وہ بہت لائق اور اچھا انسان تھا۔ وہ داستان گوئی کو نئی بلندیوں پر لے جا رہا تھا۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میں نے اس کو چھ سال تک سکھایا ہے۔ ‘امیر خسرو کے اثر کی وجہ سے انہوں نے ‘ امیر خسرو : دی مین ان رڈلس ‘ (2016) نام کی کتاب لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ السٹریٹر راجیش وینگڑ اور نینا سبنانی کے ساتھ 2014 میں ‘ آئی مائی گاندھی اسٹوری ‘ کے معاون مضمون نگار بھی تھے۔